Daily Ausaf:
2025-10-04@23:50:40 GMT

تیسری عالمی جنگ کی تیاریاں

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

تیسری عالمی جنگ کے بادل گہرے ہو چکے ہیں۔ مغربی انٹیلی جنس ادارے واضح اشارے دے رہے ہیں کہ یہ جنگ موجودہ عشرے کے آخری برسوں میں پھٹ سکتی ہے۔ اس جنگ کی تیاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں شمالی کوریا سے 25 ہزار ماہر ڈرون ٹیکنیشن روس پہنچے ہیں، جو جدید ترین ڈرون ٹیکنالوجی پر مہارت رکھتے ہیں۔ انہی ماہرین کے ساتھ ایران سے بھی اسکلڈ فوجی و صنعتی ورکرز پر مشتمل ایک خفیہ فورس روس منتقل کی گئی ہے، جنہیں روس کے مقامی 50 ہزار ورکرز کے ساتھ ملا کر دنیا کی سب سے بڑی ڈرون فیکٹری قائم کی جا رہی ہے۔ اس فیکٹری کی تیاری خالصتاً جنگی مقاصد کے تحت ہو رہی ہے۔ یہ صرف ڈرونز کی بات نہیں۔ روس نے میزائلوں، لڑاکا طیاروں، بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی پیداوار کو بھی تین گنا تک بڑھا دیا ہے۔ یہ سب معمولی جنگ کے لئے نہیں، بلکہ ایک فیصلہ کن عالمی تصادم کی تیاری ہے۔یہ تیاریاں دو بنیادی اہداف کے گرد گھومتی ہیں۔ پہلا، پورے یوکرین پر مکمل قبضہ، اور دوسرا نیٹو کے ساتھ براہ راست جنگ۔ اس ممکنہ جنگ میں ابتدائی طور پر چھوٹے اور کمزور ممالک جیسے لٹویا، اسٹونیا اور لتھوانیا نشانہ بنیں گے۔ ان ممالک کو کچل کر روس اپنے بڑے اہداف کی طرف بڑھے گا، جہاں اصل معرکہ روس اور جرمنی، اور روس اور برطانیہ کے درمیان ہو گا۔ یہ صرف یورپی جنگ نہیں، بلکہ مغربی تسلط کے خلاف مشرقی طاقتوں کی مشترکہ یلغار ہو گی۔جون 2025ء کے اختتام پر شائع ہونے والی ISW رپورٹ نے دنیا کو چونکا دیا۔
روس نے دفاعی صنعت کو جس برق رفتاری سے جدید خطوط پر استوار کیا ہے، وہ معمولی پیش رفت نہیں بلکہ مکمل عسکری انقلاب کی غمازی کرتی ہے۔ صرف ایک ماہ میں صنعتی پیداوار میں 2.

6 فیصد اضافہ ہوا، جس کی سب سے بڑی وجہ دفاعی اشیا ء کی بے مثال تیاری ہے۔ مئی 2025 ء میں ہوابازی کے شعبے کی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں 1.6 گنا بڑھ چکی ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ بکتر بند گاڑیوں (IFVs) کی مرمت اور تیاری اب درجنوں نئے یونٹس میں ہو رہی ہے، اور T-90M ٹینکوں کی پیداوار ایک خطرناک تسلسل اختیار کر چکی ہے۔لیکن سوال یہ ہے: کیا روس یہ سب یوکرین جنگ کے لیے کر رہا ہے؟ یا یہ صرف ریہرسل ہے ایک اور بڑی جنگ کی؟روس کا یہ عسکری جوش، محض داخلی کوشش کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پس پشت ایک مکمل خفیہ سپلائی چین ہے جسے ختم کرنا یوکرین کی سفارتی مہم کا مرکزی ہدف بن چکا ہے۔ وزیر خارجہ آندری سیبیہا نے واضح کیا کہ روس اب بھی ہر مہینے توانائی برآمدات سے 13 ارب ڈالر کما رہا ہے۔ جنگ کے ہر دن کا خرچ تقریباً 1ارب ڈالر ہے یعنی روس جنگ سے زیادہ کما رہا ہے۔ میزائل اور ڈرونز میں استعمال ہونے والے پرزے کم از کم 19 ممالک سے آ رہے ہیں، جن میں کچھ مغربی اتحادی بھی شامل ہیں۔ یوکرین اب براہ راست روسی تیل کے بڑے خریداروں کو ہدف بنانے جا رہا ہے، اور وہ بھی صرف بیانات سے نہیں بلکہ حقیقی معاشی پابندیوں سے۔جہاں یوکرین روس کو عالمی منظر نامے پر تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں روس ایک نئے اتحاد کی بنیاد رکھ چکا ہے CRINK (China, Russia, Iran, North Korea)۔ شمالی کوریا نے روس کو 9.4 ملین گولے اور ہزاروں میزائلز فراہم کیے ہیں۔ خودکار توپیں، KN-23و KN-24میزائل، اور خصوصی فوجی دستے روس کو منتقل کیے گئے۔ جوابا روس نے میزائل گائیڈنس، سیٹلائٹ، اور ریڈار ٹیکنالوجی شمالی کوریا کو دی۔ روس کو 70 مشین ٹولز اور 90 مائیکروچپس چین سے مل رہی ہیں۔ چین نے مارچ 2024 تک $12 ملین مالیت کے ڈرون پارٹس دیے۔ دونوں ممالک مشترکہ میزائل وارننگ سسٹم پر کام کر رہے ہیں۔یہ خفیہ اتحاد صرف عسکری نہیں، ایک نظریاتی دیوار ہے مغرب کی سرمایہ داری کے مقابل ایک نئے ’’سلامتی بلاک‘‘ا خواب۔نیٹو اور یورپی یونین کے اندازوں کے مطابق، 2028ء سے 2030ء کے درمیان ایک مکمل جنگ کا امکان موجود ہے۔ ایسی صورت میں عالمی معیشت کو 1.5 کھرب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ توانائی کے ذخائر پر قبضے کی نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ نیٹو کی مشرقی سرحد ایک بار پھر ہتھیاروں سے اٹ سکتی ہے۔
روس کی ہتھیار سازی صرف یوکرین کے خلاف نہیں۔ یہ جنگی مشینری ایک بڑے تصادم کے لیے دوبارہ ترتیب دی جا رہی ہے وہ تصادم جو نیٹو کے خلاف ہو سکتا ہے، یا چین اور امریکہ کے درمیان پراکسی جنگ کی صورت میں سامنے آئے۔ یوکرین کی سفارت کاری، چاہے جتنی بھی فعال ہو، جب تک CRINK اتحاد کی زنجیروں کو توڑنے میں ناکام رہے گی، دنیا ایک نیا ورلڈ آرڈر بنتے دیکھے گی اگر چہ کچھ دیر ہو جائے لیکن یہ تبدیلی اب نوشتہ دیوار ہے۔ادھر مشرق میں حالات مغرب سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ چین نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی دفاعی تیاریوں کو جس تیزی سے بڑھایا ہے، وہ محض داخلی سیکیورٹی یا روایتی دفاع تک محدود نہیں رہی۔ جدید میزائل سسٹمز، ہائپرسونک ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ڈرونز، اور بحری طاقت میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ بیجنگ کسی بڑے اسٹریٹجک ہدف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر تائیوان کے حوالے سے چین کا رویہ اب سفارتی حدود سے نکل کر کھلی فوجی تیاری میں بدل چکا ہے۔شی جن پنگ کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ تائیوان کا انضمام ایک ’’تاریخی ذمہ داری‘‘ہے، اور چین ہر قیمت پر اسے پورا کرے گا، خواہ وہ پرامن طریقے سے ہو یا عسکری مداخلت سے۔ اس کے ساتھ ہی چینی فوج کی تائیوان کے اطراف جنگی مشقیں، بحری گھیرا، اور مسلسل فضائی خلاف ورزیاں اب روز کا معمول بن چکی ہیں۔ مغربی دفاعی ماہرین اس صورتحال کو صرف دبا کی حکمتِ عملی نہیں بلکہ حملے کی پیش بندی تصور کر رہے ہیں۔ادھر چین نے روس، ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ دفاعی تعاون کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ حالیہ مہینوں میں شمالی کوریا کے ہزاروں ٹیکنیکل ورکرز روسی اسلحہ فیکٹریوں میں کام کرنے پہنچے ہیں، جبکہ ایران بھی ڈرونز اور میزائل ٹیکنالوجی میں چین و روس کے ساتھ خفیہ اشتراک کر رہا ہے۔ ان تینوں ممالک کا اشتراک ایک نیا عالمی عسکری بلاک بنتا دکھائی دے رہا ہے، جو امریکی اثرورسوخ کے خلاف کھلی مزاحمت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔امریکی انٹیلی جنس رپورٹس میں واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ردعمل ناگزیر ہو گا۔ تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت امریکہ کو تائیوان کی دفاعی مدد فراہم کرنی ہے، جس سے ایک علاقائی تنازعہ عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ جاپان، آسٹریلیا، فلپائن اور نیٹو کے کئی ممالک اس ممکنہ تنازع کا حصہ بن سکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے یوکرین جنگ میں یورپ نے کردار ادا کیا۔یہ تمام علامات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم تیاری کا حصہ ہیں۔ چین کی عسکری سرگرمیاں، روس کی جنگی پیداوار، اور ایران و شمالی کوریا کا عملی تعاون اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کی بنیادیں رکھی جا چکی ہیں۔ ممکن ہے کہ ابھی ہتھیار نہ چلیں، لیکن عالمی اسٹیج پر صف بندیاں مکمل ہو رہی ہیں۔ یہ وقت محض خاموشی سے دیکھنے کا نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک نازک موڑ کو سمجھنے کا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تیسری عالمی جنگ کا الارم کہیں بج چکا ہے۔ ہم شاید صرف اس کی بازگشت سننے میں تاخیر کر رہے ہیں۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تیسری عالمی جنگ شمالی کوریا نہیں بلکہ کر رہا ہے کی تیاری کے ساتھ سکتا ہے کے خلاف رہے ہیں روس کو چین نے چکا ہے جنگ کے ہیں کہ جنگ کی رہی ہے

پڑھیں:

ایف سی ہیڈکوارٹرزپشاور سے اسلام آباد منتقلی کی تیاریاں مکمل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251003-01-15

اسلام آباد (آن لائن) وفاقی حکومت نے فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی) کا ہیڈکوارٹر پشاور سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق
وزیر داخلہ کی ہدایت پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ہیڈکوارٹر کی تعمیر کے لیے ایوانِ صدر کے عقب میں بری امام کے قریب اراضی کی نشاندہی کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیشل کیس کے طور پر ہیڈکوارٹر کی عمارت اسی مالی سال میں مکمل کی جائے گی، جبکہ آئی جی فیڈرل کانسٹیبلری کا دفتر بھی اسی ہیڈکوارٹر کے اندر تعمیر کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کا قیام سرحدی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  • تیاریاں وانتظامات مکمل‘شارع فیصل پر ’’ غزہ مارچ ‘‘آج ہو گا ,عوام بھر پور شرکت کریں‘منعم ظفر خان
  • کراچی میں قومی اسپنر ابرار احمد کی شادی کی تیاریاں مکمل
  • پاکستان کرکٹ ٹیم کی جنوبی افریقا کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے تیاریاں جاری
  • ایف سی ہیڈکوارٹرزپشاور سے اسلام آباد منتقلی کی تیاریاں مکمل
  • صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ
  • ایس سی او کا پاکستان میں اجلاس، اسحاق ڈار نے تیاریاں شروع کر دیں
  • ایف سی کا ہیڈ کوارٹرپشاور سے اسلام آباد منتقل کرنے کی تیاریاں
  • سیلاب سے نقصانات کیلئے فی الحال عالمی امداد نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی وزیر خزانہ
  • صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ عالمی ظلم و جبر کی نشانی ہیں، علامہ راشد سومرو
  • ٹام کروز کا انوکھا خواب: خلا میں شادی کی تیاریاں؟