اسلام ٹائمز: صیہونی اخبار مارکر نتیجہ گیری کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ صیہونی رژیم پر تباہ کن دباو پایا جاتا ہے جس میں ہاوسنگ مارکیٹ کا بحران، سرمایہ کاروں میں اعتماد کا فقدان، احتجاجی مظاہرے اور عوامی اعتراضات، کریڈٹ ریٹنگ میں کمی، سرمایہ کاری کم ہو جانا، ماہرین خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ماہرین کا ترک وطن کر جانا اور آخرکار بین الاقوامی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار ہو جانا شامل ہے۔ ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ صیہونی حکمران اس وقت مختلف ممالک کی جانب سے پابندیوں کے خطرے سے بھی روبرو ہیں۔ لہذا اس اخبار کے مطابق 23 اقتصادی ماہرین کی جانب سے شائع ہونے والا یہ خط درحقیقت غاصب صیہونی رژیم کے لیے آخری وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریر: علی احمدی
حال ہی میں امریکی اور یورپی یونیورسٹیوں کے 23 ماہرین اقتصاد نے جن میں 10 نوبل انعام حاصل کرنے والے ماہرین بھی شامل ہیں، ایک کھلا خط لکھا ہے اور غاصب صیہونی رژیم کو خبردار کیا ہے کہ غزہ سے متعلق صیہونی حکمرانوں نے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے وہ اسرائیلی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ ان ماہرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو اسرائیل ایک بڑی اقتصادی تباہی کا شکار ہو جائے گا۔ ان اقتصادی ماہرین نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے نام اپنے اس کھلے خط میں خبردار کیا ہے کہ غزہ سے متعلق موجودہ پالیسیاں جاری رکھے جانے کی صورت میں اس کے تباہ کن معیشتی اثرات ظاہر ہوں گے۔ اسرائیلی اخبار "مارکر" نے یہ خط شائع کیا ہے اور اسے "اب تک کا سخت ترین" خط قرار دیا ہے۔
اس خط میں دنیا کے نامور اقتصادی ماہرین نے بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی رژیم کی موجودہ کابینہ کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے غزہ کے عوام کو بھوکا رکھنے کی حکمت عملی جاری رکھی تو اسرائیل کو اس کا بھاری اقتصادی تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ ان ماہرین اقتصاد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ درپیش خطرات صرف عارضی دباو کی حد تک نہیں ہیں بلکہ وہ اسرائیلی معیشت کی بنیادوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔
اعتماد کا خاتمہ اور ہاوسنگ مارکیٹ کا بحران
صیہونی اخبار مارکر مزید وضاحت دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان اقتصادی ماہرین کی وارننگ بے بنیاد نہیں ہے اور ابھی سے اسرائیلی معیشت کے اندر تشویش ناک اثرات اور علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم ترین علامت ہاوسنگ مارکیٹ ہے جو اس رژیم میں دسیوں قسم کی سرمایہ کاری کا بنیادی ستون سمجھی جاتی ہے۔
اکتوبر 2023ء سے اب تک سرمایہ کاروں کی وسیع تعداد اسرائیل سے فرار کر چکی ہے اور اس طرح ہاوسنگ مارکیٹ شدید مندی کا شکار ہو چکی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے اپارٹمنٹس خریدنا روک دیا ہے اور گذشتہ چھ مہینوں میں صرف تل ابیب میں دسیوں ہزار اپارٹمنٹس بیچی جا چکی ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں سرمایہ کار اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ آئندہ ایک عشرے تک اپارٹمنٹس کی قیمتیں گرتی جائیں گی اور یہی سوچ اس بات کا باعث بنی ہے کہ وہ اربوں شیکل ہاوسنگ مارکیٹ سے نکال کر اسٹاک مارکیٹ میں منتقل کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کا یہ اقدام درحقیقت اسرائیلی معیشت کے مستقبل پر ان کا گہرا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے اور وہ حکومت کو معیشت مستحکم رکھنے میں کمزور محسوس کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر گوشہ نشینی اور پابندیوں کا خطرہ
اقتصادی ماہرین کے اس خط میں اندرونی بحرانوں کے ساتھ ساتھ بیرونی مشکلات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ماہرین اقتصاد نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ مغربی ممالک ممکن ہے اسرائیلی حکام کے خلاف اپنے طور پر اقدامات انجام دینا شروع کر دیں۔ یہ اقدامات یورپی ممالک، کینیڈا اور آسٹریلیا میں صیہونی حکمرانوں کے بین اکاونٹس بند کرنے نیز ان کے اموال ضبط کرنے پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ خط لکھنے والے ایک ماہر اقتصاد نے خبردار کرتے ہوئے کہا: "اگر اسرائیلی پالیسی سازوں پر براہ راست مقدمہ نہ چلایا گیا تو اسرائیلی شہریوں کی آئندہ نسلوں کو موجودہ پالیسیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑ جائے گی۔" صیہونی اخبار مارکر لکھتا ہے کہ صیہونی رژیم نے غزہ میں جو جنگ شروع کر رکھی ہے اس نے اسرائیلی معاشرے کے اعتماد کے ساتھ ساتھ اقتصادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔
سیاہ مستقبل اور آخری وارننگ
صیہونی اخبار مارکر نتیجہ گیری کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ صیہونی رژیم پر تباہ کن دباو پایا جاتا ہے جس میں ہاوسنگ مارکیٹ کا بحران، سرمایہ کاروں میں اعتماد کا فقدان، احتجاجی مظاہرے اور عوامی اعتراضات، کریڈٹ ریٹنگ میں کمی، سرمایہ کاری کم ہو جانا، ماہرین خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ماہرین کا ترک وطن کر جانا اور آخرکار بین الاقوامی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار ہو جانا شامل ہے۔ ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ صیہونی حکمران اس وقت مختلف ممالک کی جانب سے پابندیوں کے خطرے سے بھی روبرو ہیں۔ لہذا اس اخبار کے مطابق 23 اقتصادی ماہرین کی جانب سے شائع ہونے والا یہ خط درحقیقت غاصب صیہونی رژیم کے لیے آخری وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مقبوضہ فلسطین میں نیتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف آئے دن عوامی مظاہرے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وزیر جنگ یسرائیل کاتز اور وزیر تزویراتی امور ران کی رہائش گاہ کے قریب بھی عوامی مظاہرے انجام پاتے ہیں۔ غزہ میں حماس کے ہاتھوں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ اس احتجاج میں آگے آگے ہیں۔ نیتن یاہو کو خبردار کرنے والے اقتصادی ماہرین نے لکھا ہے کہ غزہ جنگ نہ صرف بھاری فوجی اخراجات کا باعث بن رہی ہے اور اس کے منفی سیاسی اثرات ظاہر ہو رہے ہیں بلکہ "عنقریب تباہ کن اقتصادی اور مالی بحران" سے بھی اس کا براہ راست تعلق ہے اور صیہونی رژیم کا پورا اقتصادی ڈھانچہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ خطر لکھنے والے وہ اقتصادی ماہرین جو نوبل انعام یافتہ ہیں یہ ہیں: ڈارون عاصم اوگلو، اینگس ڈیٹن، پیٹر ڈائمنڈ، ایسٹر دوفلو، کلوڈیا گولڈن، ایرک میسکین، راجر مایرسن، ایڈمنڈ فیلپس، کرسٹوفر بساریڈس اور جوزف اسٹگلیٹر۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی اخبار مارکر اقتصادی ماہرین اسرائیلی معیشت سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ صیہونی رژیم کی جانب سے کا شکار ہو ماہرین نے نیتن یاہو تباہ کن ہو جانا رہے ہیں ہے اور کیا ہے دیا ہے
پڑھیں:
ایرانی انٹیلیجنس کے ساتھ تعاون کرنیوالے اسرائیلی شہری شمعون ازرزر کے ایک سال پر محیط رابطے بے نقاب
شاباک اور پولیس کی تحقیقات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایرانی انٹیلیجنس کے احکامات پر مختلف سیکیورٹی مشن انجام دیتا رہا، حساس مقامات کی تصاویر اور لوکیشنز پہنچاتا رہا، اور حتیٰ کہ اس نے ایرانی ایجنٹس کو اہم فوجی اڈوں سے اہم معلومات دینے کی پیشکش بھی کی۔ اسرائیلی چینل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ازرزر کو اس کے بدلے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے رقم بھیجی جاتی رہی۔ اسلام ٹائمز۔ ایک اسرائیلی ٹی وی چینل نے صیہونی انٹیلی جنس ایجنسی شاباک اور پولیس کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 27 سالہ صہیونی شہری کو ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، جو ایک سال سے زیادہ عرصہ تک ایرانی انٹیلیجنس اہلکاروں کے ساتھ رابطے میں تھا اور بھاری رقوم کے عوض حساس فوجی معلومات اور ائیر بیسز کی تصاویر منتقل کرتا رہا۔ اسرائیلی داخلی سلامتی کے ادارے شاباک اور پولیس نے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا کہ شمعون ازرزر نامی 27 سالہ شخص کو ایران کے ساتھ تعاون کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ شخص ایک سال سے زیادہ عرصہ ایران کے انٹیلیجنس اہلکاروں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں رہا۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ایران پر حملے سے چند گھنٹے قبل ازرزر کو اپنے ایرانی رابطہ کار کی جانب سے ایک اشارہ ملا جس سے وہ حملے کے بارے میں آگاہ ہوگیا۔ میڈیا دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے فوراً ایرانی ایجنٹ سے رابطہ کیا، جس نے اسے حکم دیا کہ وہ وزیراعظم نیتن یاہو کے گھر کے قریب کیمروں کی تنصیب کرے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمعون ازرزر، جو کریات یام کا رہائشی ہے، اپنی بیوی یا گرل فرینڈ کی مدد سے، جو اسرائیلی فوج کے ریزرو اور فضائیہ میں خدمات انجام دے چکی ہے، فوج اور فضائیہ کے اڈوں سے متعلق معلومات جمع کرنے میں مصروف تھا۔
شاباک اور پولیس کی تحقیقات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایرانی انٹیلیجنس کے احکامات پر مختلف سیکیورٹی مشن انجام دیتا رہا، حساس مقامات کی تصاویر اور لوکیشنز پہنچاتا رہا، اور حتیٰ کہ اس نے ایرانی ایجنٹس کو اہم فوجی اڈوں سے اہم معلومات دینے کی پیشکش بھی کی۔ اسرائیلی چینل نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ازرزر کو اس کے بدلے ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے رقم بھیجی جاتی رہی۔ ٹی وی چینل I24 نیوز کی رپورٹ کے مطابق ازرزر پر تقریباً چار لاکھ شیکَل کا بھاری قرض ہے اور اس کا مجرمانہ ریکارڈ بھی کافی وسیع ہے۔ وہ ایک مرحلے پر ایران کا سفر کرنے کے امکان پر بھی غور کر چکا تھا۔
رپورٹ میں مبینہ طور پر ازرزر اور ایرانی ایجنٹ کے درمیان کچھ مکالمے بھی نشر کیے گئے۔ اسرائیلی چینل کا دعویٰ ہے کہ ایرانی انٹیلیجنس نے اپنے پیغامات میں اس سے نیتن یاہو کے گھر کے قریب کیمرے نصب کرنے کو کہا تھا۔ ازرزر نے، میڈیا کے بقول اپنی ایک گفتگو میں ایرانی ایجنٹ کو بتایا کہ میں ان لوگوں کا مقروض ہوں جو میرا پیچھا کر رہے ہیں، انہیں پتا چل گیا ہے کہ میں آپ سے بات کرتا ہوں۔ اس نے مزید کہا کہ مجھ پر ملک سے باہر جانے پر پابندی لگائی گئی ہے، میرے لئے پاسپورٹ کا کوئی بندوبست کرو۔