اسلام ٹائمز: ایران پر دوبارہ حملہ کے متعلق جنونی صیہونیوں کے بیانات مغربی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا اقدام کشیدگی اور تصادم کو اس حد تک وسعت دے سکتا ہے کہ جو نہ صرف صیہونی حکومت کی سلامتی بلکہ اس کے مغربی حامیوں کے مفادات اور ان کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ بلاشبہ صیہونیوں کے لیے اس طرح کے فوجی مہم جوئی کی قیمت بہت بھاری اور ناقابل تلافی ہوگی۔ خصوصی رپورٹ:

حالیہ 12 روزہ جنگ میں صیہونی رجیم کی شرمناک شکست کے بعد کچھ شواہد اورقرائن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر ایران کیخلاف نئے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تویہ اقدام خطے کو بدترین کشیدگی میں دھکیل دیگا۔ حالیہ دنوں میں صیہونی رجیم کی جانب سے ہتھیاروں کے ذخیروں میں تیز رفتار اضافہ ان تیاریوں کا واضح ثبوت ہے۔ ایران کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعدصیہونی رجیم کے ہوائی اڈوں پر دفاعی ساز وسامان سے لدے طیارے اترے ہیں، یہ طیارے امریکہ، جرمنی اور یونان کی طرف سے 17 کارگو طیارے مختلف اوقات میں لینڈ کر چکے ہیں۔

 24 فائٹرریڈار کے مطابق ان پروازوں میں سے ایک رجسٹریشن نمبر 4X-ICK کا حامل اسرائیلی بوئنگ 747 کارگو طیارہ تھا،جس کے ذریعے جرمنی کے شہر کولون میں صرف دو گھنٹے کے سٹاپ اوور میں 128 ٹن فوجی سازوسامان براہ راست ناواٹیم ایئر بیس پر پہنچایا گیا۔ ان پروازوں کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ  صیہونی اڈہ اب نئے مغربی ہتھیاروں کی وصولی اور تقسیم کا مرکزی مقام بن چکا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ حالیہ جنگ میں اسرائیلی حکومت کے ہتھیاروں کے ڈپوہو چکے ہیں، اب ان کو دوبارہ بھرا جا رہا ہے۔ بعض ذرائع کادعویٰ ہے کہ جنگ بندی کے بعد امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سے 821 ٹن ہتھیار مقبوضہ فلسطین میں پہنچائے گئے ہیں۔

اس بارے میں پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے صیہونی حکومت کو بھاری اور بنکرشکن بموں سمیت 510 ملین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عراق، شام اور اردن کی فضاوں میں متعدد امریکی اور یورپی فوجی پروازیں دیکھی گئی ہیں جو صیہونی حکومت کی دفاعی اور جارحانہ صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہیں۔ تاہم قابض صیہونی حکومت کو جدید مغربی ہتھیاروں سے لیس کرنا نہ صرف اس کی ایران کے خلاف ایک اور جنگ کے لیے آمادگی کا مظہر ہے بلکہ تل ابیب سے بیانات اور دھمکیاں بھی جاری ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ صیہونی رجیم نے ایران کے تباہ کن میزائل حملوں سے ابھی سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی خطے میں ایک نئی مہم جوئی صیہونی لیڈروں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے چند روز قبل دعویٰ کیا تھا کہ ایران کیخلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور آنے والے دنوں میں مزید ایرانی حکام اور کمانڈروں کو بھی قتل کردیا جائے گا۔ صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زمیر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی صرف ایک وقفہ ہے اوریہ محاذ آرائی جاری رہیگی۔ سابق صیہونی وزیر خزانہ ایویگڈور لائبرمین نے بھی کہا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ ایک مشکل اور پیچیدہ تصادم کی تیاری کر رہے ہیں۔

ایران پر دوبارہ حملہ کے متعلق جنونی صیہونیوں کے بیانات مغربی ایشیا میں ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا اقدام کشیدگی اور تصادم کو اس حد تک وسعت دے سکتا ہے کہ جو نہ صرف صیہونی حکومت کی سلامتی بلکہ اس کے مغربی حامیوں کے مفادات اور ان کی موجودہ حیثیت کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔ بلاشبہ صیہونیوں کے لیے اس طرح کے فوجی مہم جوئی کی قیمت بہت بھاری اور ناقابل تلافی ہوگی۔ صیہونی حکومت کے مذکورہ اقدامات اور  دوبارہ حملے کی دھمکیوں کے باوجود، ایک بنیادی سوال تجزیہ کاروں اور حتیٰ کہ صہیونیوں کے ذہنوں میں بھی چھایا ہوا ہے کہ کیا صیہونی رجیم ایران کی طرف سے مزید دھچکا برداشت کر سکتی ہے؟

12 روزہ جنگ کے تلخ تجربے اور ایران کے بے مثال میزائل حملوں کے بعد کوئی بھی مہم جوئی صیہونی رجیم کے بھاری نقصان کا باعث ہوگی، جو اس بار ناقابل تلافی ہوگا۔ اس بارے میں مغربی ایشیائی امور کے ماہر حسن ھانی زادہ نے الوقت کو انٹرویو میں صیہونی رجیم کی مہم جوئی کو دیرینہ منصوبوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی رجیم نے امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ منصوبے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ شام میں پیش آنے والے واقعات اور شیطانی سازشوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ کے کمانڈروں اور یمن میں انصار اللہ کی شخصیات کی شہادتیں اس منصوبے کا حصہ تھیں، جس کا مقصد مغربی ایشیا کے لئے مجوزہ امریکی صیہونی منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنا اور خطے میں صیہونی رجیم کو پشت پناہی فراہم کرنا تھا، یہی وجہ تھی کہ ایران کیخلاف اچانک حملہ کیا گیا، جوہری ہتھیاروں کی تیاری ایک بہانہ تھا اور یہ ایران کے خلاف گہری سازش ہے۔ 12 دن یہ جنگ جاری رہی، بعد میں امریکہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا، یہ جنگ بندی پائیدار نہیں ہے۔ دراصل پینٹاگون اور قابض صیہونی فوج کے جرنیل  ایران کیخلاف جنگ کے دوران ظاہر ہونیوالی اپنے دفاعی نظام کی طاقت اور کمزوریوں کا ازالہ کر رہے ہیں اور ایران کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

امکان ہے کہ یہ اپنی کمزوریاں ختم کرنے کے بعد دوبارہ ایران پر حملہ آور ہونگے۔ ھانی زادہ کے مطابق ایرانی مسلح افواج کی انگلی ٹریگر پر ہے اور وہ اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ حملے کو بے اثر کر سکتی ہے، لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے اور اگرچہ صیہونی حکومت کو ایران کے حالیہ حملوں میں شدید دھچکا لگا ہے، لیکن وہ اب بھی "نئے مشرق وسطیٰ" کے منصوبے پر عمل درآمد کو روکنے والے واحد عنصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ایران کو خطے میں ایک کمزور ملک کی صورت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ آیا تل ابیب وعدہ صادق 4 کیصورت میں ایرانی جوابی حملوں کو برداشت کرنیکی پوزیشن میں ہے یا نہیں؟ ھانی زادہ نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ ائیرڈیفنس کو دوبارہ سے ڈیزائن کرکے تیار کرنے پر منحصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کمزوریوں کو ختم کر دیا جاتا ہے، تو وہ زیادہ موثر اقدامات کے ساتھ اور زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ ایران پر حملہ کرینگے، وہ نیٹو جیسے اتحادیوں کے ذریعے ائیرڈیفنس کو وسعت بھی دے رہے ہیں، بظاہر اسرائیل دوبارہ جنگ کا خطرہ مول لے رہا ہے اور خطے میں ایک بڑی سرجری کی کوشش کر رہا ہے، تاہم مقبوضہ علاقوں میں صیہونی رجیم کی بہت سی کمزوریاں ہیں، دوبارہ صیہونی جارحیت کی صورت میں ایران ان کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا، اس بار صیہونی رجیم کو پہلے سے کہیں زیادہ نقصانات اور شکست کا سامنا ہوگا۔  

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں صیہونی رجیم کی ایران کیخلاف صیہونی حکومت صیہونیوں کے ایران کی ایران پر ایران کے رہے ہیں میں ایک کے ساتھ ہے اور کے بعد

پڑھیں:

امریکی تحقیق کے مطابق بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم کا ایک ممکنہ کردار

ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ پیراسیٹامول (Acetaminophen) ہر گھر کی سب سے عام دوا ہے۔ بخار ہو، درد ہو یا تھکن ہو، ہمارا پہلا انتخاب یہی دوا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ایک نہایت اہم تشویشناک خبر سامنے آئی ہے۔

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے اپنے باضابطہ نوٹس میں خبردار کیا ہے کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول کے مسلسل استعمال سے بچے کی دماغی نشوونما پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اور یہ خدشہ موجود ہے کہ اس کے نتیجے میں Autism اور ADHD جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

یہ کوئی معمولی افواہ نہیں۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ نے پبلک ہیلتھ اور میڈیکل ہیلتھ کے سرکردہ قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں امریکی حکومت میں پھیلی بےچینی و تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایف ڈی اے نے اپنی ہدایات میں ڈاکٹروں اور عوام دونوں کو محتاط رہنے کا کہا ہے۔ 

یہ خدشہ کئی سال سے مختلف تحقیقی مطالعات (NEJM, JAMA, Lancet Psychiatry) میں اٹھایا جاتا رہا ہے کہ پیراسیٹامول اور بچے کی دماغی صحت کے درمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعلق ابھی حتمی طور پر ثابت نہیں ہوا، لیکن تعلق اور کچھ شواہد اتنے واضح ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی ریگولیٹری ایجنسی ایف ڈی اے نے احتیاط کا اعلان کر دیا ہے۔

آٹزم صرف ایک بچے کی مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ پورے گھر کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔ والدین کے لیے سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ ان کا بچہ ان کی آنکھوں میں دیکھ کر بھی اکثر جواب نہیں دیتا، عام باتوں کو نہیں سمجھتا، اور چھوٹی سی تبدیلی پر شدید بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسکول میں دوسرے بچے آپس میں دوستی کر لیتے ہیں، مل کر کھیل لیتے ہیں، مگر آٹزم والا بچہ اکثر اکیلا رہ جاتا ہے۔ والدین دن رات یہ سوچ کر کوفت میں رہتے ہیں کہ ان کا بچہ کب اور کیسے دنیا کے ساتھ چل پائے گا، وہ کہاں تک خود کفیل ہو سکے گا، اور ان کے بعد اس کا کیا بنے گا۔ یہ وہ کرب ہے جو ہر دن، ہر لمحے ان کے دل کو کاٹتا ہے، اور جسے سمجھنے کے لیے محض کتابی علم کافی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے احساس ضروری ہے۔

پاکستان کے لیے یہ خبر خاص طور پر اہم ہے۔ ہمارے ملک میں پیراسیٹامول سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا ہے، اکثر بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے۔ عام لوگ اسے بالکل محفوظ سمجھتے ہیں اور حمل کے دوران بھی خواتین روزانہ کئی دن تک استعمال کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم بھی وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو امریکی حکام اب تسلیم کر رہے ہیں؟

ذمے دارانہ رویہ یہ ہے کہ ہم گھبراہٹ پھیلانے کے بجائے سائنسی حقائق کو سامنے رکھیں۔ پہلی بات یہ کہ پیراسیٹامول اب بھی درد اور بخار کے لیے ایک مؤثر اور نسبتاً محفوظ دوا ہے، مگر حمل کے دوران اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے وقت اور ڈاکٹر کے مشورے سے مشروط کریں۔ دوسری بات یہ کہ حکومت، ریگولیٹری اتھارٹی اور میڈیکل کالجز کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر آگاہی مہم چلائیں، تاکہ عوام کو سمجھایا جا سکے کہ ’’محفوظ‘‘ دوا بھی بعض اوقات احتیاط مانگتی ہے۔

یہ وقت ہمارے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر دنیا کی بڑی ایجنسی احتیاط برت رہی ہے، تو ہمیں بھی چاہیے کہ پاکستانی مریضوں کے حق میں احتیاط کو اپنائیں۔ دوا ساز کمپنیوں، فارماسسٹوں اور ڈاکٹروں کی ذمے داری ہے کہ وہ مریض کو صحیح مشورہ دیں، اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو حقائق بتائے۔

ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ عوام کا اعتماد صحت کے نظام پر اسی وقت قائم رہتا ہے جب ہم سچائی اور احتیاط کو سامنے رکھتے ہیں۔ پیراسیٹامول کی یہ مثال ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ علاج کے ساتھ ساتھ شفافیت اور ذمے داری بھی اتنی ہی ضروری ہیں۔ یہ ایک اور الارم ہے اگر ہم آج احتیاط اور سچائی کو اپنانے کا حوصلہ نہیں کر پاتے تو کل یہ اور اس طرح کے پر بولتے طوفان بے قابو ہوں گے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • پشاور، صمود فلوٹیلا پر حملہ کیخلاف جماعت اسلامی کی ریلی
  • چمن: باب دوستی بارڈر پر وَن ڈاکیومنٹ رجیم کے تحت آمدورفت کو ریگولائز کر دیا گیا
  • حشد الشعبی فورسز نے شامی سرحد پر داعش کے تین ٹھکانے تباہ کر دیئے
  • پشاور، گلوبل صمود فلوٹیلا پر صیہونی کارروائی کیخلاف جماعت اسلامی کی ریلی
  • ایران اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، سابق صیہونی وزیر جنگ
  • پاکستان کرکٹ ٹیم کی جنوبی افریقا کیخلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے تیاریاں جاری
  • امریکی تحقیق کے مطابق بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم کا ایک ممکنہ کردار
  • مغربی ہواؤں کا سلسلہ ملک میں داخل، پنجاب میں آج سے بارشوں کی پیشگوئی
  • ایرانی وزیر دفاع کا دورہ ترکی، دشمن کیخلاف متحد ہونیکا عہد
  • بحیرہ عرب میں ممکنہ سمندری طوفان، کراچی میں آج بارش کا امکان