تل ابیب میں نیتن یاہو کیخلاف مظاہرے، استعفے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
اسرائیل کے سابق دارالحکومت تل ابیب میں ایک بار پھر وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے غزہ پر جاری جنگ کے فوری خاتمے، یرغمالیوں کی رہائی اور نیتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہائی کا شکار بنا دیا ہے۔
اس احتجاج کا پس منظر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا تسلسل ہے، جہاں اسرائیلی فوج کی جانب سے بمباری کے تازہ سلسلے میں مزید بارہ فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 91 ہو چکی ہے، جب کہ مجموعی شہادتیں 53 ہزار 901 تک پہنچ گئی ہیں۔
المواسی کیمپ پر بمباری کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہوئے۔ دوسری جانب خان یونس میں ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں غزہ کی معروف ماہر اطفال ڈاکٹر آلاء النجار کے نو بچے شہید ہو گئے، جب کہ ان کا شوہر اور ایک بچہ زخمی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر آلاء اپنے شوہر اور بچوں کو گھر پر چھوڑ کر اسپتال میں ڈیوٹی پر تھیں، جب انہیں النصراسپتال میں اپنے بچوں کی شہادت کی خبر دی گئی۔
غزہ میں انسانی بحران روز بروز بدترین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے محدود پیمانے پر غذا کی فراہمی کے باعث لاکھوں افراد قحط اور بھوک کا شکار ہیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق غذائی قلت کے باعث کم از کم چار لاکھ ستر ہزار افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی جانب سے بارہا جنگ بندی کی اپیلوں کے باوجود اسرائیل کی بمباری اور غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے، جب کہ نیتن یاہو کی حکومت اندرون ملک بھی شدید عوامی دباؤ اور احتجاج کا سامنا کر رہی ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نیتن یاہو
پڑھیں:
اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ناصر اسپتال کے حوالے کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں واقع ناصر اسپتال نے بتایا ہے کہ اسے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) کے ذریعے مزید 30 فلسطینیوں کی لاشیں موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد جنگ بندی کے بعد سے موصول ہونے والی لاشوں کی مجموعی تعداد 225 ہوگئی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپتال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آج اسرائیلی قابض افواج نے بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس کے ذریعے 30 فلسطینی شہداء کی لاشیں حوالے کیں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی متعدد لاشوں پر تشدد، ہاتھ باندھنے، آنکھوں پر پٹیاں باندھنے اور چہرے بگاڑنے کے آثار پائے گئے ہیں جب کہ بیشتر لاشیں شناخت کے بغیر واپس کی گئی ہیں۔
واضح رہےکہ یہ اقدام 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کا حصہ ہے، جس کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے میں مصر، قطر اور ترکی ثالثی کے کردار میں ہیں، جب کہ امریکا نگرانی کر رہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، غزہ میں تباہ شدہ فرانزک لیبارٹریوں اور اسرائیلی محاصرے کے باعث اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی شناخت جسمانی نشانات یا کپڑوں سے کر رہے ہیں۔ اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نئی موصولہ لاشوں پر تشدد کے نشانات یا شناخت سے متعلق معلومات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
فلسطینی نیشنل کمپین برائے بازیابیِ شہداء کے مطابق، جنگ بندی سے قبل اسرائیل 735 فلسطینیوں کی لاشیں نمبروں کے قبرستانوں میں دفنائے ہوئے تھا ، اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1500 فلسطینیوں کی لاشیں جنوبی اسرائیل کے بدنام زمانہ سدی تیمن فوجی اڈے میں رکھے ہوئے ہے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔