UrduPoint:
2025-07-07@00:37:22 GMT

فیک نیوز قومی سلامتی کے لیے سنجیدہ خطرہ ہیں، ڈی جی پیمرا

اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT

فیک نیوز قومی سلامتی کے لیے سنجیدہ خطرہ ہیں، ڈی جی پیمرا

حجرہ شاہ مقیم (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2025ء)پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا)کی ڈائریکٹر جنرل عائشہ منظور وٹو نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی معلومات اور فیک نیوز کا پھیلا ئوصرف معاشرتی انتشار کا باعث نہیں بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ نوجوانوں کو سچ اور جھوٹ میں فرق سکھانے کے لیے میڈیا لٹریسی کو فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

ڈی جی پیمرا نے یہ بات یونیورسٹی آف اوکاڑہ میں’’سوشل میڈیا کا کردار اور غلط معلومات کا پھیلا ئو۔ ایک قومی چیلنج‘‘کے موضوع پرمنعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی، سیمینار میں طلبا، اساتذہ، میڈیا ماہرین، سول سوسائٹی اور جامعات کے نمائندوں نے شرکت کی۔ شعبہ تعلقات عامہ، بین الاقوامی تعلقات اور ابلاغیات کے اشتراک سے منعقد کیے گئے سیمینار کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سجاد مبین نے کی ۔

(جاری ہے)

ڈی جی پیمرا نے مزید کہا کہ ادارہ پیمرا جدید حکمت عملی کے تحت ڈیجیٹل میڈیا پر نگرانی کو موثر بنا رہا ہے تاکہ ذمہ دارانہ صحافت اور اطلاعات کا کلچر فروغ پا سکے۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سجاد مبین نے کہا کہ یونیورسٹی صرف تعلیمی سرگرمیوں تک محدود نہیں بلکہ قومی و سماجی شعور کی بیداری، فکری بصیرت، تنقیدی سوچ اور تحقیقی رویہ کی تربیت دینا ہمارا مشن ہے، تاکہ وہ باخبر اور ذمہ دار شہری بن سکیں۔

شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ محترمہ فاخرہ نے عالمی سطح پر سوشل میڈیا کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گمراہ کن معلومات بعض اوقات ریاستی تعلقات کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ابلاغیات کے ماہر ڈاکٹر زاہد بلال نے طلبا پر زور دیا کہ وہ خبر کی صداقت کو پرکھنے کی عادت اپنائیں اور بغیر تحقیق معلومات شیئر نہ کریں۔سیمینار کے اختتام پر پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک بھرپور ریلی نکالی گئی، جس میں طلبا اور اساتذہ نے جوش و خروش سے شرکت کی۔ بعد ازاں یونیورسٹی میں پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہوئی، جہاں قومی پرچم سربلند کیا گیا اور یونیورسٹی کے گارڈز کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے

پڑھیں:

بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

ریاض احمدچودھری

یونیورسٹی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیمی معاملات نے ”اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، عصری دنیا میں چین کا کردار اور پاکستان میں ریاست اور معاشرہ” کو ہٹانے کی ہدایت کی ہے۔یہ ہدایت وائس چانسلر یوگیش سنگھ کی طرف پاکستان کی تعریف والے مواد کو ہٹانے کی سفارش کے بعد کی گئی ہے۔یونیورسٹی کے فیکلٹی ارکان نے اس ہدایت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے محض ایک سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ مذکورہ کورسز کو ہٹانے سے جغرافیائی فہم کو نقصان پہنچے گا۔
ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کی سکریٹری ابھا دیو کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تعلیمی خود مختاری ختم ہو رہی ہے، عقائد کے نظام پر مبنی کورسز کو ختم کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔اکیڈمک کونسل کے ایک منتخب رکن متھوراج دھوسیا نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اختیار کے دائرہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیٹی مشورہ دے سکتی ہے،یکطرفہ طور پر حکم نہیں دے سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا اور پاکستان مخالف جذبات کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد دہلی یونیورسٹی نے مختلف انڈرگریجویٹ کورسز، خاص طور پر تاریخ اور سماجیات کے نصاب میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔اس سے قبل بھارت میں مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب میں پڑھائی جانے والی پاکستانی اور مصری مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ممتاز عالم دین اور مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مصری اسکالر اور مصنف سید قطب کی کتابیں بھارتی ریاست اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے کے طلبا کو شعبہ اسلامیات میں پڑھائی جاتی تھیں۔تاہم مودی حکومت کے حکم پر یونیورسٹی کی انتظامی کمیٹی نے اب نصاب سے دونوں علمائے دین کی کتابوں کو نکال دیا ہے۔
بھارت میں دائیں بازو کے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل تقریباً دو درجن افراد نے ایک کھلا مکتوب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا، ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں ملک اور قوم کے مخالف نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے”۔اس میں مزید لکھا گیا، ”ہم اس خط پر دستخط کرنے والے تمام، آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ حکومتی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں، ڈھٹائی سے اسلامی جہادی نصاب کی پیروی کی جا رہی ہے”۔
یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ کا کہناہے کہ انتظامی بورڈ نے پاکستانی مصنفین کی لکھی ہوئی تما م کتابیں نصاب سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ کتابیں طویل عرصے سے پڑھائی جا رہی تھیں۔یہ اقدام بظاہر یونیورسٹی میں کسی بھی تنازعہ سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ حالات بدل گئے ہیں، شاید جو بات پہلے پڑھانے کے قابل سمجھی جاتی تھی وہ اب اس قابل نہیں سمجھی جاتی ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں حکومت اور انتظامیہ سے متعلق اسلامی نظریات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس سلسلے سید قطب اور ابوالاعلی مودودی نے اسلامی طرز حکومت پر جو نظریات پیش کیے ہیں وہ نصاب کا حصہ تھے۔
ہندو انتہا پسندوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کتابوں کا مواد جہادی ہے جو تشدد پر اکساتا ہے اس پریونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کوئی ایک جملہ بھی دکھا دیں جو تشدد پر آمادہ کرتا ہو، تو وہ ان کی بات تسلیم کر لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے لیکن وائس چانسلر نے حکومتی دباؤ پر ان کتب کو نصاب سے نکال دیا۔ سیدمودودی اور سید قطب کی تعلیمات در اصل جمہوری اقدار پر مبنی ہیں، اوربعض ممالک کی اشرافیہ حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں، اس لیے انہوں نے ایسا کیا ہے۔
یوں توراشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پورے ہندستان اور انسانیت کی دشمن ہے لیکن اس کی اصل دشمنی مسلمانوں اور اسلام سے ہے۔ آر ایس ایس قائم ہی اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کی بنیاد پر ہوئی ہے۔اس کا سارا لٹریچر اور اس کے لیڈروں کے بیانات اس بات کی پورے طور پر تصدیق کرتے ہیں۔آر ایس ایس کو بھارت میں دائیں بازو کی انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ اس تنظیم کی کوکھ سے شیو سینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہی سے آر ایس ایس نے بھارت کو ہندو ریاست کا درجہ دلانے سے متعلق اپنی کوششیں بھرپور انداز سے شروع کردی تھیں، اس تنظیم کے سرکردہ ذہن ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ بھارت میں صرف اور صرف ہندو پسند ذہنیت پروان چڑھے اور اسلام پسند ذہنیت خاص طور پر ناکام ہو۔ دیگر اقلیتوں کے لیے بھی آر ایس ایس کا یہی ایجنڈا رہا ہے۔ ایک زمانے تک اِس نے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا مگر اب یہ عیسائیوں، بدھ ازم کے پیرو کاروں اور سِکھوں کو بھی نشانے پر لیے ہوئے ہے۔
بھارت میں تعلیم کے حوالے سے اپنی بات منوانے کے لیے آر ایس ایس خاص طور پر فعال رہی ہے۔ حکومت پر دباؤ ڈال کر وہ اپنا تعلیمی ایجنڈا پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے سکولوں کی سطح پر نصابی کتب کی تبدیلی کے ذریعے آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کی بھرپور کوششوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ پنڈت تیار کرنے اور رسوم ادا کرنے سے متعلق کتب بھی نصاب کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ آر ایس ایس کی خواہش رہی ہے کہ ہندوتوا سے متعلق ایجنڈے کو زیادہ سے زیادہ وسعت کے ساتھ اور نہایت تیزی سے نافذ یا مسلط کیا جائے قدیم، ادوارِ وسطی اور جدید زمانے کی تاریخ کو تبدیل کرنے یعنی اْسے ہندو رنگ دینے کی کوششیں بھرپور انداز سے شروع کر دی گئی ہیں یہ عمل اس قدر تیز ہے کہ اب اقلیتیں بھارت میں اپنی بقاء کے حوالے سے شدید خطرات محسوس کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت کشیدگی، جنگ بندی کے باوجود قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات نہ ہو سکی
  • پیپلز پارٹی سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، اسحاق ڈار
  • پاک بھارت کشیدگی: جنگ بندی کے باوجود قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات نہ ہو سکی
  • دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کے تحت سیمینار میں طلبہ کو شیلڈ پیش کی جارہی ہے
  • اے آئی کی مدد سے گرمی کا توڑ: پینٹ  اے سی کی ضرورت کم کردے گا
  • باچا خان یونیورسٹی: 139 ڈیلی ویجز ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا
  • چین اور جرمنی کے درمیان سفارتی و سلامتی سے متعلق اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا انعقاد
  • احد سے بڑھتے تعلقات، مداحوں نے دنانیر کو خبردار کردیا
  • پشاور سٹی ٹریفک پولیس کے تحت ٹریفک قوانین سے متعلق آگاہی سیمینار
  • بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار