بیجنگ :امریکا کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے عائد پابندی نے معروف ہارورڈ یونیورسٹی کو طوفان کے مرکز میں دھکیل دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبا ء کو داخلہ دینے کی اہلیت کو منسوخ کر دیا، جس کے تحت یونیورسٹی میں تقریباً 6،800 غیر ملکی طلبا ء کو جلد از جلد ٹرانسفر کرنا ہوگا یا اپنی قانونی حیثیت کھونا ہوگی۔ امریکی وزیر برائے ہوم لینڈ سکیورٹی کرسٹی نوئم نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی پر پابندی امریکہ کی تمام جامعات اور تعلیمی اداروں کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف امریکی اعلیٰ تعلیم کی روایتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ امریکہ میں نام نہاد سیاسی اشرافیہ کی جانب سے سیاسی مفادات کی خاطر ملک کی بنیاد کو ہلانے کی نظری کمزوری کو بھی بے نقاب کیاہے ۔اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلباء کا تمام طلبا ء میں تناسب 27 فیصد سے زیادہ ہے، جو دنیا بھر کے 140 سے زیادہ ممالک اور علاقوں سے وابستہ ہیں اور ان میں سے زیادہ تر گریجویٹ پروگراموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندی کا اعلان ہوتے ہی ہارورڈ یونیورسٹی اور امریکی معاشرے کے تمام حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی۔ ہارورڈ کے اسکول میگزین دی ہارورڈ کرمسن نے ایک مضمون میں نشاندہی کی کہ امریکی کانگریس کی متعدد کمیٹیوں کی جانب سے’’ اینٹی ٹرسٹ انویسٹی گیشنز اورسام دشمنی کے خلاف غیر موثر ردعمل کے نام پر ہارورڈ یونیورسٹیوں کا جامع جائزہ لینا دراصل ان سر فہرست جامعات کو جنہوں نے ہمیشہ آزادی پر زور دیا ہے ،یہ مجبور
کرنے کی کوشش ہے کہ وہ سیاسی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہوں ۔امریکی ریاست میساچوسٹس کی گورنر مورا ہیلی کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسی طلبا ء کو سزا دے رہی ہے اور معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ امریکی ویب سائٹ ایگزیوس کاماننا ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے اسٹارٹ اپس کے ترقیاتی چینل میں خلل پڑ سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 20 امریکی یونیکارن کمپنیوں کے بانی یا شریک بانی ہارورڈ کے سابق بین الاقوامی طلبا ء ہیں ۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف فارن اسٹوڈنٹ ایڈوائزرز نے متنبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی اسکالرز کو ملک سے نکالنے سے امریکا کی معاشی طاقت اور بین الاقوامی مسابقت کمزور ہو جائے گی اور یہ حکومت کے “امریکہ کو عظیم بنانے” کے بیان کردہ مقصد کے منافی ہے۔یہ طوفان سیاسی حساب کتاب سے بھرا ہوا ہے، جو امریکی معاشرے میں مزید تقسیم اور نظریاتی میدان میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان کشمکش کی شدت میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.6 بلین ڈالر کی فنڈنگ کو “اینٹی سیمیٹ تحقیقات” کے بہانے منجمد کیا، پھر “سفید فاموں کے خلاف امتیازی سلوک” کی بنیاد پر متنوع داخلہ پالیسی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور آخر میں “کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ساتھ ملی بھگت” کے شبہ میں چینی اداروں کے ساتھ تعاون کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ تین مراحل پر مبنی الزام تراشی امریکہ میں میک کارتھی دور کے پولیٹکل پلے بک کی تکرار کی طرح ہے جہاں ہمیشہ کی طرح ، چین کو ایک بار پھر بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ 19 مئی کو امریکی ایوان نمائندگان کی ‘سلیکٹ کمیٹی آن چائنا’ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو لکھے گئے ایک خط میں جان بوجھ کر ہارورڈ اور چینی اداروں کے درمیان معمول کے تعلیمی تبادلوں کو ‘ٹیکنالوجی کی منتقلی’ کے طور پر پیش کیا۔ چینی وزارت خارجہ نے اس کی سختی سے تردید کی اور مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ تحقیقی تعاون کو بدنام کرنے کا یہ عمل صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش کی منطقی توسیع ہے – آخر کار ، ہارورڈ ، ڈیموکریٹک اشرافیہ کا گہوارہ اور “تنوع ، مساوات اور جامعیت” کی اقدار کا نمائندہ ہونے کے ناطے ، ہمیشہ قدامت پسندوں کے حق میں کانٹا رہا ہے۔امریکی حکومت کی جانب سے امریکہ بھر میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی “صفائی” کے خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ برطانوی جریدے نیچر میں مارچ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق سروے میں شامل 1600 سے زائد امریکی محققین میں سے تقریباً 75 فیصد نے کہا کہ وہ امریکہ چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے حکومت کی پابندی کو معطل کرنے کا عارضی حکم امتناع جاری کیا ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سائنسی تحقیق کی فنڈنگ منجمد کرنے، تعلیمی تحقیق پر سنسرشپ اور کالجوں اور جامعات کو فریقین میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرنے سے کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ جیسا کہ نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اقدام امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے ماحول کو تباہ کرنے کی اس کی کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے، جس سے دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ کو راغب کرنے کی اعلیٰ ترین جامعات کی صلاحیت کو براہ راست نقصان پہنچتا ہے۔بوسٹن کے دریائے چارلس کے کنارے، لال اینٹوں سے بنی عمارتوں نے البرٹ آئنسٹائن کو لیکچر دیتے دیکھا تھا اور خود امریکہ کا عروج اس کے ماضی میں کھلے پن اور جامعیت سے قریبی تعلق رکھتا ہے ۔ آج کا امریکہ دنیا بھر میں محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے رہا ہے، امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کر رہا ہے اور بین الاقوامی ماہرین تعلیم کو بے دخل کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کو خود ساختہ قید کے بند دروازے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ بندش اور قدامت پسندی بالآخر زوال کا باعث بنے گی۔ جب سیاسی کشمکش پارٹی کے ذاتی مفادات کے لئے تعلیم کے قانون کو مسخ کرتی ہے تو یہ نہ صرف جامعہ کی بنیاد بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی ہلا دے گی ۔ تاریخ نے بار ہا ثابت کیا ہے کہ دیواریں تعمیر کرنے والے عظمت قائم نہیں کر سکتے اور دروازے کھولنے والے ہی مستقبل کے حقدار ہوتے ہیں ۔5شی جن پھنگ کا فودان یونیورسٹی کی 120ویں سالگرہ پر مبارکباد کا خط ،سماجی علوم ،ہنرمندی اور سائنس و ٹیکنالوجی پر زور دیا کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری، چین کے صدر اور مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین شی جن پھنگ نے 26 مئی کو چین کی فودان یونیورسٹی کی 120ویں سالگرہ پر مبارکباد کا خط بھیجا اور تمام اساتذہ، عملے اور سابق طلباء کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کی۔شی جن پھنگ نے اپنے مبارکبادی خط میں کہا کہ 120 سال میں، فودان یونیورسٹی نے بڑی تعداد میں ممتاز ہنر مند افراد کو تربیت دی، کئی اصل تخلیقی کامیابیاں حاصل کیں، اور ملک کی تعمیر اور قوم کی ترقی میں فعال کردار ادا کیا۔شی جن پھنگ نے زور دیا کہ نئے نقط آغاز پر، امید ہے کہ فودان یونیورسٹی مسلسل نئے دور کے چینی خصوصیت کے سوشلسٹ نظریے سے طلباء کی تربیت کرے، تعلیمی اور تحقیقی اصلاحات کو گہرا کرے، سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصار جدت اور ہنر مند افراد کی پرورش کے مثبت تعامل کو فروغ دے، فلسفہ اور سماجی علوم میں علم، نظریہ اور طریقہ کار کی جدت کو آگے بڑھائے، اور ملک کی اہم حکمت عملی اور علاقائی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے خدمات کی صلاحیت کو مسلسل بہتر بنائے، تاکہ مضبوط ملک کی تعمیر اور قوم کے نشاۃ ثانیہ کے لیے نئی خدمات سرانجام دے ۔ Post Views: 4
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ:
ہارورڈ یونیورسٹی
فودان یونیورسٹی
ٹرمپ انتظامیہ
بین الاقوامی
کی جانب سے
جن پھنگ
کرنے کی
رہا ہے
کیا ہے
ملک کی
پڑھیں:
سیمی کنڈکٹر اور جیٹ انجن پر پابندی: چین کے خلاف نئی امریکی تجارتی جنگ؟
واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے کچھ امریکی کمپنیوں کو چین کو مصنوعات فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت کے ترجمان کے مطابق، یہ اقدام قومی سلامتی اور اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے پیشِ نظر اٹھایا گیا ہے۔
برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے چین کو سیمی کنڈکٹر ڈیزائن کرنے والے سافٹ ویئر کی فروخت پر مؤثر طور پر پابندی عائد کر دی ہے، جو جدید ٹیکنالوجی میں ایک بنیادی جزو سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح نیو یارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے چین کو جیٹ انجن ٹیکنالوجی اور کچھ مخصوص کیمیکلز کی فروخت بھی روک دی ہے، جو فوجی اور صنعتی ترقی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ: "ہم چین کو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل برآمدات کا جائزہ لے رہے ہیں، اور کچھ کمپنیوں کے ایکسپورٹ لائسنس میں اضافی شرائط شامل کر دی گئی ہیں۔"
ماہرین کے مطابق یہ اقدام امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔