قوم کی آواز بنو یا پھر ایک طرف ہو جائو، روح اللہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اگرچہ انہوں نے اپنے پیغام میں کسی کا نام نہیں لیا تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا یہ طنز براہ راست ان سیاسی شخصیات کی طرف اشارہ ہے جو اہم قومی اور آئینی معاملات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور رکن بھارتی پارلیمنٹ آغا روح اللہ مہدی نے سیاسی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں واضح پیغام دیا ہے کہ اٹھو اور قوم کی آواز بنو یا پھر ایک طرف ہو جائو۔ ذرائع کے مطابق آغا روح اللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس” پر سیاسی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک دوٹوک پیغام میں کہا ”او لیڈرو! یا اٹھو اور قوم کی آواز بنو تاکہ کسی کام آ سکو، یا پھر ایک طرف ہو جائو، چوڑیاں پہن لو اور پالنکی میں بیٹھ کر خاموشی اختیار کرو”۔ اگرچہ انہوں نے اپنے پیغام میں کسی کا نام نہیں لیا تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا یہ طنز براہ راست ان سیاسی شخصیات کی طرف اشارہ ہے جو اہم قومی اور آئینی معاملات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ پارٹی کی حالیہ ورکنگ کمیٹی اجلاس کے دوران روح اللہ مہدی نے واک آئوٹ کیا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آغا روح اللہ کا یہ بیان اس بڑھتی ہوئی بے چینی اور فکری کشمکش کا مظہر ہے جو نیشنل کانفرنس کے اندر خاص طور پر ان کارکنوں میں دیکھی جا رہی ہے جو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت، سیاسی شناخت اور خودمختاری کی بحالی کے لیے مضبوط موقف کے خواہاں ہیں۔ آغا روح اللہ پہلے بھی دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مسلسل اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ کشمیری عوام کی سیاسی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا اور جو قیادت اس نازک وقت میں بولنے سے قاصر ہے، اسے عوامی منڈیٹ پر قابض رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آغا روح اللہ
پڑھیں:
سندھ اور پیپلزپارٹی
سندھ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی نے تیسری دفعہ حکومت قائم کی ہے۔ ایک وقت تھا جب پیپلزپارٹی چاروں صوبوں کی سیاسی جماعت ہوتی تھی، وفاق کی علامت ہوتی تھی۔ لیکن عملی طور پر پیپلزپارٹی اب سندھ کی جماعت ہی بن کر رہ گئی ہے۔
پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ لیکن بلوچستان میں حکومت کیسے بنتی ہے سب کو علم ہے۔ ویسے تو جس کی وفاق میں حکومت ہو اسی کی بلوچستان میں حکومت بن جاتی ہے۔ اس وقت مرکز میں پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ اس لیے بلوچستان میں بھی دونوں جماعتوں کی ہی حکومت ہے۔ گزشتہ دور میں وہاں باپ پارٹی اور تحریک انصا ف کی حکومت تھی۔ اب دونوں جماعتوں کا بلوچستان میں وجود ہی نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی کا مرکزی حکومت میں ایک وزن ہے۔ وہ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی ہے لیکن یہ سب سندھ کے سر پر ہے۔ ان کی سیٹوں کی اکثریت سندھ سے ہے، ان کی سیاست کا مرکز سندھ ہے۔ وہ مرکز کے بڑے اتحادی ہیں لیکن سندھ کی طاقت پر ان کا یہ اتحاد ہے۔ اس لیے اس وقت عملی طورپر پیپلزپارٹی سندھ کی جماعت ہے۔
وہ باقی صوبوں میں سیاسی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب پر بہت توجہ ہے لیکن جب بھی سندھ کی بات آتی ہے پیپلزپارٹی سیاسی طور پر پنجاب کی قربانی دے دیتی ہے۔ حال ہی میں نہروں کے معاملہ پر بھی پیپلزپارٹی نے سندھ کو پنجاب پر ترجیح دی ہے۔ انھوںنے سندھ کے ووٹ بینک کو پنجاب کے ووٹ بینک پر ترجیح دی ہے۔ ہم اس کے سیاسی اثرات دیکھتے ہیں۔ پنجاب میں ان کا ووٹ بینک کم ہوتا رہتا ہے۔
لیکن خطرہ کی بات یہ ہے کہ آج کل پیپلزپارٹی کے سیاسی قلعہ سندھ پر بھی سیاسی نقب لگ رہی ہے۔ وہاں نہروں کے معاملہ پر احتجاج رکے نہیں ہیں۔ بلکہ سندھ قوم پرستوں کے احتجاج پر تشدد ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ سندھ میں نوشہرہ فیروز میں نہروں کے معاملہ پر پرتشدد احتجاج ہو ئے اور وہاں مظاہرین نے سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار کے گھر کو آگ لگا دی۔ اس سے پہلے وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر کھیل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ لیکن تب ہم سب کا خیال تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے سندھ میں غصہ ہے۔ لیکن کیا وہاں لوگوں میں پیپلزپارٹی کے لیے بھی غصہ ہے۔ کیا پیپلزپارٹی بھی مشکل میں ہے۔ یہ ایک عجب سوال ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی ہے۔پیپلزپارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو کا قافلہ جامشورو سے گزر رہا تھا تو سندھ قوم پرست مظاہرین نے آصفہ بھٹو کے قافلہ پر حملہ کر دیا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ پیپلز پارٹی کے لیے بہت خطرناک ہے۔ آصفہ بھٹو تو وہاں سے بلا مقابلہ منتخب ہوئی تھیں۔ کوئی ان کے مقابلہ میں انتخاب لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سندھ کے لوگوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شکل نظر آتی ہے۔ وہ تو سندھ میں بہت مقبول ہیں اور اب سندھ قوم پرستوں کی جانب سے ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا گیا ہے۔ گاڑی پر ڈنڈے برسائے گئے ہیں۔ ان واقعات نے بہت سے سیاسی سوالات جنم دے دیے ہیں۔
کیا سندھ کے قوم پرست سیاسی طور پر اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ محترمہ آصفہ بھٹو پر حملہ کر سکیں؟ کیا اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے وزیر داخلہ کے گھر کو آگ لگا سکیں؟ کیا سندھ پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل رہا ہے؟
نہروں کے معاملہ پر پیپلزپارٹی نے وکٹ کے دونوں طرف کھیلا ہے۔ پہلے وہ نہروں والے معاملہ کے ساتھ تھی۔ لیکن پھر سندھ کے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنا سیاسی موقف بدل لیا۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں نہروں کے مخالف سیاسی احتجاج کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ ملک کی ہائی ویز بند ہو گئیں۔ پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا۔ لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے ہائی ویز نہیں کھلوائیں۔ ایسا نہیں کوئی ہزاروں لوگ سڑکوں پر بیٹھے تھے‘ چند سو لوگ تھے۔ ملک بند ہوگیا لیکن پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کوئی ایکشن لینے کے لیے تیارنہیں تھی۔
ہمیں بتایا گیا کہ اگر پیپلزپارٹی ایسا نہیں کرتی تو سندھ پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ پیپلز پارٹی کی سیاست داؤ پر لگ گئی تھی۔ پیپلزپارٹی کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی والے مانتے تھے کہ ایک اجلاس میں صدر آصف زرداری نے نہروں کی منظوری دی تھی لیکن پھر حالات بدل گئے اور پیپلزپارٹی نہروں کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گئی۔
پیپلزپارٹی نے خود جلسہ جلوس کرنے شروع کر دیے تھے۔ بلاول خود بھی میدان میں آگئے۔ ویسے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حالت بھی کوئی مختلف نہیں تھی۔ مرکز اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نہریں بننے کی حامی تھی۔ لیکن سندھ کی ن لیگ نہروں کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں تھی۔
اسکرپٹ تو بہترین تھا۔ پیپلزپارٹی پہلے احتجاج میں شامل ہوئی۔ نہروں کے خلاف ماحول خود ہی بنانا شروع کر دیا۔ اگر پیپلزپارٹی شامل نہ ہوتی تو شاید ایشو اتنا بڑا بنتا بھی نا۔ لیکن پیپلزپارٹی نے شامل ہو کر مسئلہ کو بڑا کر دیا۔ اب پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ وہ نہروں کا منصوبہ ختم کروا کر سندھ میں ہیرو بن جائیں گے۔ وہ سندھ میں کہیں گے کہ پیپلزپارٹی نے نہریں ختم کروا دی ہیں۔ اور ہوا بھی یہی، وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی کے دباؤ میں نہروں کا منصوبہ ختم کر دیا۔ لیکن پیپلزپارٹی نہروں کا منصوبہ ختم کروا کر جس طرح سندھ میں ہیرو بننا چاہتی تھی وہ نہیں بن سکی۔
یہی خطرہ کی گھنٹی ہے۔ سندھ قوم پرست پیپلزپارٹی کو ہیرو بننے نہیں دے رہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کو پہلی دفعہ کوئی امید کی کرن نظرآئی ہے، وہ اس موقع کو غنیمت جان رہے ہیں، لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے اندرون سندھ ووٹ بینک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پر تشدد مظاہروں سے پیپلز پارٹی کا اندرون سندھ موجود سیاسی خوف ختم کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی حقیقت منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے غلطی ہوگئی۔ ان کو پہلے ہی روکنا تھا۔ پہلے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اب یہ پیپلز پارٹی کو کھا رہے ہیں۔ سیاست اسی چیز کا نام ہے۔