Express News:
2025-05-29@06:25:00 GMT

آخری دن

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

ہم ڈھاکہ کے پریس کلب میں بیٹھے تھے۔ یہ ہمارا اس میٹھی دھوپ اور زمردیں کنجوں کے شہر میں آخری دن تھا۔ ہم اکتائے ہوئے اور کچھ اداس تھے۔ ہم میں سے نصف لوگ پہلے ہی اپنی خیرسگالی کو ختم کرکے کیلوں کے گچھوں سے لدے پھندے واپس مغرب کو فلائی کرچکے تھے۔ ناولسٹ پامپس ابھی تک ڈھاکے ہی میں تھا۔ لیکن وہ کلب کے لنچ پر موجود نہیں تھا۔ کلب ایک چھوٹے سے باغ میں ایک خوش نما دو منزلہ عمارت ہے۔ ڈھاکے کے اخبار نویس اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں کہ انہیں ایسا پرسکون اور آرام دہ گوشہ میسر ہے۔

لنچ کچھ مشرقی تھا، کچھ مغربی اور مناسب پیمانے پر پرتکلف۔ ہمارے علاوہ میز پر انفارمیشن آفیسر اور ڈھاکے کے انگریزی اخباروں کے نمائندے تھے اور دو خوبصورت اور چارمنگ لڑکیاں تھیں، جن میں سے ایک بے حد شرمیلی تھی۔ اخبار نویسوں نے خود کھانا ترتیب دیا۔ مجھے ان کی سادہ اور غیر رسمی سی مہمان نوازی بڑی بھائی۔ لنچ کے بعد ہم اوپر کی منزل کے لاؤنج میں باتیں کرنے اور سگریٹ پینے کے لیے جابیٹھے۔ وہاں کسی نے بلدیہ گارڈنز کا ذکر کیا اور کہا کہ ہم اسے دیکھے بغیر ڈھاکہ سے نہ جائیں۔

’’ابھی کیوں نہ چلیں؟‘‘ لڑکیوں میں سے ایک نے تجویز پیش کی۔ دبی دبی شرمیلی ہنسی ہنستے ہوئے، مسٹر گوگول، توپ وتفنگ کے گنجے، باتونی اور دلچسپ نمائندے نے خود کو بطور گائیڈ پیش کیا۔ گوگول نے کہا کہ وہ اس جگہ سو بار ہو آیا ہے اور اس کے چپے چپے سے اسے نفرت ہے، لیکن وہ میزبانی کی روایات کی خاطر ہمارے ساتھ جائے گا۔ ہم مائیکروبس میں ٹھنس ٹھنسا کے بیٹھ گئے۔ بورس میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہم دونوں میں ابھی تک بول چال بند تھی، چالنا کی دریائی بندرگاہ کے سخت جھگڑے کے بعد ایک دوسرے کو زہر لگتے تھے۔

مائیکرو بس ایک خاموش سڑک کے کنارے پتوں اور پھولوں سے ڈھنپے ہوئے ایک دروازے پر رکی اور ہم نیچے اترے۔ مسٹر گوگول نے اندر جانے کے ٹکٹ خریدے۔ اندر جانے کا ٹکٹ تھا! مجھے بیچارے گوگول پر ترس آیا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کے لیے ٹکٹ خریدنے کا اس کا پہلا تجربہ تھا اور ہمیشہ دوسرے اس کا ٹکٹ خریدتے تھے۔ میزبانی کی قیمت ہوتی ہے۔ مجھے ایک غریب اخباری نمائندے کے اس طرح لٹنے کا افسوس ہوا، لیکن ہم بھلا کیا کرسکتے تھے۔ بیچارہ، بیچارہ گوگول!

پہلے ہم عجائب گھر میں داخل ہوئے، جو بلدیہ باغ کا ایک حصہ ہے۔ میوزیم مجھے پرسکون اور تابوتی لگا۔ فضا میں وہ میٹھی پھپھوندی لگی سی بو تھی جو عجائب گھروں سے مخصوص ہے۔ سبز روشنی رنگے ہوئے شیشوں سے چھن کر آرہی تھی اور اندر کے جھٹپٹے کو ہلکا کرتی تھی۔ دو کمرے تھے، دونوں میں عجوبوں اور نوادرات سے پرگلاس کیس سجے ہوئے تھے۔ دیواروں پر کمپنی بہادر اور مغل زمانے کے جنگی ہتھیار لٹک رہے تھے۔ توڑے دار بندوقیں، پیش قبض، خنجر، برچھے اور کئی دوسرے ہتھیار جن کے میں نام نہیں جانتا۔ میں نے اس وقت ناولسٹ پامپس کی غیر موجودگی کو محسوس کیا۔ پامپس، جو خود کو قدیمی اسلحہ پر اتھارٹی سجھتا ہے، یہاں خوب اپنے علم کے جوہر دکھاتا اور بڑے اعتماد سے چہکتا۔ میں نے سوچا، پامپس کی کھوپڑی کتنی ہی بے کار اور غلط معلومات سے ٹھنسی ہوئی ہے۔ یہاں اس کی تردید کرنے والا کوئی نہ تھا، وہ جو کچھ بھی کہتا چل جاتا۔

دونوں خوبصورت لڑکیاں، جو یہاں پہلے آچکی تھیں، مجھے شیشے کے صندوقوں میں رکھی ہوئی چیزیں دکھانے لگیں۔ وہ بڑی اچھی لڑکیاں تھیں، پرمذاق اور سلجھی ہوئی۔ میں نے خود کو اکیلا محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ چپکا لیا تھا اور وہ بھی، میرا خیال ہے مجھے پسند کرنے لگ گئی تھیں۔ پریس کلب میں میں نے انہیں پامپس کو سندر بن ایڈونچرز کا خیال سنایا تھا، جس کو انہوں نے مزے سے سنا تھا اور خوب ہنسی تھیں۔ بورس میری وجہ سے خودبخود ہی ایسی دلنواز صحبت سے الگ رہنے پر مجبور ہوگیا تھا۔

بہرحال، اس کا ستارہ کافی کچھ ماند پڑچکا تھا۔ گلاس کیسوں کے درمیان پھرتے ہوئے جب دو تین بار ہماری نظریں ٹکرائیں (ہم ہمیشہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے تھے، چونکہ نفرت بھی ایک قسم کی محبت ہے) تو مجھے ان میں خون آشامی کی جھلک دکھائی دی۔ مسٹر گوگول گائیڈ کا حق پوری طرح ادا کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اگرچہ اتنی بار یہاں کی سیر کرنے کے بعد بھی اس کی معلومات ہمارے جتنی ہی تھیں، لیکن اسے اس جگہ کی تاریخ کے بارے میں کچھ سوجھ بوجھ تھی، برائے نام سی۔ اس نے اس کے بل بوتے پر ہمیں ایک پوری کہانی سنائی۔

اس جگہ کوئی ایسی چیز نہیں، جسے بلدیہ کی کارگزاری سے منسوب کیا جاسکے۔ عجائبات اور نوادرات کا مجموعہ ایک گذرے ہوئے متمول شہری کا فراہم کردہ ہے۔ کس لگن، کس محبت سے اس نے ان عجوبوں کو ڈھونڈا اور حاصل کیا ہوگا۔ کتنے ہزاروں، لاکھوں روپے ان کے حصول پر خرچ آئے ہوں گے۔ اپنی ساری عمر میں اس نے یکسوئی سے اور دل و جان سے اپنے شوق کے پودے کی آبیاری کی اور آرٹ اور حسن کی تلاش میں زندگی دے دی اور اس منزل تک پہنچنے کے جنوں میں اس کے قدم کبھی نہ ڈگمگائے۔

عجائب گھر کے داخلے پر اس میوزیم کے خالق کی بڑی فریم شدہ تصویر ٹنگی تھی۔ گوگول نے اسے فخریہ انداز سے ہمیں پوائنٹ آؤٹ کیا۔ کسی جگہ، میں نے سوچا، میں نے اس چہرے کو دیکھا ہے۔ چھوٹی بھینگی قدرے پرحسرت آنکھیں، تنگ نیچا ماتھا، پھولے ہوئے گال، موٹے حساس ہونٹ، ٹھوڑیاں دو تھیں اور چہرہ پلپلا، سر پر سفید پگڑی تھی۔ میں نے اسے کہاں دیکھا ہے؟ کسی پرانی فلم میں، لاہور کے کسی پھل فروش کی دکان پر… نہیں، سکول کی تاریخ کی کتاب میں، راجہ رام موہن رائے کی تصویر کے ہلکے سے نقوش میرے سامنے ابھرے۔ فوٹو پرنٹ بھی اسی نسل کا تھا سفید، دھندلا، مبہم۔ میں نے تصویر کو غور سے دیکھا تو یہ وہ آدمی تھا جس کے دل میں نادر چیزوں اور درختوں کے لیے اتنی لگن تھی۔

اس کے چہرے میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے اس کے ستھرے مذاق اور ذوق حسن کا پتہ ملتا۔ یہ ایک عام گول مٹول، معصوم، تن آسان بنگالی چہرہ تھا۔ کیا چہرے واقعی اتنا کچھ بتاسکتے ہیں جتنا صورت شناسوں کا دعویٰ ہے؟ کیا وہ دل کا سب حسن اور سوز، اس کی لگن اور تپش آشکار کرسکتے ہیں؟ میں نے سوچا، ممکن ہے وہ محض ایک شوقین مزاج آرٹ کے خزانے جمع کرنے والا آدمی ہو، جس کو ان چیزوں کی حقیقی قدرو قیمت معلوم نہ ہو اور جو انہیں خود نمائی کے جذبے کے تحت اکٹھا کرتا ہو۔ میں یقیناً غلط تھا… تصویر کو دوبارہ دیکھنے سے مجھے اس میں ایک عجیب خوبصورتی نظر آئی۔ یہ ایک شانت، مطمئن چہرہ تھا، اپنی فربہی کی تہوں کے باوجود۔ آنکھوں میں حسرت ضرور جھانکتی تھی، ایک مضطر تمنا: ان سے زیادہ معصوم آنکھیں میں نے نہیں دیکھیں۔

گوگول نے تصویر کے عین نیچے ایک جڑے ہوئے کتبے کی عبارت کی طرف ہماری توجہ دلائی۔ ہم سب نے اسے باری باری پڑھا۔ اس کے باوجود کہ زندگی اور گزرے ہوئے سالوں نے ہمیں سرد دل اور رحم کے جذبے سے خائف بنادیا تھا، اس کتبے کی عبارت میں اتنا درد تھا کہ ہم جذباتی ہوگئے۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں اور میں نے جلدی سے اپنے آنسوؤں کو لڑکیوں سے آنکھ بچا کر پونچھ ڈالا۔ میں بلاوجہ ہنس پڑا۔ یہ کتبہ اس امیر آدمی نے اپنے بیٹے کی یادگار میں نصب کرایا تھا، جو عین جوانی کے عالم میں داغ مفارقت دے گیا تھا۔ کتبے کی انگریزی عبارت بڑی ہی مرصع اور قدرے مضحکہ خیز تھی، لیکن اس کے ایک ایک لفظ میں باپ کی شدت غم کی آنچ تھی۔

آخر میں آنے والوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس نوجوان کی سمادھی پر پھول ضرور چڑھاتے ہیں۔

اس کتبے کے پیچھے ایک پردرد چھوٹی سی کہانی ہے۔ اگر صرف گوگول بتاتا تو میں کبھی یقین نہ کرتا، لیکن میں نے ڈھاکہ میں اسے ایک دو قابل اعتماد آدمیوں سے سنا اور یہ ضرور سچ ہوگی۔ اس میوزیم اور باغ کے معمار کی پہلی بیوی شادی کے چند سال بعد ہی سرگباش ہوگئی۔ اس کے بطن سے اس آدمی کا ایک بیٹا تھا اور بیوی کے مرنے سے اس کی ساری محبت اپنے بیٹے پر مرکوز ہوگئی۔ دس بارہ سال گزرگئے، اس آدمی نے دوسری شادی نہ کی۔ پھر کچھ خاندانی دباؤ سے اور کچھ اپنی چاہت سے اس نے دوسرا بیاہ رچایا۔ نئی عورت جوان اور خوبصورت تھی، لیکن اس کا دل پتھر کا تھا۔ وہ کہانیوں کی سوتیلی ماؤں کی طرح سخت دل اور بے رحم تھی… دوسری رانی کیکئی۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے شوہر کو اپنے بیٹے سے اسی طرح محبت ہے تو اس نے بیٹے کی طرف سے باپ کا دل میلا کرنے کے لیے کئی تریا چلتر کیے۔ سال کے بعد بھگوان نے اس کی گود ہری کی۔ تب تو اس پر اپنے سوتیلے بیٹے کا وجود ہی کھلنے لگا اور وہ اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوگئی۔

وہ یہ جانتی تھی کہ اس کے شوہر کی جائیداد کا وارث بڑا بیٹا ہی ہوسکتا ہے۔ ایک دن وہ ایک کھیل کھیلی۔ اپنے سوتیلے بیٹے سے، جو اب جوان ہوچکا تھا، بڑے چاؤ اور بھاؤ سے پیش آئی اور اسے اپنے ہاتھ سے دودھ کا گلاس پلایا۔ لڑکے کے دل میں کوئی وسواس نہ تھا، وہ دودھ پی گیا، یہ گمان کیے بغیر کہ اس امرت میں زہر گھلا ہے۔

چند گھنٹوں کے اندر اندر، طبیبوں اور حکیموں کی چارہ سازیوں کے باوجود، وہ مرگیا۔ اس کے مر جانے کا اس کے باپ کو سخت صدمہ ہوا۔ ایسی باتیں کب چھپ سکتی ہیں۔ بات ظاہر ہونے سے نہ رہ سکی۔ جب باپ پر پورا حال کھلا کہ اس کے لڑکے کی موت کیونکر ہوئی تو فرط غم سے اس نے اپنے حواس کھو دیے۔ وہ بدل گیا، اسے دنیا کی کسی شے سے دلچسپی نہ رہی۔ اپنے میوزیم اور باغ سے بھی نہیں۔ بیٹے کی موت کے چند ماہ بعد ہی وہ اس سے جا ملا۔

گوگول نے کہا کہ وہ سوتیلی ماں ابھی تک زندہ ہے اور پاس کے مکان میں رہتی ہے۔ مائیکرو بس کے ڈرائیور عزیز الرحمن نے بھی اس کی گواہی دی۔ بورس اس سارے معاملے کے متعلق بہت زیادہ جذباتی ہورہا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ اس عورت سے ملنا چاہیے، لیکن کسی دوسرے نے اس کی حامی نہ بھری۔ گوگول نے کھلم کھلا اس کا مذاق اڑایا۔

ہم میوزیم سے باہر باغ میں آگے۔ گھنے پتوں میں جھٹپٹے کا سماں تھا اور روشنی گویا شفاف پانی میں سے نتھر کر آرہی تھی۔ یہاں دو یا تین پودوں کے لیے شیشے کے گھر تھے۔ پودے زیادہ تر ایسے تھے جو ان ہواؤں میں نہیں اگتے۔ ’گرین ہاؤسوں‘ سے آگے ہم باغ میں اور جنوری کی سہ پہر کی گلابی دھوپ میں آئے۔ باغ بظاہر اجڑا ہوا اور ویران تھا۔ آسیب زدہ روشوں اور راستوں کے بغیر۔ بابل کے لٹکتے ہوئے باغ دیکھنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا۔ ان کا منظر بھی کچھ ایسا ہوگا۔ میرا چہیتا انگریزی مصنف رابرٹ لوئی اسٹیونسن اجڑے باغوں سے محبت کرتا تھا اور اس کی ایک نظم ’’حسین گھر‘‘ اس طرح شروع ہوتی ہے ’’پھل اور پھول سے ننگا باغیچہ… ایسی جگہ میں رہتا ہوں: باہر سے اجڑی پجڑی اور اندر سے بے سامان…‘‘ مجھے بھی اجڑے باغ پسند ہیں۔

خصوصاً یہ بلدیہ باغ۔ قتل و خون کے لیے یہ بڑی موزوں جگہ ہے اور جب بھی میں نے کس کے قتل کا ارادہ کیا (ایسے تین چار آدمی میری نظر میں ہیں جن کے بارے میں کبھی کبھی میرے دل میں ایسی خواہش پیدا ہوتی ہے) تو میں اس کو باتوں باتوں میں یہاں لے آؤں گا۔ جب میرا انجان شکار جاوا کے ربڑ کے درخت کو حیرت سے دیکھنے میں منہمک ہوگا، میں چپکے سے اپنا لمبا چاقو اس کی پیٹھ میں گھونپ کر اسے چلتا کروں گا۔ سورج کی گھڑی کے پیچھے ایک گھنی اندھیری جگہ ہے جہاں لاش کو مناسب طریق سے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔

میں نے بورس کی طرف کنکھیوں سے دیکھا۔ کیا اس کے دماغ میں بھی اس وقت قتل کے خیالات گزر رہے ہیں؟

گوگول کی زبان کبھی چلنے سے نہ رکتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بکی آدمیوں میں ایک ہوگا۔ لیکن وہ اپنے اخبار کا بڑا کامیاب نمائندہ تھا، پیچ لڑانے میں ماہر۔ پچھلے پانچ سال سے وہ ڈھاکہ میں اخبار کے کام کو سنبھالے ہوئے تھا۔ ہر کوئی اسے جانتا تھا اور وہ ہر کسی کو۔ مگر گوگول قدرے بے پروا اور غیر سنجیدہ گائیڈ تھا۔ کوئی اس کی بات کا یقین نہیں کرسکتا تھا۔ ایک درخت کی طرف اپنی سونٹی سے اشارہ کرتے ہوئے گوگول نے بتایا کہ یہ ربڑ کا درخت ہے۔ یہ اس قسم کی کوئی چیز نہ تھا، اگرچہ کئی اس کی طرف اشتیاق سے لپکے۔ یہ ایک عام کیکر تھا۔ جب لڑکیوں میں سے ایک نے وضاحت کی کہ میاں گوگول، ربڑ کا درخت تو وہ آگے کونے پر ہے، تو مجال ہے گوگول کو ذرا خفت ہوئی ہو۔ اس نے جان بوجھ کر غلط معلومات نہ دی تھیں۔ اس نے صاف صاف اقرار کیا کہ اس کے لیے سب درخت ایک سے ہیں اور اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ کیلے کے پودے کو آدم کا درخت بنا دے۔

ہم میں سے بیشتر میرے خیال میں گوگول کی کشتی میں سوار تھے۔ ذاتی طور پر میں اب تک ٹاہلی، سرس یا کیکر کے درخت کو ایک نظر میں نہیں پہچان سکتا۔ اپنے پیشے اور کام سے متعلق باتوں کے علاوہ ہمارا عام علم بہت محدود ہوتا ہے اور ہم خدا کی زمین میں آنکھیں موند کر چلتے ہیں۔ اس اجڑے باغ میں کئی نادر درخت تھے جن کے پودے اس کے مالک نے دور دور کے دیسوں سے منگوائے تھے اور انہیں بڑی محنت اور محبت سے سینچ کر پروان چڑھایا تھا۔ وہ ایسے درخت تھے جو بنگال کی دھرتی میں نہیں ہوتے۔ ملایا، فجی اور برازیل کے انجانے درخت۔ ہمیں ان کے نام بھی بتائے گئے اور اب مجھے یہ اقرار کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ان میں سے صرف ربڑ کا درخت میرے ذہن میں رہ گیا ہے۔

ہم ایک پتھریلے حوض پر آئے۔ پانی کے بغیر ایک حوض۔ چوڑی سیڑھیاں نچلی تہہ تک جاتی تھیں۔ کبھی یہ پرفضا جگہ ہوگی۔ اب یہ ایک وحشیانہ تحمل کی حامل تھی۔ خالی، شکستہ حوض، ویران درخت، یہ سب اسی ٹریجیڈی کی کہانی بتاتے تھے جس نے ایک امیر اور سلجھے ہوئے خاندان کو آلیا تھا۔ ہم درختوں کو دیکھتے ہوئے تالاب کے گرد چلے اور آخر بیلوں سے پٹے ہوئے ایک کونے میں سورج کی گھڑی پر آئے۔

ہم مغرب سے آنے والوں میں سے شاید کسی نے پہلے سورج کی گھڑی نہ دیکھی تھی اور ہم نے اس عجوبے کو دلچسپی سے دیکھا۔ ڈاکٹر پامپس ناولسٹ یہاں ہوتا تو وہ اس موقعہ پر سورج کی گھڑی پر ایک طویل اوٹ پٹانگ لیکچر دیتا اور بغداد کے اس مسلمان موجد کے حالات زندگی پر ایک تبصرہ کرتا جس نے سب سے پہلے یہ گھڑی ایجاد کی تھی۔ وہ اس کی بابت کچھ جانے بغیر ہمیں بتانے کی کوشش کرتا کہ اس سے وقت کیسے دیکھا جاسکتا ہے۔ سورج کی گھڑی ایک پتھریلے چبوترے پر مشتمل تھی جس پر مدھم ہندسوں کے نشان تھے۔ اس کے اوپر ایک لوہے کے پتر کا سایہ پڑتا ہے اور وقت کی نشاندہی کرتا ہے۔

درختوں کے دھندلکے میں پتر کا سایہ غیر واضح اور نامعلوم سا تھا۔ ہم گوگول اور چند دوسروں نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوا کہ یہ گھڑی محض ایک آرائشی عجوبہ ہی نہ تھی، یہ قریب قریب صحیح وقت بتاتی تھی۔ سورج کی گھڑی اس باغ کے آخر میں تھی۔ ہم وہاں سے ہچکچاتے، دبے قدموں سے رخصت ہوئے تاکہ خوابیدہ روحوں کو نہ جگائیں۔ لیکن میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھیوں کے احساسات کیا تھے۔ سوچ رہا تھا کہ وہ آدمی جس کے اندر اتنی لگن تھی اور جس نے یہ میوزیم اور باغ بنایا تھا، ہزاروں میں ایک تھا۔ وہ ایک دھرماتما تھا۔ ایسے آدمی کم ملتے ہیں۔ اس خراب آباد میں، جہاں ہم میں سے بیشتر زندگی کی گھڑیوں اور الجھنوں کو چھوٹی چھوٹی رنجشوں، خانگی تلخیوں اور حقیر مصروفیتوں کی نذر کردیتے ہیں اور ساری عمر اپنی ناکامیوں کے نوحے کرتے گذار دیتے ہیں، ایک لگن رکھنے والا آدمی قابل ستائش ہے۔

باہر جانے سے پہلے میں مڑا اور میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اس آدمی کو پرنام کیا جس کے دل میں حسن کی اتنی لگن تھی اور جو درختوں کو پیار کرتا تھا۔

٭٭٭

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سورج کی گھڑی سے دیکھا میں نہیں کہ اس کے کا درخت میں ایک تھی اور تھا اور ا نکھیں نے بیٹے اور ہم اور اس ہے اور یہ ایک بھی اس کے لیے کے بعد کا تھا سے ایک کی طرف

پڑھیں:

شعوری زندگی کا مرحلہ

عام لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر کاموں کو عمومی طور پر انجام دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے روزمرہ کے کاموں کو کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگوں کی اکثریت اپنے کاموں کو کرنے کے لئے اپنے دماغ کو خود کار طریقے سے استعمال کرتی ہے یعنی زیادہ تر لوگ اپنے دماغ کو آٹو (Auto) پر لگا دیتے ہیں جیسے وہ خود اپنے ہی دماغ کے لئے کام کرنے کے عادی یا غلام ہوں۔
زندگی کے اس خود کار نظام کے زیر اثر ہی ہم روزانہ صبح سویرے اٹھتے ہیں، نہاتے دھوتے ہیں، ناشتہ کرتے ہیں اور پھر سکول کالج جاتے ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں یا نوکری اور کاروبار کرنے کے لیئے گھر سے نکل جاتے ہیں۔ ہماری سماجی زندگی بھی ایسی ہی ہے کہ ہم تہوار منانے ہیں، خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کھیل کود کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جو صرف سوچتے ہیں یا لیبارٹریوں میں بیٹھ کر سائنسی تجربات انجام دیتے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو صرف گیان کرتے ہیں یا بدھا کی طرح تخت و تاج چھوڑ کر محض سادھو بن کر زندگی گزارتے ہیں۔
ہماری دنیا میں سماجی خدمت گار بھی زیادہ نہیں ہیں جو اپنی ضروریات کو ترک کر کے اپنی زندگیوں کو دوسروں کی حاجات پوری کرنے کے لیئے وقف کر دیتے ہیں۔ متوازن زندگی بہترین اور کامیاب نظام حیات ہے جس میں انسان ماحول اور معاشرے کے لئے ہمیشہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی مجرد زندگی انسان کو دماغ میں آنے والے آزاد اور گمراہ خیالات سے بھٹکنے سے بھی روکے رکھتی ہے۔
خیر کسی کی غلامی سے اپنے دماغ کی غلامی کرنا کوئی اتنی بری بات نہیں ہے مگر اس کے عادی ہو جانے کا ایک بنیادی نقصان یہ ہے کہ ایک بار آپ کو اس کی عادت پڑ جائے تو پھر آپ زندگی بھر اپنی ہی غلامی میں ایک مشین بن کر کام کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے اور مشینوں کے درمیان ’’اختیار‘‘ اور’’ارادے‘‘ کا بنیادی فرق ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ ہم کیا کر رہے ہیں تو اس سے کرنے یا نہ کرنے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ انسان کے ’’اشرف المخلوقات‘‘ یا ’’احسن تقویم‘‘ ہونے سے مراد کاموں کے انجام دینے کے مثبت یا منفی نتائج سے آگاہی ہے۔ ہم انسانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ایک بیالوجیکل یا بائیو مخلوق (Bio Creature) ہیں۔ ورنہ کام تو مشینیں بھی کرتی ہیں۔ اس لئے بطور انسان ہمیں صرف ارادی اور شعوری کاموں کو کرنے کا طریقہ سیکھنا چایئے تاکہ ان کے نتائج ہمیں یا دوسرے انسانوں کو نقصان دینے کا باعث نہ بن سکیں۔
دماغی کارکردگی کے اعتبار سے ہمارے دماغ کے دو بڑے حصے ہیں جن کے تحت ہم شعوری اور لاشعوری طور پر کام انجام دیتے ہیں۔ قبل از وقت کاموں کے نتائج سے آگاہی کارخیر کے ضمرے میں آتی ہے۔ جدید نفسیات کے مطابق ہم زندگی کے 95 فیصد کام لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔ اول ہمارے جسم کا سارا اندرونی نظام خودکار طریقے سے کام کرتا یے۔ دوم ہمارے جسم کے تمام داخلی نظامات جیسا کہ دل اور دماغ کا کام کرنا، نظام انہضام کا چلتے رہنا، دل کا تسلسل سے ڈھڑکنا، بالوں اور ناخنوں کا اگنا یا نظام تنفس وغیرہ کا چلنا، یہ سارے کام ایک خودکار نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ ہم اپنے دل کی دھڑکن یا خون کی گردش کو اپنی مرضی سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی چلا سکتے ہیں۔ گو کہ ہم سوچتے ہیں، بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں اور اپنے بیرونی جسم کو روزانہ استعمال میں بھی لاتے ہیں۔ لیکن کاموں کے سو فیصد درست نتائج ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے ہیں۔
عملی زندگی کے اس پورے نظام میں لکھی تقدیر (Written Destiny) کا یہی مطلب ہے کہ بنی نوع انسان ایک ذیلی یا جزوی طور پر خود مختار مخلوق ہے جس نے سوشل اینیمل (Social Animal) ہونے کے باوجود انسانی تہذیب جیسی عظیم الشان منزل کو عبور کیا ہے اور اب وہ اس سے آگے کی منازل طے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس معاملے میںبہت سے لوگ اپنے شخصی رجحان اور زہنی فکر پر نظر رکھتے ہیں اور اپنے اعمال میں مرضی کی بہتری لا کر خود کو بدل لیتے ہیں۔ اپنی پسند اور مرضی کی کامیابیاں انہی کو نصیب ہوتی ہیں جن کو اپنے دماغ میں آنے والے خیالات پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے، بصورت دیگر لوگوں کی اکثریت بھٹک جاتی ہے۔
ہمارے دماغ کے منفی خیالات ہمیں غیر منافع بخش چیزوں کی طرف مائل رکھتے ہیں۔ اگر ہم خود پر نظر رکھیں اور دماغ میں آنے والے نقصان دہ خیالات سے گمراہ نہ ہوں تو ہم اپنی زندگی میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ کامیاب زندگی آگاہی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ اسی کے پیش نظر دنیا کے عظیم اور کامیاب لوگ خود کو ارادی اور شعوری زندگی گزارنے کا عادی بناتے ہیں۔
شعوری زندگی گزارنے کا یہ مقام و مرتبہ انہی لوگوں کے نصیب میں آتا ہے جو اپنے ذہن اور اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔ تجزیہ و تزکیہ نفس اس کا بہترین حل ہے۔ انسان خود پر نظر رکھے اور اسے اپنی نفسانی خواہشات کو روکنا آتا ہو تو اسے وہی درجہ و عزت حاصل ہوتی ہے جو اولیا ء اللہ کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ شعوری زندگی کا یہ مرحلہ پیدائشی طور پر اور محنت دونوں طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • اوورسیز کی وطن سے محبت، کوٹلی راج محل میں سجا منفرد کرکٹ میلہ
  • ملک کے انچ انچ کی حفاظت کیلئے اپنے بچے بھی قربان کر دیں گے، شیخ وقاص اکرم
  • شعوری زندگی کا مرحلہ
  • غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 9 بہن بھائی قتل
  • فرنچ اوپن کے بادشاہ کو خراجِ تحسین، رافیل نڈال آبدیدہ
  • ذاتی سیاست
  • خاتونِ خانہ : گھرداری بھی ایک فل ٹائم جاب ہے!
  • سحر ہاشمی کو ’’خدمت گزار‘‘ جیون ساتھی کی تلاش؛ شرائط بتادیں