دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
البتہ یہ فرق ضرور سامنے آیا کہ ابتدائی صدیوں میں اجتہاد کا عمل ان فقہی مکاتب فکر کی طرز کے متعین اصول وضوابط کے دائروں کا پابند نہیں تھا اور آزادانہ اجتہاد کے ذریعہ مجتہدین اپنے اپنے علاقوں میں امت کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے مگر ان فقہی مکاتب فکر کے منظم ہونے کے بعد اجتہاد کے اصول وضوابط طے کرنے کا کام جاری نہ رہا اور انہی کے واضح کردہ اصول وقوانین کی پابندی کرتے ہوئے عملی دائروں میں اجتہاد کا سلسلہ بدستور چلتا رہا۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ کسی بھی علم کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کا ایک خاص وقت ہوتا ہے، یہ وہی وقت ہوتا ہے جب وہ تشکیل وتدوین کے مراحل سے گزر رہا ہو۔ اور جب وہ تشکیل وتدوین کے ایک خاص مرحلہ تک پہنچتا ہے تو بنیادی اصول وضوابط کے وضع کرنے کا عمل ضرورت پوری ہو جانے کی وجہ سے خود بخود رک جاتا ہے اور اس کے بعد اس علم نے ہمیشہ انہی بنیادی اصولوں کے دائرے میں آگے بڑھنا ہوتا ہے جو اس کے لیے ابتدا میں طے کر دیے جاتے ہیں۔ ان اصول کے دائرہ میں اس علم کا ارتقا جاری رہتا ہے لیکن اس کے بنیادی اصولوں کو نہ کبھی چیلنج کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں جامد قرار دے کر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر علم صرف کو سامنے رکھا جا سکتا ہے کہ اس کے اصول اور بنیادی قوانین انسانوں نے ہی وضع کیے ہیں اور ماضی، مضارع، فاعل، امر، نہی اور ظرف وغیرہ کے صیغوں کی تشکیل اور دیگر ضوابط ایک دور میں صرف کے اماموں نے طے کیے ہیں، ان میں جزوی ترمیمات وتوضیحات ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن بنیادی قواعد کا ڈھانچہ وہی چلا آ رہا ہے جو اس کے ابتدائی ائمہ نے طے کر دیا تھا۔ اسے نہ تو کسی بھی دور میں چیلنج کرنے کا کوئی جواز ہے اور نہ ہی یہ سوال اٹھانا عقل مندی کی بات ہوگی کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل کے لوگوں کو قواعد وضوابط بنانے کا حق تھا تو آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ حق ہمیں کیوں حاصل نہیں ہے؟ ہم ان قواعد وضوابط میں اضافہ کر سکتے ہیں، ان کی ضرورت کے مطابق نئی تشریحات کر سکتے ہیں لیکن اس کے بنیادی ڈھانچہ کی نفی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کی نسبت تبدیل کر سکتے ہیں کہ یہ اعزاز تقدیر وتاریخ میں جن کے لیے طے تھا، ان کو مل چکا ہے اور اب قیامت تک ان سے یہ کریڈٹ چھینا نہیں جا سکتا۔
۳- علما، دور جدید اور اجتہاد
آج کل عام طور پر ایک بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ علماء کرام نے ’’اجتہاد‘‘ کا دروازہ بند کر دیا ہے اور جمود کو امت پر مسلسل مسلط کر رکھا ہے جس کی وجہ سے امت پر ترقی کے دروازے مسدود ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس مرحلہ پر اس سوال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے لیا جائے تو مناسب بات ہوگی۔
جہاں تک اجتہاد کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کی بات ہے، اس کا دروازہ تو ابتدائی تین صدیوں کے بعد سے اس لحاظ سے بند ہے کہ اس کے بعد اجتہاد کا عمل انہی دائروں میں ہوتا آ رہا ہے جو مسلمہ فقہی مکاتب فکر نے طے کر دیے تھے اور یہ دروازہ کسی کے بند کرنے سے بند نہیں ہوا بلکہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد فطری طور پر خود بخود بند ہو گیا ہے جیسا کہ کسی بھی علم کا فطری پراسیس ہوتا ہے، البتہ مسلمہ فقہی مکاتب فکر کے متعین کردہ اصولوں کے دائرہ میں اجتہاد کا معاملہ قدرے تفصیل طلب ہے۔ ہمارے خیال میں جو فقہ جس دور میں بھی کسی اسلامی مملکت کا قانون رہی ہے، اس میں وقت کی رفتار اور ضرورت کے مطابق اجتہاد کا عمل بھی جاری رہا ہے۔ اس اجتہاد میں نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی کا عمل بھی شامل ہے۔ خلافت عثمانیہ اور جنوبی ایشیا کی مغل حکومت دونوں کا قانون فقہ حنفی پر مبنی تھا۔ خلافت عثمانیہ میں ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ کی تدوین اور مغل حکومت میں ’’فتاویٰ عالم گیری‘‘ کی ترتیب کے کام پر نظر ڈال لیجیے، آپ کو سابقہ فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی اور نئے مسائل کے حل کی اجتہادی کاوشیں دونوں جگہ یکساں دکھائی دیں گی۔ موجودہ دور میں سعودی عرب میں حنبلی فقہ کی عمل داری ہے، آپ اس کا جائزہ لیں گے تو سعودی قضاۃ کے فیصلوں میں آپ کو حنبلی فقہ اب سے دو سو برس قبل کی جزئیات کی شکل میں نہیں بلکہ آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے جدید اجتہادات کی روشنی میں آگے بڑھتی نظر آئے گی۔ اسی طرح اہل تشیع نے ایران میں فقہ جعفری کو ملکی قانون کا درجہ دیا ہے تو یقیناًانہوں نے صدیوں پہلی کتابیں اٹھا کر انہیں عدالتی قانون کی حیثیت نہیں دے دی بلکہ آج کے حالات اور تقاضوں کے مطابق انہیں جدید اجتہادات کے ساتھ جدید قانونی زبان اور اصطلاحات کے ذریعہ نافذ العمل بنایا ہے۔
یہ فقہی مذاہب کے اس کردار کی بات ہے جو انہوں نے مختلف ممالک میں سرکاری مذاہب کے طور پر ادا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس سے ہٹ کر پرائیویٹ سیکٹر میں دیکھ لیجیے۔ ہمارے ہاں جنوبی ایشیا میں مغل اقتدار کے خاتمہ کے بعد اجتہاد اور افتا کا یہ عمل عدالت اور سرکار کے دائرہ سے نکل کر عوامی حلقوں میں آ گیا تھا۔ اس خطے میں گزشتہ دو صدیوں کے دوران سینکڑوں دار الافتا قائم ہوئے ہیں جو اب بھی کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بیسیوں کو علمی وعوامی حلقوں میں اس درجہ کا اعتماد حاصل ہے کہ دینی معاملات میں ان کی بات کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے بلا مبالغہ لاکھوں فتاویٰ جاری کیے ہیں جو کئی ضخیم کتابوں کی صورت میں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ اگر اہل علم کی کوئی ٹیم اس کام کے لیے مقرر کی جائے کہ وہ ان فتاویٰ کا جائزہ لے کر یہ تجزیہ کرے کہ ان میں کتنے فتوے ایسے ہیں جن میں ان مفتیان کرام نے اجتہادی صلاحیت سے کام لیتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں جدید مسائل کے نئے حل پیش کیے ہیں تو ہمارے محتاط اندازے کے مطابق ان کا تناسب مجموعی فتاویٰ کے بیس فی صد سے کسی طرح کم نہیں ہوگا۔ آپ ان کے فتاویٰ سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انہوں نے نئے مسائل کا سامنا کیا، ان کے حل کے لیے اجتہاد کا عمل اختیار کیا اور جدید مسائل میں مسلمانوں کی راہ نمائی کی ہے۔
ہم تھوڑا سا اور آگے بڑھ کر ایک دو حوالے اور دینا چاہیں گے۔ ایک یہ کہ پاکستان بننے کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ اسلامی نظام کا نفاذ کس مذہبی فرقہ کی تشریحات کے مطابق ہوگا تو تمام مذہبی مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام جمع ہوئے۔ علامہ سید سلیما ن ندویؒ کی سربراہی میں انہوں نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات طے کر کے واضح کر دیا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالہ سے مذہبی مکاتب فکر میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان دستوری نکات کو مذہبی مکاتب فکر کے اتحاد اور اتفاق کے مظہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ بات درست ہے، لیکن ہمارے نزدیک تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات اتحاد امت کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور حساس ملی معاملات میں اجتہادی عمل کے آئینہ دار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک نکتہ اجتہادی عمل کی عکاسی کرتا ہے اور ان سرکردہ علماء کرام کی اجتہادی صلاحیتوں کی علامت ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اصول وضوابط کے اجتہاد کا عمل مکاتب فکر کے بنیادی اصول کر سکتے ہیں میں اجتہاد علماء کرام کے بنیادی انہوں نے کے مطابق کیے ہیں ہوتا ہے کے ساتھ جاتا ہے کے لیے کے بعد کی بات ہے اور
پڑھیں:
سمندری سلامتی کو درپیش نئے خطرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ایڈمرل نوید اشرف
تصویر سوشل میڈیا۔پاکستان نیوی وار کالج کے 54ویں کانووکیشن کی تقریب کا لاہور میں انعقاد کیا گیا، چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق تقریب میں 118 افسران کو ڈگریاں تفویض کی گئیں، فارغ التحصیل افسران میں دوست ممالک کے 44 افسران بھی شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق نیول چیف نے اپنے خطاب میں جنگی نوعیت میں تبدیلی اور سمندری سلامتی کو درپیش نئے خطرات کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق انھوں نے کہا پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی جنگ کی بدلتی ہوئی نوعیت کا واضح ثبوت ہے، غیر ریاستی عناصر کے کردار کے تناظر میں روایتی عسکری حکمت عملیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
نیول چیف نے کہا غیر روایتی جنگی طریقہ کار کے تناظر میں روایتی عسکری حکمت عملیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق تقریب کے اختتام پر مہمان خصوصی نے کامیاب گریجویٹس میں ڈگریاں تقسیم کیں، تقریب میں اعلیٰ عسکری حکام ، سول معززین اور کورس ممبران کے اہل خانہ شریک تھے۔