پنجاب میں سرکاری درسی کتب کے بعد اب اسپتالوں میں استعمال ہونے والے ٹیسٹ فارم پر بھی وزیراعلیٰ مریم نواز کی تصویر چھاپی جانے لگی ہے۔ حالیہ واقعہ میں لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں سی ٹی اسکین کے فارم کی بیک گراؤنڈ پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا تصویری عکس واضح طور پر دیکھا گیا۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ فارم اسپتال میں نصب سی ٹی اسکین مشین سے متعلق ہے جسے حالیہ عرصے میں نجی کمپنی کو آؤٹ سورس کیا گیا تھا۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ فارم اسی نجی کمپنی کی جانب سے تیار کیا گیا اور مریم نواز کا تصویری عکس بھی کمپنی نے شامل کیا ہے۔

انتظامیہ نے مزید وضاحت دی کہ اسپتال کے دیگر کسی بھی سرکاری فارم پر کسی سیاسی شخصیت کی تصویر موجود نہیں ہے۔ جناح اور میو ہسپتال میں آؤٹ سورس کیے گئے ڈیپارٹمنٹس کے فارمز الگ الگ ہیں، جنہیں نجی کمپنیاں اپنی پالیسی کے مطابق تیار کرتی ہیں۔

واقعے پر سوشل میڈیا پر بھی بحث جاری ہے اور مختلف حلقے اسے سرکاری اداروں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جبکہ بعض افراد اسے عوامی خدمت کے منصوبوں کی تشہیر کا حصہ بھی کہہ رہے ہیں۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پنجاب میں اپوزیشن کے دبانے کا کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پنجاب میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے پی ٹی آئی کے 26 ارکان اسمبلی کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر میں خلل ڈالنے، مخالفانہ نعرے لگانے، ہنگامہ آرائی کرنے اور اسپیکر کے گھیرائو کرنے پر نہ صرف 26 ارکان اسمبلی کو سیشن سے باہر نکال کر ان پر کچھ وقت کے لیے پابندی لگادی بلکہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو سیاسی طور پر خوش کرنے کے لیے اب فیصلہ کیا جارہا ہے کہ ان 26 ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے تاکہ ان ارکان اسمبلی کو سیاسی طور پر سبق سکھایا جاسکے اور ان پر اسپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلیاں ان میں اس طرح کی اپوزیشن کی جانب سے ہونے والی ہنگامہ آرائی ہماری پارلیمانی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ خود مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھی تو ان کا رویہ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ایسا ہی تھا اور قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں میں ہم مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے محاز آرائی پر مبنی سیاسی تماشے دیکھ چکے ہیں۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ مریم نواز جو خود کو پنجاب کا عملاً سیاسی بادشاہ سمجھتی ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کوئی بھی سیاسی راستہ دینے اور تنقید بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں اپوزیشن ارکان کے خلاف حالیہ کارروائی بھی اسپیکر صوبائی اسمبلی کو وزیر اعلیٰ مریم نواز کے حکم پر کرنا پڑ رہی ہے ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے ارکان کو سبق سکھایا جائے کہ ان کو جرأت کیسے ہوئی کہ وہ وزیر اعلیٰ کی تقریر پر ہنگامہ کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے پنجاب میں یہ اسمبلی اور حکومت بنی ہے تو وزیر اعلیٰ مریم نواز صرف دو بار اسمبلی فلور پر آئی ہیں اور وہ خود بیش تر اجلاسوں سے غیر حاضر رہتی ہیں تاکہ ان کو اپوزیشن کی تنقید نہ سننا پڑے۔ بدقسمتی سے ہماری پارلیمانی سیاست میں حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کا مجموعی رویہ ہمیشہ سے غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رہا ہے اور اس میں تمام بڑی حکمران جماعتوں کا رویہ ٹھیک نہیں رہا۔ مگر جس انداز سے اس دفعہ پنجاب میں ارکان اسمبلی کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے وہ نہ صرف ہائبرڈ نظام کی عکاسی کرتا ہے بلکہ حکمران طبقات کے آمرانہ اور بادشاہت پر مبنی نظام کی جھلک کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ مریم نواز کی حکمرانی میں شخصی حکمرانی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے اور وہ خود کو طاقت کے مرکز کے گرد رکھنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ ان کے اردگرد مریم اورنگ زیب اور اعظمی بخاری بھی اسی وجہ سے مریم نواز کی سیاسی چاپلوسی میں پیش پیش رہتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مریم نواز کی حکمرانی ڈیجیٹل میڈیا کے سہارے کھڑی ہے۔ مریم نواز کا رویہ محض اپوزیشن کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ عملاً سرکاری یعنی مسلم لیگ ن کے ارکان کے ساتھ بھی دوہرے معیار رکھتی ہیں اور ان کو اہم فیصلوں میں نظرانداز کرتی ہیں اور خود ان کے اپنے کزن حمزہ شہباز بھی مریم نواز کی سیاسی زیادتیوں کا شکار ہیں۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی ملک احمد خان منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور ان کی طرف سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن جب سیاسی حکم وزیر اعلیٰ مریم نواز کی طرف سے آئے گا تو پھر اسپیکر کے پاس باقی کیا بچتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ مریم نواز کو پنجاب میں بھاری بھرکم اپوزیشن قبول نہیں ہے۔ مریم نواز کا مسئلہ صرف پارلیمانی سطح کی سیاست تک محدود نہیں بلکہ وہ پارلیمان سے باہر بھی اپوزیشن کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں اور پی ٹی آئی کو طاقت اور جبر کی بنیاد پر دیوار سے لگانے کا کھیل پہلے ہی عروج پر ہے، جب بھی پی ٹی آئی بطور جماعت پنجاب میں کچھ سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتی ہیں تو ان کو نہ تو حکومت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی حکومت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے لیے عدالتی فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ویسے بھی اس وقت پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ کارکن 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر پنجاب کی جیلوں میں ہیں اور پنجاب ہی کی جیل میں قید شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو جیل میں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جارہا ہے اور اس میں بھی ایک حکم وزیر اعلیٰ مریم نواز ہی کا چلتا ہے جو چاہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو جیل یا عدالتی نظام سے بھی کوئی سیاسی اور قانونی سطح کا ریلیف نہ مل سکے۔ ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں مفاہمت اور مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی بھتیجی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اپوزیشن کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ اب اگر پنجاب میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجے جاتے ہیں یا دیگر ارکان اور جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت یا مذاکرات کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز یہ سب کچھ لاہور میں اپنے والد نواز شریف کی سیاسی چتھری کے نیچے بیٹھ کر کررہی ہیں اور اس پر نواز شریف کا سیاسی خاموشی بھی سیاسی جرم ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ جمہوریت کا نظام اسی صورت میں کامیابی سے آگے بڑھتا ہے جہاں حکومت اپوزیشن کے سیاسی وجود کو قبول کرکے آگے کی طرف بڑھتی ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت نہیں ہے یا کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے تو اس کی بڑی وجہ ہماری کمزور جمہوری روایات ہیں اور ہم بطور جماعت یا حکومت جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ یہ جو پاکستان میں جمہوری نظام میں تعطل پیدا ہوتا ہے یا جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں کا کمزور داخلی جمہوری نظام اور عدم جوابدہی یا احتساب کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس ملک میں ابھی تک اپنے جمہوری نظام کو مستحکم نہیں کرسکے۔ جو کچھ یہاں جمہوریت یا پالیمانی سیاست کے نام پر ہورہا ہے اس پر خود جمہوریت اور جمہوریت پسند لوگ بھی سیاسی پناہ مانگتے ہیں اور ان کے بقول اس وقت جو کچھ بھی اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے وہ جمہوریت کم اور آمرانہ نظام کی زیادہ عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے اس ملک میں جو بھی جمہوریت پسند لوگ ہیں ان کو جمہوری روایات کا مضبوطی کے لیے جمہوری مزاحمت اور حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی پالیسی کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ جمہوریت کا مقدمہ مضبوط بنیادوں پر مستحکم کیا جاسکے۔ لیکن اس کے لیے جدوجہد صرف سیاسی جماعتوں ہی کی سطح پر نہیں بلکہ میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات اور اداروں کی سطح پر کرنا ہوگی اور سب کو اس جمہوریت کی مضبوطی کے عمل میں اپنا اپنا سیاسی حصہ ڈالنا ہوگا اور اسی میں جمہوری نظام کی سیاسی بقا بھی پنہاں ہے اور یہ ہی ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • مریض پمز اسپتال میں مر چکا تھا ،شفا انٹرنیشنل نے 7روزرکھا
  • مریم نواز کا ڈی ایچ کیو اسپتال پاکپتن کا دورہ، سی او ہیلتھ، ایم ایس کو گرفتار اورڈی سی کوچارج چھوڑنے کاحکم
  • مریم نواز کے حکم پر ایم ایس اور سی ای او ہیلتھ پاکپتن گرفتار، ’سوشل میڈیا نہ ہوتا تو کلین چٹ مل گئی ہوتی‘
  • مریم نواز کا ڈی ایچ کیو اسپتال پاکپتن کا دورہ ، ڈپٹی کمشنر کو چارج چھوڑنے کا حکم
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے حکم پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال پاکپتن کے ایم ایس اور سی ای او گرفتار
  • پنجاب میں اپوزیشن کے دبانے کا کھیل
  • وزیراعلیٰ پنجاب کے پیشگی حفاظتی اقدامات، دریا میں ڈوبتے شخص کو بچالیا گیا
  • وزیر اعلیٰ پنجاب نے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کرنے کی تجویز مسترد کر دی تھی : سلمان رفیق
  • مریم نواز مری سے واپسی پر فیلڈ اسپتال دیکھ کر رک گئیں، سہولیات کا جائزہ
  • وزیر اعلی مریم نواز کا ایک اور اعزاز،اپنی چھت، اپنا گھر پراجیکٹ میں 50ہزارسے زائد گھروں کاہدف مکمل