فیلڈ مارشل کا خطاب کب دیا جاتا ہے ، کیا اس سے اوپر بھی کوئی عہدہ ہوتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
راولپنڈی (ڈیلی پاکستان آن لائن) حکومت نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ میں یہ عہدہ پانے والے دوسرے جنرل ہیں۔ ان سے پہلے جنرل ایوب خان نے خود کو یہ اعزاز دیا تھا۔
فیلڈ مارشل (Field Marshal) فوجی رینک کا سب سے بلند ترین اعزاز ہے، جو صرف غیر معمولی فوجی خدمات پر دیا جاتا ہے۔ یہ رینک عام طور پر امن کے زمانے میں فعال کمانڈ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ایک اعزازی یا علامتی درجہ ہوتا ہے، جو کسی جنرل کی جنگی کامیابیوں، غیرمعمولی قیادت، یا طویل خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اکثر یہ عہدہ ریٹائرمنٹ کے بعد یا کریئر کے اختتامی مرحلے میں دیا جاتا ہے۔
فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی کے بعد سید عاصم منیر کا بیان بھی سامنے آگیا
یہ رینک فائیو سٹار رینک کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اور اس سے اوپر کوئی اور فوجی رینک نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ آرمی چیف ایک جنرل ہوتا ہے جو کہ فور سٹار عہدہ ہوتا ہے لیکن فیلڈ مارشل فائیو سٹار عہدہ ہے۔ فیلڈ مارشل کا رینک دینا غیر معمولی ہے اور زیادہ تر یہ اعزاز ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے کسی بڑی جنگی فتح یا قومی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا ہو۔
برصغیر (یعنی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) کی تاریخ میں اس سے پہلے صرف دو شخصیات کو فیلڈ مارشل کا رینک دیا گیا تھا۔ پاکستان سے ایوب خان نے خود کو 1959 میں فیلڈ مارشل کا خطاب دیا تھا جب کہ بھارت میں 1971 کی جنگ میں بھارتی فوج کی قیادت کرنے والے جنرل سیم مانک شاہ کو 1973 میں یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش سے ابھی تک کسی جرنیل کو فیلڈ مارشل کا عہدہ نہیں دیا گیا۔
جنرل عاصم منیر سے پہلے برصغیر کے کن 2 جرنیلوں کو فیلڈ مارشل کا عہدہ مل چکا ہے؟
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل کا دیا جاتا ہے ہوتا ہے
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔