پنجاب اسمبلی : وزرا‘ارکان کی اکثریت غیرحاضر‘ کو رم نشاندہی پر اجلاس ملتوی : ’’مودی کا جویار‘ غدار ہے ‘‘ کے نعرے
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
لاہور (خصوصی نامہ نگار) عدم دلچسپی یا مصروفیت، پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے وزراء، پارلیمانی سیکرٹریز اور ارکان اسمبلی کی کثیر تعداد غیر حاضر رہی۔ سوالات کے جوابات اور توجہ دلائو نوٹس کا جواب دینے کیلئے کوئی وزیر ایوان میں نہ تھا۔ مختصر کارروائی کے بعد اجلاس آج دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کا اجلاس پچاس منٹ کی تاخیر سے پینل آف چیئرمین راحیلہ خادم حسین کی صدارت میں شروع ہوا۔ محکمہ خزانہ کے بارے میں سوالوں کے جوابات صوبائی وزیر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے دئیے، رکن اسمبلی امجد علی جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے بتایا کہ محکمہ خزانہ کی ڈسٹرکٹ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کل 60 اسامیاں خالی ہیں، پنجاب ٹریژری اینڈ اکائونٹس سروس کی 16 جبکہ کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس کے ماتحت سات اسامیاں خالی ہیں، ہم محکمہ خزانہ کیلئے ڈسٹرکٹ کے لوگوں کو ٹرانسفر کرکے خالی اسامیوں کے کام چلا رہے ہیں، ہائی کورٹ میں محکمہ خزانہ کے 123لوگ کیس لڑ رہے ہیں اگر وہ واپس آ گئے تو پھر بہت مسائل ہوں گے۔ صرف ایک رکن امجد علی جاوید کے سوالوں کے جواب دئیے گئے، باقی تمام سوالات ارکان کی غیر موجودگی کے باعث نمٹا دئیے گئے۔ پارلیمانی امور کے وزیر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن بھی وقفہ سوالات کے فوری بعد ایوان سے چلے گئے۔ اپوزیشن رکن رانا آفتاب احمد اور رانا شہباز نے پینل آف چیئرپرسن کی توجہ وزراء اور پارلیمانی سیکرٹری کی عدم موجودگی پر دلائی اور کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کیلئے کوئی سنجیدہ نہیں‘ لہٰذا اجلاس آدھ گھنٹہ کیلئے ملتوی کیا جائے، حکومتی 10 ایم پی ایز ایوان میں بیٹھے ہیں وہ خود دیکھ رہے ہیں ایوان کیسے چلے گا۔ اپوزیشن رکن رانا شہباز نے ایوان میں نعرے بازی شروع کردی’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘، اس دوران حکومت کی جانب سے فرانزک سائنس ایجنسی پنجاب کی سالانہ کارکردگی رپورٹس برائے سال 2013-2023 ایوان میں پیش کی گئی۔ اپوزیشن کی بات نہ سننے پر اپوزیشن رکن وقاص مان نے کورم کی نشاندہی کر دی، کورم پورا نہ ہونے پر پینل آف چیئر پرسن راحیلہ خادم حسین نے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کی ہدایت کی تاہم کورم پھر بھی پورا نہ ہو سکا جس پر پینل آف چیئر مین نے اجلاس آج دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی ایوان میں
پڑھیں:
پنجاب میں اپوزیشن کے دبانے کا کھیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پنجاب میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے پی ٹی آئی کے 26 ارکان اسمبلی کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر میں خلل ڈالنے، مخالفانہ نعرے لگانے، ہنگامہ آرائی کرنے اور اسپیکر کے گھیرائو کرنے پر نہ صرف 26 ارکان اسمبلی کو سیشن سے باہر نکال کر ان پر کچھ وقت کے لیے پابندی لگادی بلکہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو سیاسی طور پر خوش کرنے کے لیے اب فیصلہ کیا جارہا ہے کہ ان 26 ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے تاکہ ان ارکان اسمبلی کو سیاسی طور پر سبق سکھایا جاسکے اور ان پر اسپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلیاں ان میں اس طرح کی اپوزیشن کی جانب سے ہونے والی ہنگامہ آرائی ہماری پارلیمانی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ خود مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھی تو ان کا رویہ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ایسا ہی تھا اور قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں میں ہم مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے محاز آرائی پر مبنی سیاسی تماشے دیکھ چکے ہیں۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ مریم نواز جو خود کو پنجاب کا عملاً سیاسی بادشاہ سمجھتی ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کوئی بھی سیاسی راستہ دینے اور تنقید بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں اپوزیشن ارکان کے خلاف حالیہ کارروائی بھی اسپیکر صوبائی اسمبلی کو وزیر اعلیٰ مریم نواز کے حکم پر کرنا پڑ رہی ہے ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے ارکان کو سبق سکھایا جائے کہ ان کو جرأت کیسے ہوئی کہ وہ وزیر اعلیٰ کی تقریر پر ہنگامہ کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے پنجاب میں یہ اسمبلی اور حکومت بنی ہے تو وزیر اعلیٰ مریم نواز صرف دو بار اسمبلی فلور پر آئی ہیں اور وہ خود بیش تر اجلاسوں سے غیر حاضر رہتی ہیں تاکہ ان کو اپوزیشن کی تنقید نہ سننا پڑے۔ بدقسمتی سے ہماری پارلیمانی سیاست میں حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کا مجموعی رویہ ہمیشہ سے غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رہا ہے اور اس میں تمام بڑی حکمران جماعتوں کا رویہ ٹھیک نہیں رہا۔ مگر جس انداز سے اس دفعہ پنجاب میں ارکان اسمبلی کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے وہ نہ صرف ہائبرڈ نظام کی عکاسی کرتا ہے بلکہ حکمران طبقات کے آمرانہ اور بادشاہت پر مبنی نظام کی جھلک کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ مریم نواز کی حکمرانی میں شخصی حکمرانی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے اور وہ خود کو طاقت کے مرکز کے گرد رکھنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ ان کے اردگرد مریم اورنگ زیب اور اعظمی بخاری بھی اسی وجہ سے مریم نواز کی سیاسی چاپلوسی میں پیش پیش رہتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مریم نواز کی حکمرانی ڈیجیٹل میڈیا کے سہارے کھڑی ہے۔ مریم نواز کا رویہ محض اپوزیشن کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ عملاً سرکاری یعنی مسلم لیگ ن کے ارکان کے ساتھ بھی دوہرے معیار رکھتی ہیں اور ان کو اہم فیصلوں میں نظرانداز کرتی ہیں اور خود ان کے اپنے کزن حمزہ شہباز بھی مریم نواز کی سیاسی زیادتیوں کا شکار ہیں۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی ملک احمد خان منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور ان کی طرف سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن جب سیاسی حکم وزیر اعلیٰ مریم نواز کی طرف سے آئے گا تو پھر اسپیکر کے پاس باقی کیا بچتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ مریم نواز کو پنجاب میں بھاری بھرکم اپوزیشن قبول نہیں ہے۔ مریم نواز کا مسئلہ صرف پارلیمانی سطح کی سیاست تک محدود نہیں بلکہ وہ پارلیمان سے باہر بھی اپوزیشن کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں اور پی ٹی آئی کو طاقت اور جبر کی بنیاد پر دیوار سے لگانے کا کھیل پہلے ہی عروج پر ہے، جب بھی پی ٹی آئی بطور جماعت پنجاب میں کچھ سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتی ہیں تو ان کو نہ تو حکومت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی حکومت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے لیے عدالتی فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ویسے بھی اس وقت پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ کارکن 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر پنجاب کی جیلوں میں ہیں اور پنجاب ہی کی جیل میں قید شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو جیل میں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جارہا ہے اور اس میں بھی ایک حکم وزیر اعلیٰ مریم نواز ہی کا چلتا ہے جو چاہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو جیل یا عدالتی نظام سے بھی کوئی سیاسی اور قانونی سطح کا ریلیف نہ مل سکے۔ ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں مفاہمت اور مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی بھتیجی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اپوزیشن کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ اب اگر پنجاب میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجے جاتے ہیں یا دیگر ارکان اور جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت یا مذاکرات کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز یہ سب کچھ لاہور میں اپنے والد نواز شریف کی سیاسی چتھری کے نیچے بیٹھ کر کررہی ہیں اور اس پر نواز شریف کا سیاسی خاموشی بھی سیاسی جرم ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ جمہوریت کا نظام اسی صورت میں کامیابی سے آگے بڑھتا ہے جہاں حکومت اپوزیشن کے سیاسی وجود کو قبول کرکے آگے کی طرف بڑھتی ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت نہیں ہے یا کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے تو اس کی بڑی وجہ ہماری کمزور جمہوری روایات ہیں اور ہم بطور جماعت یا حکومت جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ یہ جو پاکستان میں جمہوری نظام میں تعطل پیدا ہوتا ہے یا جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں کا کمزور داخلی جمہوری نظام اور عدم جوابدہی یا احتساب کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس ملک میں ابھی تک اپنے جمہوری نظام کو مستحکم نہیں کرسکے۔ جو کچھ یہاں جمہوریت یا پالیمانی سیاست کے نام پر ہورہا ہے اس پر خود جمہوریت اور جمہوریت پسند لوگ بھی سیاسی پناہ مانگتے ہیں اور ان کے بقول اس وقت جو کچھ بھی اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے وہ جمہوریت کم اور آمرانہ نظام کی زیادہ عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے اس ملک میں جو بھی جمہوریت پسند لوگ ہیں ان کو جمہوری روایات کا مضبوطی کے لیے جمہوری مزاحمت اور حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی پالیسی کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ جمہوریت کا مقدمہ مضبوط بنیادوں پر مستحکم کیا جاسکے۔ لیکن اس کے لیے جدوجہد صرف سیاسی جماعتوں ہی کی سطح پر نہیں بلکہ میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات اور اداروں کی سطح پر کرنا ہوگی اور سب کو اس جمہوریت کی مضبوطی کے عمل میں اپنا اپنا سیاسی حصہ ڈالنا ہوگا اور اسی میں جمہوری نظام کی سیاسی بقا بھی پنہاں ہے اور یہ ہی ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔