پاکستان اور ا مر یکہ کے درمیان تجارتی معاہدے پر بڑی پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
اسلام آباد،واشنگٹن(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور ا مر یکہ کے درمیان تجارتی مذاکرات کے حالیہ دور میں ایک اہم مفاہمتی معاہدہ طے پا گیا ہے، جو برآمدی شعبے کے مستقبل کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق 9 جولائی کی ڈیڈ لائن سے قبل یہ کامیابی پاکستانی مصنوعات، بالخصوص ٹیکسٹائل اور زرعی اشیا پر دوبارہ بھاری ٹیرف عائد ہونے کے خطرے کو مؤثر طور پر ٹال سکتی ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سیکرٹری تجارت جاوید پال کی قیادت میں پاکستانی وفد نے واشنگٹن میں 4 روزہ مذاکرات کامیابی سے مکمل کیے، اور اب وہ وطن واپسی کی تیاری میں مصروف ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان فریم ورک پر اصولی اتفاق ہو چکا ہے، تاہم باضابطہ اعلان اُس وقت کیا جائے گا جب امریکا اپنے دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ جاری مذاکرات کو حتمی شکل دے گا۔
پاکستانی وفد کا بنیادی ہدف ایک طویل مدتی دو طرفہ ٹیرف معاہدہ تھا، جس کے تحت رواں سال کے آغاز میں عارضی طور پر معطل کردہ 29 فیصد ٹیرف مستقل طور پر ختم کر دیا جائے۔ حکام کے مطابق اگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوتے تو 9 جولائی کے بعد یہ رعایت واپس لی جا سکتی تھی، جس سے پاکستانی برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔
ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذاکرات نہ صرف کامیاب رہے بلکہ فریقین نے ایک وسیع اقتصادی تعاون کے فریم ورک پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔
معاہدے کے تحت نہ صرف امریکی خام تیل کی پاکستان درآمد میں اضافہ ممکن ہو گا بلکہ کان کنی، توانائی اور انفراسٹرکچر جیسے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کے دروازے بھی کھلیں گے۔
یہ اہم معاہدہ امریکی ایکسپورٹ-امپورٹ بینک کے ذریعے دو طرفہ معاشی شراکت داری کو مزید وسعت دینے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اگرچہ ا مر یکہ کے وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے قبل ازیں عندیہ دیا تھا کہ مثبت پیش رفت کی صورت میں ڈیڈ لائن میں نرمی کی گنجائش موجود ہو سکتی ہے، تاہم پاکستانی حکام نے اس عمل کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا تاکہ سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان میں پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ماہرین اور حکام پُرامید ہیں کہ اس مفاہمتی پیش رفت سے پاکستان کی امریکی منڈی تک رسائی بدستور قائم رہے گی اور ان دوطرفہ اقتصادی تعلقات میں وہ توازن دوبارہ بحال ہو سکے گا۔
ٹیکساس میں شدید بارشوں اور سیلاب سے 24 افراد ہلاک متعدد لاپتا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
قطر پر اسرائیلی حملہ پاکستان ‘سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا باعث بنا؟
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )مشرقِ وسطیٰ میںبدلتی صورتحال اور اسرائیل کے دوحہ پر حملے کے چند روزبعد ایٹمی طاقت کے حامل واحد اسلامی ملک پاکستان اور اسلامی دنیا کے روحانی مرکزسعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر دنیا کے ماہرین اسے مشرق وسطی میں اہم پیش رفت قراردے رہے ہیں اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں کئی ممالک پر حملہ کر چکا ہے لیکن قطر کے خلاف جارحیت کو اس لیے مختلف قراردیا جارہا ہے کہ قطر نہ صرف امریکا کا اتحادی ہے بلکہ خطے میں واشنگٹن کی مرکزی کمانڈ ”العدید ایئربیس “بھی قطر میں واقع ہے.(جاری ہے)
قطری نشریاتی ادارے ”الجزیرہ “کے مطابق واشنگٹن میں مشرق وسطی کے ماہرین کی جانب سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد امریکہ کی جانب سے دی گئی سکیورٹی کی ضمانت کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ قطر پر حملے کے بعد مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا بھی ان ضمانتوں پر اعتماد متزلزل ہو گا اور سعودی عرب ‘پاکستان کے درمیان باہمی دفاع کے سٹریٹجک معاہدے کو اسی سلسلے کی کڑی قراردیا جارہا ہے. رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے کنگ فیصل سینٹر فور ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز سے منسلک تجزیہ کار عمر کریم کا کہنا ہے یہ بہت واضح ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پہلے سے طے سکیورٹی انتظامات جس کے تحت امریکہ کچھ خلیجی ممالک کی سکیورٹی کا ضامن ہے وہ اب مو¿ثر طریقے سے کام نہیں کر رہا ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کی ضمانت پر پورا نہ اتر پانا اور اسرائیلی حملے میں امریکہ کے ملوث ہونے کے خدشات کے سبب خلیجی ممالک اپنی سکیورٹی کے لیے کسی دوسری طرف دیکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں. عمرکریم کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کو کوئی ایسا ملک جو انہیں اسرائیلی حملے کے خلاف ڈیٹرینس فراہم کر سکے اور سعودی عرب کے نظریے سے یہ خلا صرف پاکستان پر کر سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ صرف جوہری بلکہ کنوینشنل صلاحیتیں بھی ہیں اس کے علاوہ سعودی عرب کی حرمین کے نگہبان ہونے کی حیثیت بھی اسے ممتازبناتی ہے ‘ماہرین کے نزدیک جس طرح ویٹیکن سیکورٹی کے لیے سوئٹرزلینڈکی اسپیشل فورسز پر انحصاراسی طرح مسلمان ممالک میں پاکستان فوجی طاقت کے لحاظ سے طاقتور ملک ہے جسے معاشی معاونت کی ضرورت ہے اور سعودی عرب کو اپنے دفاع کی اور دونوں ممالک کی یہ ضرورتیں بھی اس معاہدے کی اہم وجہ ہیں. ماہرین کے مطابق سعودی عرب امریکا کے فراہم کردہ دفاعی نظام پر انحصار نہیں کر سکتااور نہ ہی وہ براہ راست روس یا چین کے دفاعی نظام خرید سکتا ہے امریکی دفاعی نظام کو مکمل طور پر آپریشنل رکھنے کے لیے ریاض کو امریکی تعاون درکار ہوتا ہے دفاعی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ سعودی افواج کے سربراہ پاکستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی مشقیں ہوتی ہیں اور پاکستان کے سابق فوجی افسران سعودی عرب میں دفاعی مشیر کے طور پر بھی خدمات سرت انجام دیتے ہیں. ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ سعودی عرب کے پاس زیادہ تر اسلحہ امریکی ہے اور لڑاکا طیارے بھی موجود ہیں لیکن سعودی عرب مغربی ممالک سے اسلحے کی خریداری پاکستان کی مشاورت سے کرتا ہے اور پاکستان ہی سعودی فوجیوں کو مغربی اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دیتا ہے . کنگ فیصل سینٹر کے تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پاکستان نزدیک اس معاہدے سے سعودی عرب میں انڈین اثر و رسوخ کم ہونے کا امکان ہے اور اقتصادی محاذپر مددکے علاوہ اسے نئے ہتھیار بنانے کے لیے مالی مدد ملے گی ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی تک پاکستان کی جانب سے اعلامیہ سامنے آیا ہے تاہم معاہدے کی تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں ‘معاہدے کی تفصیلات منظرعام پر آنے کے بعد جزیات پر تبصرہ کیا جاسکتا ہے تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مسلم دنیا کے اہم ملکوں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت بڑھے گی. رپورٹ کے مطابق ایک دہائی قبل مسلم لیگ نون کے قائدنوازشریف کی حکومت کے دوران سعودی عرب نے یمن میں اس وقت کے صدر عبدالرب منصور ہادی کی حکومت بحال کرنے اور حوثیوں باغیوں کے خلاف جنگ میں پاکستان سے بحری جہاز، ہوائی جہاز اور فوجی اہلکار بھیجنے کی درخواست کی تھی لیکن اس وقت پاکستان کی پارلیمنٹ نے سعودی درخواست کو رد کر دیا تھا اور متفقہ طور پر یمن جنگ میں”غیر جانبداری“ قائم رکھنے کی قرار داد منظور کی تھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پارلیمنٹ کی اس قرارداد کے بعد متاثر ہوئے تھے. عمر کریم کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ دفاعی معاہدہ اس بات کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان ماضی میں یمن معاملے پر اختیار کیے گئے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ فیصلہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے لیا تھا اور تاہم اب فیصلہ سازی کے اعتبار سے پاکستانی پارلیمنٹ زیادہ وزن نہیں رکھتی . برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“کے مطابق سعودی عرب اگرچہ بھارت کا بڑا معاشی شراکت دار ہے مگر دفاعی معاہدے کے اثرات دہلی میں نظرآرہے ہیں جس کا اندازہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر انڈیا کی جانب سے سرکاری موقف میں دیکھنے میں آیا ہے انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کا کہنا ہے کہ ہم اس پیشِرفت کے اپنی قومی سلامتی اور بین الاقوامی ستحکام پر مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں مودی حکومت انڈیا کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے. انڈین تجزیہ کار وں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے پر نئی دہلی میں تشویش پائی جاتی ہے بین الاقوامی امور کے ماہر قمر آغاز نے” بی بی سی“ سے گفتگو میں کہا کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان اب کوئی جنگ ہوتی ہے تو تب پاکستان کو ان سعودی ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہو گی جو ریاض نے واشنگٹن سے خریدے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے انڈیا کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس کا دوست ملک ہے لیکن دہلی چاہے گا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی تنازع کی صورت میں سعودی عرب اس معاملے سے دور رہے. سٹریٹجک امور کے ماہر برہما چیلانی کہتے ہیں کہ ریاض جانتا تھا کہ انڈیا پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاع کے معاہدے کو اپنی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھے گا پھر بھی اس نے یہ معاہدہ کیا ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اس معاہدے کے تحت فوجی افراد قوت کے لیے پاکستان پر انحصار کر رہا ہے اور نئی دہلی اور واشنگٹن کو اشارہ دے رہا ہے کہ وہ اپنا راستہ خود بنائے گا تاہم بعض بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کا سبب بھی بن سکتا ہے کیونکہ سعودی عرب کے دونوں ملکوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں ‘بھارت میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل صاف کرنے کے کارخانوں سمیت مختلف شعبوں میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کے بعد ریاض اور اسلام آباد کے تعلقات کو ایک نئی سمت ملے گی تجزیہ نگار پاکستانی پالسیوں کے تسلسل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں کیونکہ پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے سے ملک ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا ہے . امریکی جریدے”بلومبرگ“نے بھارتی صحافی سہاسنی حیدر کے حوالے سے بتایا کہ قطر پر اسرائیل کے حملے سے خلیجی ممالک کی سلامتی خطرے میں پڑنے کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ طے پایا، لیکن سوال یہ ہے کہ انڈیا کے جانب سے پہلے سے جاری آپریشن سندور کے لیے اس کا کیا مطلب ہو گا؟ جبکہ انڈین کانگریس پارٹی کے راہنما تیجسوی پرکاش نے اس معاہدے کو حیران کن قرار دیا انہوں نے لکھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا، یہ ایک سنجیدہ سٹریٹجک شفٹ ہے، جس سے اسلام آباد کی سکیورٹی مضبوط ہو گی . تیجسوی پرکاش نے وزیراعظم مودی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ مودی حکومت تصویروں اور پراپیگنڈا سے لوگوں کی توجہ بٹا رہی، جبکہ انڈیا کا اثر و رسوخ مشرقِ وسطیٰ میں کم ہو رہا ہے جوہری ہتھیاروں کی محقق اور مصنفہ رابعہ اختر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان میں غیررسمی دیرینہ دفاعی معاہدہ موجود ہے لیکن موجودہ معاہدے نے سکیورٹی تعلقات کو باقاعدہ معاہدے کی شکل دے دی ہے. بلومبرگ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ جوہری ڈیٹرنس کے بارے میں، میرے خیال میں یہ ایک واضح یقین دہانی ضرور ہے لیکن یہ نظریاتی تبدیلی نہیں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پاکستان باضابطہ طور پر ریاض کو جوہری تحفظ دے گا لیکن اس معاملے میں ابہام ہی سعودی مقاصد کو پورا کر سکتا ہے. افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق خصوصی سفیرزلمے خلیل زاد کا کہنا تھاکہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کا اعلان ایک نتیجہ خیز اقدام ہے یہ کوئی ٹریٹی نہیں ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب ٹریٹی اور معاہدے میں کوئی تفریق کرتے ہیں یا نہیں انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ قطر پر اسرائیل کے حملے کا ردعمل ہے؟ انہوں نے سوال پوچھتے ہوئے لکھا کہ کیا اس معاہدے میں خفیہ شرائط ہیں اور اگر ہیں تو وہ کیا ہیں؟ کیا یہ معاہدہ سعودی عرب اور شاید دوسروں کی امریکی ڈیٹرنس اور دفاع پر اعتماد میں کمی کا اشارہ ہے؟ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار اور ترسیل کا نظام ہے جو اسرائیل سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے یہ ایسے نظام بھی تیار کر رہا ہے جو امریکہ میں اہداف تک پہنچ سکتا ہے سوالات بہت ہیں. واشنگٹن ڈی سی میں قائم سٹیمسن سینٹر کے سینئر فیلو اسفندیار میر نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے ”واٹرشیڈ“ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے پہلے سرد جنگ کے دوران امریکہ کے ساتھ باہمی دفاعی معاہدے برقرار رکھے تھے لیکن وہ 70 کی دہائی میں ٹوٹ گئے یہاں تک کہ چین کے ساتھ وسیع دفاعی تعاون کے باوجود پاکستان کے پاس باضابطہ باہمی دفاعی معاہدے کی کمی ہے یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی میں جنوبی ایشیا کے سیکیورٹی ریسرچر محمد فیصل نے کہا کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے خلیج کے دو اہم شراکت داروں متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ اسی طرح کے دو طرفہ دفاعی تعاون میں شامل ہونے کے لیے ایک ٹیمپلیٹ کے طور پر کام کر سکتا ہے. دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ اس وقت ہوا جب مشرق وسطیٰ کی جیو پولیٹیکل بساط تیزی سے چل رہی ہے اسرائیل کے قطر ہر حملے نے خلیجی ریاستوں کو بے چین کر دیا ہے جو امریکہ کی سلامتی کی ضمانتوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں جبکہ کہ واشنگٹن اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے قطر امریکی سینٹرل کمانڈ (کوم سیٹ) کے فارورڈ ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے اور2025 کے وسط تک تقریبا 40سے50ہزار امریکی فوجی مشرق وسطیٰ میں تعینات ہیں جن میں سے درجنوں ریاض کے نزدیک پرنس سلطان ایئر بیس پر تعینات ہیں سعودی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کم از کم ایک سال سے کام کر رہا ہے واشنگٹن ڈی سی میں موجود دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر یہ معاہدہ امریکا کے لیے تشویش کا باعث بنے گا سال2021 سے 2025 تک اپنے دور حکومت کے دوران صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بیلسٹک میزائل کی مبینہ ترقی پر پاکستانی افراد اور فرموں کو نشانہ بناتے ہوئے سات مواقع پر پابندیاں عائد کیں بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے عوامی طور پر پاکستان کے میزائلوں کی رینج کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا اور کیا وہ جوہری ہتھیار امریکہ تک لے جا سکتے ہیں. بلومبرگ سے گفتگو میں جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار اور کینیڈا کی ایشیا پیسیفک فاﺅنڈیشن کے نان ریذیڈنٹ فیلو مائیکل کوگل مین نے کہا کہ پاکستان نے صرف ایک نئے باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں بلکہ اس نے ایک قریبی اتحادی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو بھارت کا بھی ایک اعلیٰ شراکت دار ہے انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ مستقبل میں بھارت کے ساتھ جھڑپوں کو نہیں روک سکتا لیکن یہ پاکستان کو بہت اچھی جگہ پر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اسلام آباد اب چین، ترکی اور سعودی عرب کو اپنے اہم حمایتیوں میں شمار کرتا ہے. سعودی عرب نے اس سال کے شروع میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کے دوران توانائی کے تعلقات کو فروغ دینے اور دفاع سمیت صنعتوں کی ایک وسیع رینج پر زیادہ قریبی تعاون کرنے پر اتفاق کیا جبکہ سعودی مملکت نے پاکستان کو تقریباً 5 بلین ڈالر کے قرضے اور موخر ادائیگیوں پر تیل بھی دیا. تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر اہم عرب ریاستوں کی روس اور چین کی قیادت میں اقتصادی اتحاد”برکس“میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں اور عرب ممالک چند سالوں سے ماسکو اور بیجنگ کے قریب آرہے ہیں ‘ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مشرق وسطی اورجنوبی ایشیاءکے درمیان تعلقات میں اضافہ نظرآرہا ہے ماہرین کے مطابق روس اور چین پہلے ہی پاکستان اور بھارت پر تجارتی تعلقات بڑھانے کے لیے زوردے رہے ہیں اگر ان کوششوں میں بااثرسعودی اور دیگر عرب ملک شامل ہوجاتے ہیں تو دنیا کی تجارت اور طاقت کے توازن کو ایک نیا رخ ملے گا .