مغربی کنارے کو 2 حصوں میں تقسیم کا اسرائیلی منصوبہ، سعودی عرب کے بعد جرمنی کا بھی شدید اعتراض
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
جرمنی نے اسرائیل کے تازہ ترین تعمیراتی منصوبوں کی سخت مخالفت کی ہے، جن کے تحت یہودی بستیوں کے ہزاروں نئے یونٹس تعمیر کیے جائیں گے اور اس سے مغربی کنارے کو مؤثر طور پر 2 حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور 2 ریاستی حل کو خطرہجرمن وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ منصوبے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں، مذاکرات کے ذریعے 2 ریاستی حل کے امکانات کو پیچیدہ بناتے ہیں، اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) کے اس مطالبے کی راہ میں رکاوٹ ہیں کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ ختم کیا جائے۔
’ای-ون‘ اور معالہ ادومیم کی توسیع کے اثراتبیان میں کہا گیا کہ ای-ون منصوبہ اور معالہ ادومیم کی توسیع کے نتیجے میں فلسطینی آبادی کی نقل و حرکت مزید محدود ہو جائے گی، مغربی کنارے شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہو جائے گا، مشرقی یروشلم باقی مغربی کنارے سے کٹ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینی ریاست کے تصور کو ‘دفن’ کرنے کے لیے نئی یہودی بستی کی تعمیر کا اعلان
سرحدوں میں تبدیلی اور الحاق پر جرمن موقفجرمنی نے واضح کیا کہ وہ 4 جون 1967ء کی سرحدوں میں تبدیلی کو صرف اسی صورت تسلیم کرے گا جب یہ فریقین کی باہمی رضامندی سے ہو۔
بیان میں اسرائیلی حکومت کے کسی بھی یکطرفہ الحاق (Annexation) کے منصوبے کو بھی مسترد کیا گیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیر خزانہ بیزلیل سموتریچ نے منظوری دے دی ہے:
3,401 یونٹس معالہ ادومیم میں، 3,515 یونٹس اردگرد کے علاقوں میں۔
یوں یہ منصوبہ مغربی کنارے کو 2 حصوں میں بانٹ دے گا اور مشرقی یروشلم کو الگ کر دے گا۔
فلسطینی اور عالمی ردعملفلسطینی وزارتِ خارجہ نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے ’گریٹر اسرائیل‘ منصوبے کا حصہ ہے، جو قبضے کو مضبوط اور آزاد فلسطینی ریاست کے امکان کو ختم کر دے گا۔
یہ بھی پڑھیے سعودی عرب کا اسرائیلی توسیعی منصوبے کی شدید مذمت، فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی اکثریت اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھتی ہے اور بارہا خبردار کر چکی ہے کہ ان کی توسیع امن کے امکانات کو ختم کر رہی ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہجولائی 2024 میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی تمام بستیوں کو خالی کیا جائے۔
سعودی عرب کی طرف سے اسرائیلی توسیعی منصوبے کی شدید مذمتسعودی وزارتِ خارجہ نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کے گرد مزید یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
وزارت نے اسرائیلی وزیر خارجہ کے اس بیان کو بھی مسترد کر دیا جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کو روکا جانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
سعودی بیان میں واضح کیا گیا کہ یہ مؤقف اقوام متحدہ کی قرارداد 2234 (2016) کے منافی ہے، جو اسرائیل سے مغربی کنارے بالخصوص القدس میں بستیوں کی تعمیر فوری روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
سعودی عرب نے ان اقدامات کو عالمی انصاف اور امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا، اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کے تحفظ اور اسرائیلی مظالم کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
بیان میں کہا گیا کہ قانونی تحفظ فراہم کیے بغیر مشرق وسطی میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
مزید برآں، سعودی عرب نے اسرائیلی حکومت کی توسیع پسندانہ اور غیرقانونی پالیسیوں کی پرزور مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل، سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا تاکہ اسرائیلی جرائم کو روکا جا سکے اور فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی بستیاں سعودی عرب فلسطین مغربی کنارہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی بستیاں فلسطین فلسطینی ریاست کے بین الاقوامی نے اسرائیلی کی توسیع کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کی نئی چال؛ فلسطینی ریاست کے قیام کو ہمیشہ کیلیے دفن کرنے کا منصوبہ
اسرائیلی وزیر اسموٹریچ نے راتوں رات مشرقی یروشلم کے علاقے کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا اعلان کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کے دائیں بازو کے شدت پسند وزیر خزانہ بیتزالل اسموٹریچ نے مغربی کنارے کے حساس ترین علاقے E1 میں غیر قانونی یہودی بستی کے منصوبے کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قدم فلسطینی ریاست کے تصور کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔
اسرائیلی وزیر نے اپنے متنازع اعلان میں یہ بھی بتایا کہ وہ 3 ہزار سے زائد یہودی آبادکاروں کو اس علاقے میں رہائشی پلاٹس کی منظوری دیں گے، جو معلیٰ ادومیم بستی کو یروشلم سے جوڑ دے گا۔
یاد رہے کہ اسرائیل کا اس علاقے میں یہودی آبادکاروں کو بسانے کا دیرینہ رہائشی منصوبہ کئی دہائیوں سے عالمی دباؤ کے باعث رکا ہوا تھا لیکن اب اسرائیلی وزیر نے اس پر عمل درآمد اعلان کردیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اسموٹریچ نے کہا کہ یہ منصوبہ حقیقت میں فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کر دیتی ہے کیونکہ نہ کوئی پہچاننے والا بچا ہے اور نہ کوئی پہچانے جانے والا۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو نسل کشی، جبری بے دخلی اور ناجائز قبضے کے جرائم کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے "گریٹر اسرائیل" کی پالیسی کی عکاس ہے۔
ادھر یشا کونسل کے چیئرمین اسرائیل گانٹز اور معلے ادومیم کے میئر گائے یفرخ نے اس اقدام کو "تاریخی اور زبردست کامیابی اور یہودی بستیوں کی تحریک کی مضبوطی میں انقلابی قدم" قرار دیا۔
دوسری جانب بین الاقوامی مبصرین نے بھی اعتراض اُٹھایا کہ E1 منصوبہ مغربی کنارے کو شمال اور جنوب میں تقسیم کر دے گا جس سے ایک متصل فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن ہوجائے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی علاقوں کو کاٹ کر رکھ دے گا اور یروشلم، بیت لحم، اور رملہ جیسے شہروں کے درمیان رابطہ ختم ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی نگرانی ادارے پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز مغربی کنارے میں 4,030 نئے رہائشی یونٹس کی منظوری دی گئی۔ صرف معلیٰ ادومیم میں 3,300 یونٹس کی منظوری سے وہاں کی آبادی میں 33 فیصد اضافہ متوقع ہے۔