عزیز ہم وطنو! آپ تگڑے ثابت ہوئے اب اسی طرح سوچو
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
شکتی یعنی طاقت کی ہندو مت میں اہمیت ہے، بی جے پی ہندوتوا، ہندو اسٹیٹ ہندو طاقت کے طور پر انڈیا کو بطور ریاست فروغ دے رہی ہے، کبھی اپنی سافٹ پاور کا اظہار کرتے ہیں، کبھی اپنی معیشت پر ناز ہوتا ہے، کبھی سیاست میں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی سفارت میں۔
ہندو مت کے حساب سے 51 شکتی پیٹھ ہیں، یعنی ایسے مقامات جہاں پوجا کرکے شکتی (طاقت) حاصل کی جاسکتی ہے، ان 51 میں سے 18 مہا شکتی پیٹھ (سپر نیچرل طاقت) کے مراکز ہیں، پاکستان میں ایسے دو مراکز ہیں، ہنگلاج ماتا مندر شکتی پیٹھ ہے جو ہنگول نیشنل پارک بلوچستان میں کوسٹل ہائی وے کے قریب واقع ہے۔
بی جے پی کے بانی ممبر آنجہانی جسونت سنگھ انڈیا کے وزیر خزانہ، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع رہے ہیں۔ یہ ہنگلاج ماتا مندر سے گہری وابستگی رکھتے تھے، اس کا دورہ کرنے 2006 میں پاکستان بھی آ چکے ہیں، بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ ترون وجے اس مندر تک رسائی کے لیے سہولتوں کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
آسام کے موجودہ وزیراعلیٰ ہمنت بسوا سرما ہنگلاج ماتا مندر تک رسائی کا مطالبہ تو کرتے ہیں، ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان کی آزادی کی حمایت اس ہندو مقدس مقام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بھی کرنی چاہیے۔
شاردا مندر (شاردا پیٹھ) وادی نیلم آزاد کشمیر میں واقع ہے، شاردا مندر 18 مہا شکتی پیٹھ میں شامل ہے، انڈین وزیراعظم نریندر مودی، انڈین وزیر خارجہ امیت شاہ، بی جے پی کے نائب صدر اویناش رائے کھنہ سمیت شاردا سے عقیدت رکھنے والے بی جے پی رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے، جب بی جے پی قیادت آزاد کشمیر کو واپس لینے کا کہتی ہے تو اس کے پس منظر میں پوری سنجیدگی اور شاردا کے مذہبی مقام سے وابستگی بھی ہوتی ہے۔
ہمارے بھارت مہان نے اپنی شکتی (طاقت) کا غلط اندازہ لگایا، دہشتگردی کے ایک واقعے کی تفتیش مکمل کیے بغیر ملزموں کی شناخت یا گرفتاری کے بغیر ہی پاکستان کو اپنا ماسی ویڑا سمجھتے ہوئے انٹرنینشل باڈر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حملے کیے۔ انڈین فضائیہ کا ان حملوں میں جلوس نکل گیا، ڈیفنس کی عالمی نیوز سائٹ میں بھارتی سینا کی مہارت کا مجرا ہو رہا ہے، جبکہ پاکستان بطور ایک ریجنل پاور زیر بحث ہے۔
چائنا اکیڈمی کی ویب سائٹ پر 7 مئی کے دن کی روداد کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے۔ 7 مئی 2025 کو پاک فضائیہ نے کشمیر کے فضائی معرکے میں بھارت پر برتری ثابت کرتے ہوئے 5 بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جن میں 3 جدید ترین رافیل بھی شامل تھے۔
پاکستان کا ہوم میڈ لنک 17 نیٹ ورک جس نے چینی ٹیکنالوجی کے ساتھ اپنے پاس موجود مختلف سسٹم کو مکمل ہم آہنگ (انٹیگریٹ کیا) کر لیا تھا۔ اس سے کامیابی کے ساتھ ایک مؤثر ”kill chain“ بنا لی ہے۔ تمام بھارتی طیارے بھارتی حدود کے اندر اس طرح گرائے گئے کہ کسی پاکستانی جیٹ نے بھارتی حدود کراس نہیں کی، اس کارروائی میں امریکی ایف 16 طیارے استعمال نہیں کیے گئے۔
یہ کامیابی چینی جے 10 سی طیاروں، پی ایل 15 ای میزائلوں، اور سویڈن کے Erieye اور چینی ساخت کے ZDK-03 جیسے ریڈار سسٹمز کو باہم مربوط کرکے ان کے بہترین امتزاج سے ممکن بنائی گئی۔ بھارت اگرچہ زیادہ طیارے رکھتا ہے، مگر ان کی باہمی مطابقت نہ ہونے کے باعث کارکردگی محدود رہی۔ انڈیا کے پاس موجود روسی اور فرنچ جیٹ اور سسٹم آپس میں کوآرڈینیٹ نہیں کر پاتے اور نہ ہی ریئل ٹائم میں آپس میں معلومات کا تبادلہ کر پاتے ہیں۔
کسی فرنچ کا حال پوچھیں تو وہ جواب میں انڈین مہارت کے داد دینے کو شاعری شروع کر دیتا ہے، دنیا کا ہمارے بارے خیال اور انداز تو تبدیل ہونا ہی تھا ہوگیا، پاک بھارت تناؤ کے ان دنوں میں پاکستان مخالف آوازیں پہلے مدہم ہوئیں پھر خاموش ہوگئیں۔ یہ وہ پاکستانی تھے جن کو ریاست، سیاست اور حکومت سے گلے ہیں، افغانستان کی جانب سے بھی ان دنوں پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہیں کیے گئے، نہ اختلافی باتیں منظر عام پر آئیں۔
پاکستانی ریاست نے طرح طرح سے اپنی مضبوطی ثابت کی ہے، سیاسی عدم استحکام، تقسیم، بظاہر کمزور معاشی حالت اور ہر وقت تنقید کی زد میں رہنے والی فوج اور حکومت، اس سب کے ساتھ جو ہوا وہ معجزہ ہے۔ اب اس طاقتور پوزیشن کی فیل لیتے ہوئے اعتماد کے ساتھ بڑے کام ہونے چاہییں۔ معیشت اور سیاست کو سیدھا کرنے کے لیے وہ سب اقدامات لیں، جن سے فیل گڈ کا تاثر بنے۔
بلوچستان اور سابق فاٹا میں سیاسی اور معاشی پیشرفت کی ضرورت ہے، لوگوں کو دکھائی دیتے ریلیف ملنے چاہییں، ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی معاشی تعلقات کو تیزی سے بہتر کر لینا چاہیے، جن کو بندوق کے ذریعے اپنے نظریاتی نشے پورے کرنے ہیں ان کے نشے بندوق سے ہی اتارنے بنتے ہیں، اگر آپ ریجنل طاقت ثابت ہوئے ہیں، تو سوچیں بھی اسی طرح، وہ میگا پراجیکٹ شروع کریں جو پاکستانیوں کی حقیقت میں قسمت بدلیں اور گیم چینجر ثابت ہوں، اس کے لیے بطور طاقت ہی سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
wenews بھارت پاکستان پاکستان بھارت جنگ چائنا خطے میں نئی طاقت رافیل طیارے معاشی مسائل ہم وطنو وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان پاکستان بھارت جنگ چائنا رافیل طیارے وی نیوز بی جے پی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔
قطری دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔
بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔