ٹرمپ کی یورپی یونین کی مصنوعات اور ایپل آئی فونز پر ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی یونین سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر 50 فیصد ٹیرف لگانے کی "سفارش" کرکے ایک بار پھر عالمی تجارتی کشیدگی کو ہوا دیدی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ یورپی ممالک کے ساتھ ہمارے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس وجہ سے میں یکم جون 2025 سے یورپی یونین کی درآمدی اشیا پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی سفارش کر رہا ہوں۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی امریکی کمپنیوں کے خلاف غیر منصفانہ اور بلاجواز مقدمے، ٹیکسز اور کارپوریٹ جرمانوں سے امریکا کا تجارتی خسارہ سالانہ 25 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو کہ بالکل ناقابل قبول ہے۔
یورپی یونین کی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا یہ اعلان یورپی یونین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ میں ایک نیا موڑ ہے حالانکہ امریکا پہلے ہی یورپی مصنوعات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرچکا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایپل کمپنی کو بھی نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکا میں فروخت ہونے والے آئی فونز ملک کے اندر تیار نہیں کیے گئے تو ان پر 25 فیصد درآمدی ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے بقول میں نے ایپل کے سی ای او ٹِم کک کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ امریکا میں فروخت ہونے والے آئی فونز امریکا میں ہی میں بنائے جائیں نہ کہ بھارت یا کسی اور ملک میں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایپل کو کم از کم 25 فیصد ٹیرف دینا ہوگا۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکی صدر بنتے ہی دنیا کے مختلف ممالک پر متعدد درآمدی محصولات (ٹیرف) عائد کیے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ درآمدی اشیا پر ٹیرف عائد کرنے کا مقصد امریکی صنعتوں کو فروغ دینا ہے تاکہ مقامی ملازمتوں کو تحفظ دیا جا سکے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یورپی یونین کی ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر فیصد ٹیرف ٹیرف عائد
پڑھیں:
اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
کینیڈین وزیرِاعظم مارک کارنی نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک ’اینٹی ٹیرف اشتہار‘ پر معافی مانگی ہے، جس میں سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کو دکھایا گیا تھا جب کہ انہوں نے اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ ڈگ فورڈ کو یہ اشتہار نشر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
غیر ملکی خبررساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اشتہار کو ’جعلی اینٹی ٹیرف مہم‘ قرار دیتے ہوئے کینیڈین اشیا پر مزید 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے اور تمام تجارتی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مارک کارنی نے جنوبی کوریا کے شہر گیونگجو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے امریکی صدر سے معافی مانگی تھی کیوں کہ وہ اس اشتہار سے ناراض تھے۔
صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تجارتی مذاکرات اس وقت دوبارہ شروع ہوں گے جب امریکا تیار ہوگا۔
کینیڈا کے وزیراعظم نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ انہوں نے اشتہار نشر ہونے سے پہلے ڈگ فورڈ کے ساتھ اس کا جائزہ لیا تھا مگر اسے استعمال کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس اشتہار کو نشر کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔
یاد رہے کہ یہ اشتہار کینیڈا کی ریاست اونٹاریو کے وزیرِاعلیٰ نے تیار کرایا تھا، جو ایک قدامت پسند سیاستدان ہیں اور جن کا موازنہ اکثر ٹرمپ سے کیا جاتا ہے، اس اشتہار میں ریگن کا ایک بیان شامل کیا گیا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کا باعث بنتے ہیں‘۔
مارک کارنی نے مزید کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی گفتگو دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، اور انہوں نے اس دوران غیر ملکی مداخلت جیسے حساس معاملات پر بھی بات کی۔
کینیڈا کے چین کے ساتھ تعلقات مغربی ممالک میں سب سے زیادہ کشیدہ رہے ہیں، تاہم اب دونوں ممالک ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، حالانکہ شی اور ٹرمپ نے جمعرات کے روز کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
چین اور کینیڈا نے جمعے کو 2017 کے بعد پہلی بار اپنے رہنماؤں کے درمیان باضابطہ مذاکرات کیے۔
کینیڈین وزیراعظم کا صحافیوں سے گفتگو میں مزید کہنا تھا کہ ہم نے اب ایک ایسا راستہ کھول لیا ہے جس کے ذریعے موجودہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شی جن پنگ کی طرف سے ’نئے سال میں‘ چین کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے وزرا اور حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ باہمی تعاون سے موجودہ چیلنجز کے حل تلاش کریں اور ترقی و اشتراک کے نئے مواقع کی نشاندہی کریں۔