دہشتگردی کے مقابلے کے لیے بیرونی ہاتھوں سے ہوشیار رہیں گے، پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
چین کے دارلحکومت میں بیجنگ میں پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کی پانچویں بیٹھک کے حوالے سے چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کی جانب سے 7 نکاتی اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے جن میں تینوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک نے دہشتگردی کی تمام شکلوں کی مخالفت کرتے ہوئے مشترکہ طور پر دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کرنے پر اتفاق کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ خطے کے ممالک بیرونی مداخلت سے ہوشیار رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں چین کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں کیا ہونے جا رہا ہے؟
پاکستان اور افغانستان سفیروں کی تعیّناتیچینی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے پر اصولی اتفاق کرتے ہوئے جلد ایک دوسرے کے ہاں سفیروں کی تعیناتی پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کا چین خیرمقدم کرتا ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی افغان توسیعوانگ ژی کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا اقتصادی راہداری منصوبے کو افغانستان تک توسیع دی جائے گی۔
’چین اور پاکستان افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیں گے‘اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں حصہ لیں گے اور باہمی تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جایا جائے گا۔
اس اعلامیے کے متن کو اگر دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی حوصلہ افزا اور مجموعی طور پر کامیاب مذاکرات کی مکمل تصویر ہے جس میں خطے کے تمام مسائل کی نشاندہی اور حل تجویز کیے گئے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران نہ صرف یہ کہ خطے کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بات چیت ہوئی، ساتھ ہی ساتھ افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو یا اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بنانے پر بھی بات چیت کی گئی۔
تینوں ملکوں نے ان مذاکرات کے دوران باہمی رابطہ کاری، تجارتی اور سفارتی تعلقات بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
19 سے 21 مئی تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چینی وزیر خارجہ وانگ ژی اور افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان بیجنگ میں رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوئیں جس میں تینوں وزرائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیاکہ علاقائی امن اور معاشی رابطہ کاری کے لیے سہ فریقی تعاون کی انتہائی اہمیت ہے۔
اسحاق ڈار اور افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جس میں دونوں سربراہان نے اسحاق ڈار کے 19 اپریل کے دورہ کابل کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان سفارت کاری، تجارت اور راہداری سہولیات میں پہلے سے زیادہ تعاون اور دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیشرفت پر بات چیت کی۔
جبکہ چینی وزیرخارجہ وانگ ژی سے ملاقات میں اسحاق ڈار نے پاکستان کی جانب سے چین کے بنیادی مفادات کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے خطے میں پائیدار امن کے لیے مسلہ کشمیر کے حل کو ناگزیر قرار دیا۔
سہ فریقی مذاکرات کی اہم کامیابیاںسی پیک کی توسیع: ان مذاکرات کے ذریعے سے سی پیک کا دائرہ کار افغانستان تک وسیع کرنے پر اتفاق کیا گیا جو کہ یقیناً خطے میں اقتصادی ترقی کے عمل کو مہمیز کرےگا۔
سفارتی تعلقات: پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق کیا جو خطے میں سیکیورٹی اور استحکام کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
علاقائی تعاون: ان مذاکرات میں علاقائی تعاون کے فروغ اور باہمی تجارت بڑھانے پر زور دیا گیا جو خطے میں معاشی خوشحالی کے لیے اہم ہے۔
سیکیورٹی صورتحال: ان مذاکرات میں خطے کی سیکیورٹی صورتحال، دہشتگردی کے مسائل پر غور اور ان سے نمٹنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔
بیرونی مداخلت کے حوالے سے مذاکرات کا اعلامیہ انتہائی اہم ہے، ملک ایوب سنبلبیجنگ میں چینی میڈیا سے وابستہ پاکستانی صحافی اور جیو پولیٹیکل تجزیہ نگار ملک ایوب سنبل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اہم نقطہ تینوں ممالک کا بیرونی مداخلت کے خلاف یکساں مؤقف ہے۔ تینوں ممالک نے ایک دوسرے کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ طور پر دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی بات کی ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔
انہوں ںے کہاکہ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین کے نقطہ نظر سے پاکستان اور چین دونوں اہم ممالک ہیں۔ تینوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد سازی کے فروغ، سفارتی تعلقات بڑھانے، اقتصادی راہداری کی توسیع کی بات کی ہے جو اہم ہے لیکن تینوں ملکوں نے ان سہ فریقی مذاکرات کو جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے جس کی اگلی بیٹھک کابل میں ہوگی اور یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے۔
چین اس خطے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے: فخر کاکا خیلافغان اُمور کے ماہر اور تجزیہ نگار صحافی فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت پوری دنیا میں ٹریڈ وارز یعنی تجارتی جنگیں چل رہی ہیں اور افغان طالبان حکومت بھی بالکل نہیں چاہے گی کہ وہ تنہا ہو جائے جس سے اُس کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑے۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ مہینوں میں جب پاکستان نے طورخم اور چمن بارڈرز کو بند کیا تو اُس سے دونوں ملکوں کا کافی تجارتی نقصان ہوا۔
فخر کاکا خیل نے کہاکہ چین اس خطے میں ایک استحکام لانے والی طاقت کے طور پر کام کر رہا ہے اور استحکام کے لیے امن ضروری ہے۔ چین کو گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ پاکستان کے شمال سے خیبرپُختونخوا سے ہوتا ہوا بلوچستان سے گزرتا ہے اور یہ علاقہ امن و امان کے مسائل کا گڑھ ہے اور چین بطور ایک سہولت کار کے کام کر رہا ہے کیونکہ اُس کا اپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔
’دوسرا یہ کہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ زمینی راستے افغانستان سے ہو کر گزرتے ہیں تو چین اس خطے میں امن امان کے لیے مخلص ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
فخر کاکاخیل نے کہاکہ پاکستان، افغانستان اور ایران کو سمجھ آ چُکی ہے کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے اور اب ان تین ممالک کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے حوالے سے بہتر سوجھ بوجھ بتدریج آتی چلی جا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغانستان پاکستان پاکستان افغانستان مسائل تجارت تجارتی جنگ چین سی پیک علاقائی امن و استحکام وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان پاکستان افغانستان مسائل تجارتی جنگ چین سی پیک علاقائی امن و استحکام وی نیوز پاکستان اور افغانستان میں کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں تینوں ممالک نے پر اتفاق کیا ایک دوسرے کے نے ایک دوسرے اعلامیے میں کی جانب سے کے درمیان کرتے ہوئے چینی وزیر اسحاق ڈار بڑھانے پر کے ساتھ بات چیت وانگ ژی یہ بھی چین کے کے لیے پر بھی اہم ہے رہا ہے کہ چین ہے اور
پڑھیں:
امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے
بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے، یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی ملک سے درآمدات پر محصولات عائد کئے، جس سے اگست میں بھارت کی برآمدات 9 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا تجارتی مذاکرات کو ’ تیزی’ سے آگے بڑھائیں گے، راجیش اگروال، بھارت کے چیف مذاکرات کار اور وزارتِ تجارت میں خصوصی سیکریٹری نے تجارتی اعداد و شمار جاری کرنے کی تقریب میں صحافیوں کو بتایا، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
راجیش گروال نے کہا کہ امریکا کے تجارتی نمائندہ برائے جنوبی ایشیا برینڈن لنچ منگل کو ایک روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچیں گے۔
بھارت کی برآمدات جو جولائی میں 37 ارب 24 کروڑ ڈالر تھیں، اگست میں کم ہوکر 35 ارب 10 کروڑ ڈالر رہ گئیں، اور اس کا تجارتی خسارہ جولائی کے 27 ارب 35 کروڑ ارب ڈالر کے مقابلے میں کم ہوکر اگست میں 26 ارب 49 کروڑ ڈالر ہو گیا۔
واضح رہے کہ امریکا نے 27 اگست سے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری جاری رکھنے پر بھارتی مصنوعات پر اضافی 25 فیصد محصول عائد کیا تھا جس سے امریکی منڈی میں بھارتی برآمدات پر مجموعی محصول 50 فیصد ہو گیا، جو کسی بھی امریکی تجارتی شراکت دار کے لیے سب سے زیادہ ہے۔
امریکا کو بھارت کی برآمدات جو جولائی میں 8 ارب ایک کروڑ ڈالر تھیں اگست میں کم ہوکر 6 ارب 86 کروڑ ڈالر رہ گئیں۔
اپریل سے اگست کے دوران واشنگٹن کو بھارت کی ترسیلات 40 ارب 39 کروڑ ڈالر رہیں، امریکا کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر بلند محصولات کا مکمل اثر اگلے ماہ محسوس کیا جائے گا۔