بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
یونیورسٹی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیمی معاملات نے ”اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، عصری دنیا میں چین کا کردار اور پاکستان میں ریاست اور معاشرہ” کو ہٹانے کی ہدایت کی ہے۔یہ ہدایت وائس چانسلر یوگیش سنگھ کی طرف پاکستان کی تعریف والے مواد کو ہٹانے کی سفارش کے بعد کی گئی ہے۔یونیورسٹی کے فیکلٹی ارکان نے اس ہدایت پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے محض ایک سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ مذکورہ کورسز کو ہٹانے سے جغرافیائی فہم کو نقصان پہنچے گا۔
ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کی سکریٹری ابھا دیو کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں کی تعلیمی خود مختاری ختم ہو رہی ہے، عقائد کے نظام پر مبنی کورسز کو ختم کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔اکیڈمک کونسل کے ایک منتخب رکن متھوراج دھوسیا نے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اختیار کے دائرہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیٹی مشورہ دے سکتی ہے،یکطرفہ طور پر حکم نہیں دے سکتی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا اور پاکستان مخالف جذبات کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد دہلی یونیورسٹی نے مختلف انڈرگریجویٹ کورسز، خاص طور پر تاریخ اور سماجیات کے نصاب میں نمایاں تبدیلی کی ہے۔اس سے قبل بھارت میں مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب میں پڑھائی جانے والی پاکستانی اور مصری مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ممتاز عالم دین اور مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مصری اسکالر اور مصنف سید قطب کی کتابیں بھارتی ریاست اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اور ایم اے کے طلبا کو شعبہ اسلامیات میں پڑھائی جاتی تھیں۔تاہم مودی حکومت کے حکم پر یونیورسٹی کی انتظامی کمیٹی نے اب نصاب سے دونوں علمائے دین کی کتابوں کو نکال دیا ہے۔
بھارت میں دائیں بازو کے سخت گیر ہندو نظریات کے حامل تقریباً دو درجن افراد نے ایک کھلا مکتوب وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا، ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ ہمدرد جیسے حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والے اداروں میں ملک اور قوم کے مخالف نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے”۔اس میں مزید لکھا گیا، ”ہم اس خط پر دستخط کرنے والے تمام، آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ حکومتی مالی اعانت سے چلنے والی مسلم یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ہمدرد یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں، ڈھٹائی سے اسلامی جہادی نصاب کی پیروی کی جا رہی ہے”۔
یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ کا کہناہے کہ انتظامی بورڈ نے پاکستانی مصنفین کی لکھی ہوئی تما م کتابیں نصاب سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ کتابیں طویل عرصے سے پڑھائی جا رہی تھیں۔یہ اقدام بظاہر یونیورسٹی میں کسی بھی تنازعہ سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ حالات بدل گئے ہیں، شاید جو بات پہلے پڑھانے کے قابل سمجھی جاتی تھی وہ اب اس قابل نہیں سمجھی جاتی ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں حکومت اور انتظامیہ سے متعلق اسلامی نظریات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور اس سلسلے سید قطب اور ابوالاعلی مودودی نے اسلامی طرز حکومت پر جو نظریات پیش کیے ہیں وہ نصاب کا حصہ تھے۔
ہندو انتہا پسندوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ ان کتابوں کا مواد جہادی ہے جو تشدد پر اکساتا ہے اس پریونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کوئی ایک جملہ بھی دکھا دیں جو تشدد پر آمادہ کرتا ہو، تو وہ ان کی بات تسلیم کر لیں گے تاہم وہ اس میں ناکام رہے لیکن وائس چانسلر نے حکومتی دباؤ پر ان کتب کو نصاب سے نکال دیا۔ سیدمودودی اور سید قطب کی تعلیمات در اصل جمہوری اقدار پر مبنی ہیں، اوربعض ممالک کی اشرافیہ حکومتیں اسے پسند نہیں کرتیں، اس لیے انہوں نے ایسا کیا ہے۔
یوں توراشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پورے ہندستان اور انسانیت کی دشمن ہے لیکن اس کی اصل دشمنی مسلمانوں اور اسلام سے ہے۔ آر ایس ایس قائم ہی اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کی بنیاد پر ہوئی ہے۔اس کا سارا لٹریچر اور اس کے لیڈروں کے بیانات اس بات کی پورے طور پر تصدیق کرتے ہیں۔آر ایس ایس کو بھارت میں دائیں بازو کی انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندو تنظیموں کی ماں کا درجہ حاصل ہے۔ اس تنظیم کی کوکھ سے شیو سینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہی سے آر ایس ایس نے بھارت کو ہندو ریاست کا درجہ دلانے سے متعلق اپنی کوششیں بھرپور انداز سے شروع کردی تھیں، اس تنظیم کے سرکردہ ذہن ہمیشہ اس بات کے لیے کوشاں رہے ہیں کہ بھارت میں صرف اور صرف ہندو پسند ذہنیت پروان چڑھے اور اسلام پسند ذہنیت خاص طور پر ناکام ہو۔ دیگر اقلیتوں کے لیے بھی آر ایس ایس کا یہی ایجنڈا رہا ہے۔ ایک زمانے تک اِس نے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا مگر اب یہ عیسائیوں، بدھ ازم کے پیرو کاروں اور سِکھوں کو بھی نشانے پر لیے ہوئے ہے۔
بھارت میں تعلیم کے حوالے سے اپنی بات منوانے کے لیے آر ایس ایس خاص طور پر فعال رہی ہے۔ حکومت پر دباؤ ڈال کر وہ اپنا تعلیمی ایجنڈا پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت نے سکولوں کی سطح پر نصابی کتب کی تبدیلی کے ذریعے آر ایس ایس کے ایجنڈے کی تکمیل کی بھرپور کوششوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ پنڈت تیار کرنے اور رسوم ادا کرنے سے متعلق کتب بھی نصاب کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ آر ایس ایس کی خواہش رہی ہے کہ ہندوتوا سے متعلق ایجنڈے کو زیادہ سے زیادہ وسعت کے ساتھ اور نہایت تیزی سے نافذ یا مسلط کیا جائے قدیم، ادوارِ وسطی اور جدید زمانے کی تاریخ کو تبدیل کرنے یعنی اْسے ہندو رنگ دینے کی کوششیں بھرپور انداز سے شروع کر دی گئی ہیں یہ عمل اس قدر تیز ہے کہ اب اقلیتیں بھارت میں اپنی بقاء کے حوالے سے شدید خطرات محسوس کر رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: یونیورسٹی کے آر ایس ایس بھارت میں کے لیے اور اس رہی ہے
پڑھیں:
بھارت میں کروڑوں کے جہیز کے باوجود سسرالیوں کے مظالم کی شکار بہو نے خودکشی کرلی
بھارتی ریاست تامل ناڈو میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں جہیز میں سونے کے سکے اور کروڑوں کی گاڑی ملنے کے باوجود سسرالیوں اور شوہر کے ناروا سلوک سے تنگ بیوی نے خودکشی کرلی۔
27 سالہ رتھنیا اور کاوین کمار کی شادی رواں سال اپریل کو ہوئی تھی۔ شادی میں دلہن کے گھر والوں کی طرف سے 300 سونے کے سکّے اور 70 لاکھ بھارتی روپے قیمت کی Volvo کار بطور جہیز دی گئی، اور وعدہ کیا گیا تھا مزید 200 سکّے بھی دیے جائیں گے۔
شادی کے محض دو ماہ بعد رتھنیا مسلسل ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکار رہیں جس میں انہیں چھوٹی غلطیوں پر جسمانی و ذہنی سزا دی جاتی تھی۔
29 جون 2025 کو رِتھنیا ایک مندر جانے کے بہانے گھر سے نکلیں اور کیڑے مار دوا خریدی اور گاڑی میں آکر بیٹھ گئیں جہاں انہیں وہ زہریلی دوا کھا کر خودکشی کرلی۔
جائے وقوعہ پر موجود افراد نے گاڑی میں منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے بیہوش خاتون کو دیکھا اور فوراً اسپتال منتقل کیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکی ۔
پولیس نے رِتھنیا کے شوہر، سسر اور ساس کے خلاف جہیز ہراسانی اور خودکشی کا سبب بننے کے الزامات میں مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا ہے۔
تامل ناڈو کے قومی میشن برائے خواتین نے واقعے کے بعد 72 گھنٹوں میں کیس کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔