دنیا کا امیر ترین کرکٹر جس نے ریٹائر منٹ کے بعد بھی سب کو پیچھے چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
پاکستان سے بابر اعظم اور بھارت سے ویرات کوہلی کی شہرت تو بہت ہے لیکن دنیا کا امیر ترین کرکٹر کوئی اور ہے۔
دنیا کے امیر ترین کرکٹرز ناصرف اپنی شاندار کرکٹ مہارتوں کےلیے مشہور ہیں بلکہ برانڈ کی توثیق، کرکٹ لیگز کے ساتھ معاہدوں اور مختلف کاروباری سرگرمیوں کے ذریعے بہت زیادہ پیسہ کمانے کے لیے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم ان میں سے چند ہی کا شمار دنیا کے امیر ترین کرکٹرز میں کیا جاتا ہے۔
دنیا کے امیر ترین کرکٹر کوئی اور نہیں بلکہ بھارت کے سابق کرکٹر سچن ٹنڈولکر ہیں جن کی مجموعی مالیت 170 ملین ڈالر ہے۔
سچن ٹنڈولکر کا شمار کرکٹ کی تاریخ کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔
2013 میں بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی، وہ برانڈز کی توثیق، کاروبار، کرکٹ کمنٹری اور انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں ممبئی انڈینز کی ٹیم کے ساتھ کام کر کے پیسے کما رہے ہیں۔
انہوں نے کھیلوں کے اسکولوں، ریستورانوں اور نئے کاروباروں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جس سے اس کی کل دولت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
سچن ٹنڈولکر نے کرکٹ کے میدان میں کئی عالمی ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔ ایک روزہ بین الاقوامی اور ٹیسٹ میچوں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔
انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے زیادہ پلیئر آف دی میچ کا اعزاز حاصل کیا ہے اور بین الاقوامی میچوں میں 100 سنچریاں بنانے والے تاریخ کے واحد بلے باز ہیں۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امیر ترین کرکٹر بین الاقوامی
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔