چین کے دارلحکومت میں بیجنگ میں پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کی پانچویں بیٹھک کے حوالے سے چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کی جانب سے 7 نکاتی اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے جن میں تینوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک نے دہشتگردی کی تمام شکلوں کی مخالفت کرتے ہوئے مشترکہ طور پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے پر اتفاق کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ خطے کے ممالک بیرونی مداخلت سے ہوشیار رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں چین کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

پاکستان اور افغانستان سفیروں کی تعیّناتی

چینی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے پر اصولی اتفاق کرتے ہوئے جلد ایک دوسرے کے ہاں سفیروں کی تعیناتی پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کا چین خیرمقدم کرتا ہے۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی افغان توسیع

وانگ ژی کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا اقتصادی راہداری منصوبے کو افغانستان تک توسیع دی جائے گی۔

’چین اور پاکستان افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیں گے‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں حصہ لیں گے اور باہمی تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جایا جائے گا۔

اس اعلامیے کے متن کو اگر دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی حوصلہ افزا اور مجموعی طور پر کامیاب مذاکرات کی مکمل تصویر ہے جس میں خطے کے تمام مسائل کی نشاندہی اور حل تجویز کیے گئے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران نہ صرف یہ کہ خطے کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بات چیت ہوئی، ساتھ ہی ساتھ افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو یا اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بنانے پر بھی بات چیت کی گئی۔

تینوں ملکوں نے ان مذاکرات کے دوران باہمی رابطہ کاری، تجارتی اور سفارتی تعلقات بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔

19 سے 21 مئی تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چینی وزیر خارجہ وانگ ژی اور افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان بیجنگ میں رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوئیں جس میں تینوں وزرائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیاکہ علاقائی امن اور معاشی رابطہ کاری کے لیے سہ فریقی تعاون کی انتہائی اہمیت ہے۔

اسحاق ڈار اور افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جس میں دونوں سربراہان نے اسحاق ڈار کے 19 اپریل کے دورہ کابل کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان سفارت کاری، تجارت اور راہداری سہولیات میں پہلے سے زیادہ تعاون اور دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیشرفت پر بات چیت کی۔

جبکہ چینی وزیرخارجہ وانگ ژی سے ملاقات میں اسحاق ڈار نے پاکستان کی جانب سے چین کے بنیادی مفادات کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے خطے میں پائیدار امن کے لیے مسلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیا۔

سہ فریقی مذاکرات کی اہم کامیابیاں

سی پیک کی توسیع: ان مذاکرات کے ذریعے سے سی پیک کا دائرہ کار افغانستان تک وسیع کرنے پر اتفاق کیا گیا جو کہ یقیناً خطے میں اقتصادی ترقی کے عمل کو مہمیز کرےگا۔

سفارتی تعلقات: پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق کیا جو خطے میں سیکیورٹی اور استحکام کے لیے ایک اہم قدم ہے۔

علاقائی تعاون: ان مذاکرات میں علاقائی تعاون کے فروغ اور باہمی تجارت بڑھانے پر زور دیا گیا جو خطے میں معاشی خوشحالی کے لیے اہم ہے۔

سیکیورٹی صورتحال: ان مذاکرات میں خطے کی سیکیورٹی صورتحال، دہشتگردی کے مسائل پر غور اور ان سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

بیرونی مداخلت کے حوالے سے مذاکرات کا اعلامیہ انتہائی اہم ہے، ملک ایوب سنبل

بیجنگ میں چینی میڈیا سے وابستہ پاکستانی صحافی اور جیو پولیٹیکل تجزیہ نگار ملک ایوب سنبل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اہم نقطہ تینوں ممالک کا بیرونی مداخلت کے خلاف یکساں مؤقف ہے۔ تینوں ممالک نے ایک دوسرے کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ طور پر دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی بات کی ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔

انہوں ںے کہاکہ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین کے نقطہ نظر سے پاکستان اور چین دونوں اہم ممالک ہیں۔ تینوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد سازی کے فروغ، سفارتی تعلقات بڑھانے، اقتصادی راہداری کی توسیع کی بات کی ہے جو اہم ہے لیکن تینوں ملکوں نے ان سہ فریقی مذاکرات کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے جس کی اگلی بیٹھک کابل میں ہوگی اور یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے۔

چین اس خطے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے: فخر کاکا خیل

افغان اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت پوری دنیا میں ٹریڈ وارز یعنی تجارتی جنگیں چل رہی ہیں اور افغان طالبان حکومت بھی بالکل نہیں چاہے گی کہ وہ تنہا ہو جائے جس سے اُس کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ مہینوں میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کو بند کیا تو اُس سے دونوں ملکوں کا کافی تجارتی نقصان ہوا۔

فخر کاکا خیل نے کہاکہ چین اس خطے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے اور استحکام کے لیے امن ضروری ہے۔ چین کو گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ پاکستان کے شمال سے خیبرپُختونخوا سے ہوتا ہوا بلوچستان سے گزرتا ہے اور یہ علاقہ امن و امان کے مسائل کا گڑھ ہے اور چین بطور ایک سہولت کار کے کام کر رہا ہے کیونکہ اُس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔

’دوسرا یہ کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی راستے افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں تو چین اس خطے میں امن امان کے لیے مخلص ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ

فخر کاکاخیل نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اور ایران کو سمجھ آ چُکی ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اور اب ان تین ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے حوالے سے بہتر سوجھ بوجھ بتدریج آتی چلی جا رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews افغانستان پاکستان پاکستان افغانستان مسائل تجارت تجارتی جنگ چین سی پیک علاقائی امن و استحکام وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان پاکستان افغانستان مسائل تجارتی جنگ چین سی پیک علاقائی امن و استحکام وی نیوز پاکستان اور افغانستان میں کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں تینوں ممالک نے پر اتفاق کیا ایک دوسرے کے نے ایک دوسرے اعلامیے میں کی جانب سے کے درمیان کرتے ہوئے چینی وزیر اسحاق ڈار بڑھانے پر کے ساتھ بات چیت وانگ ژی یہ بھی چین کے کے لیے پر بھی اہم ہے رہا ہے کہ چین ہے اور

پڑھیں:

مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان

 

 

بہاولپور(نامہ نگار)25 اکتوبر کو استنبول میں شروع ہونے والے پاک افغان مزاکرات طالبان کی طرف سے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تحریری ضمانت نہ دینے اور غیر زمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر 28 اکتوبر کی رات کو بے نتیجہ ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ اب میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر دو دن بعد پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے اور 30 اکتوبر کو مزاکرات کا دوبارہ آغاز ہوچکا ہے۔اطلاعات کے مطابق طالبان اپنے رویئے میں لچک دکھانے کی حامی بھری ہے اس لئے اس بار دوست ممالک کی مداخلت کے باعث بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔تاہم مزاکرات کے اس تیسرے سیشن کے نتائج کا کچھ دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔

اس سے قبل پاکستان نے استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو ہونے والی عارضی جنگ بندی کے نتیجے میں قطر دوحہ میں پاک افغان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں قطر اور ترکیہ نے ثالث کے طور پر کردار ادا کیا۔ ان مزاکرات کے نتیجے میں مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے جنگ بندی اور دیگر امور کا مکینیزم طے کرنے کیلئے 25 اکتوبر کو استنبول میں مزاکرات کی اگلی نشست منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔استنبول میں تین روز جاری رہنے والے ان مزاکرات کے دوران طویل نشتیں ہوئیں جس میں افغانستان کے وفد کی ہٹ دھرمی کے باعث کئی بار مزاکرات کے بلا نتیجہ خاتمے کی صورت حال پیدا ہوئی۔ لیکن میزبان ترکیہ کی درخواست پر پاکستان مذاکرات کو مزید وقت دینے پر تیار ہوتا رہا لیکن بالآخر 28 اکتوبر کی رات یہ مزاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔تاہم اسی دوران تہران میں ECO وزراء کی کانفرنس میں پاکستانی اور افغان وزیر داخلہ کی سائیڈ لائین ملاقات ہوئی ہے جس میں محسن نقوی نے اپنے ہم منصب کو باہمی اختلافات کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔اسی دوران ایران کے صدر نے بھی ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔

استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگی معیشت پر پروان چڑھنے والی طالبان حکومت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے۔رواں ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل 25 اکتوبر سے ہوا تھا جس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی تھیں جن پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے خاتمے کے بعد تاحال کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا ہے۔منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا قطر کے بعد استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی کوئی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیرپا امن کے قیام کے لیے استنبول میں دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ استنبول مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

پاکستانی وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔لیکن کابل میں قیادت سے رابطے کے بعد وہ اس موقف سے منحرف ہوتے رہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد بھی فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپناحتمی مؤقف پیش کیا تھا۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس سرپرستی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ مذاکراتی عمل کے دوران طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر رہے۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے اور مستقبل میں مذاکرات افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے اور امریکہ سمیت کوئی بھی گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔

افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ مذاکراتی عمل کے دوران افغان طالبان کا موقف رہا کہ پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیاں پاکستان کے اندر ہو رہی ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔جس کے ثبوت افغان وفد اور میزبان ممالک کے سامنے رکھے گئے۔میزبان ممالک نے پاکستان کے اس موقف کی تائید بھی کی۔

معلوم ہوا ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران پاکستان کی طرف سے جو حل پیش کیے گئے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں تھے کیونکہ بقول ان کے یہ ان کے نظریات کے خلاف تھے۔ افغان طالبان کا موقف تھا کہ وہ ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد ہی نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا کہ آئندہ جب بھی افغان زمین سے پاکستان پر کوئی حملہ ہو گا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔انہوں نے کہا مجھے دوحہ میں ہونے والی مزاکرات کی پہلی نشست میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ افغان وفد کے پاس فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور افغان طالبان قیادت بھارت کے اشاروں پر چل رہی ہے جس کی وجہ سے مزاکرات کے نتیجہ کی امید نہیں تھی۔دوسری جانب طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ دنوں سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ افغانستان بات چیت کے حق میں ہے تاہم اگر افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی گئی تو جواب دیا جائے گا۔

افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر تھی کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی حمایت ختم کی جائے۔ پاکستان نے افغان طالبان کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ تھا کہ وہ بتائیں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔ پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے یہ بیان کہ مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے کوئی انفرادی موقف نہیں۔ بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہوا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔اور کابل و قندھار پر ٹارگٹ حملوں کیذریعے اس پر عمل درآمد بھی کیا گیا تھا۔ پاکستان کا یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے،پاکستان
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • پشاور سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، پاک افغان مذاکرات کے دوران دہشتگردی کا نیا واقعہ
  • افغان طالبان کے جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، دہشتگردی کیخلاف اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • افغانستان کے ساتھ مؤثر مکینزم تشکیل دینے پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیر مملکت طلال چوہدری
  • پاک افغان جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق
  • افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے،وزیردفاع۔بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، پاک فوج
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری