شریف فیملی کیخلاف منی لانڈرنگ کیس: شہزاد اکبر کی درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
لاہو ر(ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے شریف فیملی کیخلاف ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں شہزاد اکبر کی درخواست عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دی۔
نجی ٹی وی دنیانیوز کے مطابق ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سمیت دیگر کے خلاف درخواست خارج کی گئی، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم نے شہزاد اکبر کی درخواست کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ شہزاد اکبر نے اپنے وکیل ہارون الیاس کی وساطت سے شریف فیملی کی منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بریت کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا، کیس میں شہزاد اکبر کے وکیل پیش نہ ہوئے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے سال 2020 کو پی ٹی آئی کی حکومت میں شریف فیملی پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کے بعد ایف آئی اے عدالت نے شہباز شریف ، سلمان شہباز سمیت دیگر کو مقدمے سے بری کر دیا تھا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے شہزاد اکبر کے وکیل کے پیش نہ ہونے پر عدم پیروی کی بنیاد پر درخواست کو خارج کر دیا، شہزاد اکبر نے شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کی ایف آئی اے کورٹ کا بریت کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔
سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
عالمی فوجداری عدالت نے طالبان کے سینئر راہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے
غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ججوں کا اپنے بیان میں کہ۔ا تھا کہ ایسے معقول شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر شبہہ ہے کہ افغانی سپریم لیڈر اور چیف جسٹس نے صنف کی بنیاد پر انسانیت کے خلاف جرم یعنی ظلم و ستم کا ارتکاب کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے افغانستان میں خواتین پر مظالم کے الزام میں طالبان کے سینئر راہنماؤں سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ججوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ایسے معقول شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر شبہہ ہے کہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی نے صنف کی بنیاد پر انسانیت کے خلاف جرم یعنی ظلم و ستم کا ارتکاب کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگرچہ طالبان نے پوری آبادی پر کچھ قوانین اور پابندیاں عائد کیں، لیکن انہوں نے خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کو ان کی جنس کی بنیاد پر نشانہ بنایا اور انہیں بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم کیا۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے مطابق یہ مبینہ جرائم 15 اگست 2021ء کو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شروع ہوئے اور کم از کم 20 جنوری 2025ء تک جاری رہے۔ عالمی عدالت کے ججوں نے کہا کہ طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم، نجی زندگی اور خاندانی زندگی کے حقوق اور نقل و حرکت، اظہار رائے، سوچ، ضمیر اور مذہب کی آزادیوں سے سختی سے محروم کیا، اس کے علاوہ دیگر افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا کیونکہ بعض جنسی رجحانات یا صنفی شناخت کے اظہار کو طالبان کی صنفی پالیسی کے منافی سمجھا گیا۔ خیال رہے کہ 30 جنوری کو عالمی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست دی تھی، جس کی سماعت کے بعد آج طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی کے وارنٹ جاری کیے گئے۔