(گزشتہ سے پیوستہ)
امریکاچاہتاہے کہ بھارت چین کے خلاف اپنی محاذآرائی برقراررکھے،اس لیے ممکن ہے کہ وہ بھارت کوفوجی اورمعاشی مدددے کر اسے’ ’بحال‘‘ کرنے کی کوشش کررہاہو۔ تاہم اس وقت یہ تاثردیاجا رہا ہے کہ امریکاکی جنگ بندی کی سفارش کا مقصدصرف’’وقت خریدنے‘‘سے زیادہ خطے کوایٹمی تصادم سے بچاناتھا۔
امریکی مداخلت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکی پالیسی کابنیادی مقصدجنوبی ایشیامیں اپنے استحکام اورچین کے بڑھتے اثرات کومحدود کرنا ہے۔بھارت اورپاکستان کے درمیان کشیدگی،خاص طورپرایٹمی جنگ کے خطرات،امریکاکے لئے بڑاخطرہ ہیں کیونکہ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیارہیں اورایٹمی تصادم کی صورت میں خطے کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت اورسلامتی کوشدید خطرات لاحق ہوں گے۔
پاکستان چین کااہم اتحادی ہے اور امریکا چاہتاہے کہ بھارت کو’’کواڈ‘‘کے ذریعے چین کے خلاف ایک توازن کے طورپراستعمال کیا جائے۔اگر بھارت فوجی یاسیاسی طورپرکمزور پڑا،تویہ امریکی مفادات کے لئے نقصان دہ ہوسکتاہے۔جنگ کی صورت میں خطے میں امریکی اتحادیوں جیسے سعودی عرب،یو اے ای کے مفادات متاثرہو سکتے تھے۔
عالمی تجزیہ نگاروں اورعالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے نقطہ نظرکے مطابق بھارت کی فوجی اور سفارتی(جیسے لداخ میں چین سے ہار،کشمیرپالیسی پرتنقید)نے اسے امریکاکے اعتمادمیں کمی کاباعث توضروربنی ہیں۔ کواڈمیں بھارت کاکرداراہم ہے،لیکن اگروہ چین کے خلاف مؤثرثابت نہیں ہوتا،توامریکااپنی حکمت عملی تبدیل کرسکتاہے۔سی پیک کی کامیابی اور چین-پاکستان اتحادنے خطے کے طاقت کے توازن کوتبدیل کردیا ہے،جس کے تحت بھارت کودفاعی طورپرزیادہ محتاط رہناپڑرہاہے۔
اب میڈیا میں امریکی مداخلت سے سیزفائرکے لئے کئی جوازپیش کئے جارہے ہیں کہ اگربھارت جنگ میں بالادست ہوتا،اورپاکستان کی شکست سے چین براہ راست مداخلت کرسکتا تھا،جوامریکاکے لئے خطرناک ہوتا۔کسی بھی فریق کی فیصلہ کن فتح ایٹمی ہتھیاروںکے تصادم کی وجہ بن جاتی۔ایک اور امریکی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ے کہ بھارت کی بالادستی سے خطے میں چین کااثرکم ہوجاتالیکن پاکستان کے عدم استحکام سے دہشتگردی جیسے مسائل بڑھ سکتے تھے جس سے اس خطے میں امریکا کے لئے لامتناہی مشکلات کادروازہ کھل جاتا جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی یوکرین میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں اورٹرمپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح یوکرین کی جنگ اپنے انجام کوپہنچے تاکہ روس سے دوستی کاہاتھ بڑھاکرخطے سے چین کے اثرکوروکنے کی کوشش کی جائے جو کہ ممکن نہیں۔امریکاکی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کی بنیادپرہی مداخلت کرتاہے۔
ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب، قطراوریواے ای کے دوران بارہاپاک بھارت کے درمیان سیزفائرکاکریڈٹ لیتے ہوئے اعلان کیاہے کہ جلد ہی دونوں ممالک کسی غیر جانبدارجگہ پراپنے جاری مسائل بشمول مسئلہ کشمیرپرمذاکرات کریں گے۔اب ضروری ہوگیا کہ پاکستان اپنی مکمل سفارتی تیاری کے ساتھ اپنے مضبوط اورتاریخی دلائل کے ساتھ اپنامقدمہ لڑے اورمذاکرات سے پہلے پوری قوم کواعتمادمیں بھی لیاجائے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ قوم کے ساتھ خطاب میں واضح کیاجائے کہ ان مذاکرات پرکس ایجنڈے پربات ہوگی تاکہ قوم کااعتمادآپ کی پشت پرہو۔
یادرکھیں کہ مذاکرات سے قبل پاکستان کوکئی چیلنجزکاسامناکرنے کابھی اندیشہ ہے جس میں سب سے پہلے بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا ’’اندرونی معاملہ ‘‘ بتاتے ہوئے اس مسئلے پربات چیت سے انکارکرسکتاہے۔اس صورت میں پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ مذاکرات سے پہلے چین،ترکی،اوراسلامی ممالک (سعودی عرب،یواے ای،قطر)کی حمایت سے بھارت پربین الاقوامی دباؤبڑھائے۔
پاکستان کوامریکاکے دوغلے رویے سے بھی خبرداررہنے کی ضرورت ہے کیونکہ امریکابیک وقت بھارت کوفوجی اتحاد(کواڈ)اور پاکستان کودہشتگردی کے خلاف اتحادی سمجھتاہے ۔ پاکستان کوچاہیے کہ وہ چین اورروس کے ساتھ تعلقات کومضبوط کرے تاکہ امریکا کے یکطرفہ اثرات کومتوازن کیاجاسکے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کوکشمیری عوام کی آوازکوعالمی سطح پراٹھانے کے لئے سوشل میڈیااوربین الاقوامی میڈیاکواستعمال کرناچاہیے۔
یقینا وزارتِ خارجہ آئندہ ہونے والے مذاکرات کے لئے اپنے ایجنڈے کی نوک پلک سنوار رہے ہوں گے تاہم آئندہ مذاکرات کے لئے پانچ ترجیحی نکات کو شامل کرناازحدضروری ہے ۔پاکستان کے مذاکراتی ایجنڈامیں کلیدی نکات اوردلائل میں تنازعہ کشمیربنیادی نقطہ ہوناچاہئے۔پاکستان کامضبوط قانونی مؤقف اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جن پرعملدرآمد کو ضروری بنایا جائے۔ڈائیلاگ ایجنڈا کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ مذاکرات کاآغاز صرف اسی صورت میں ہوجب بھارت کشمیر کی متنازع حیثیت تسلیم کرے،معاشی یا تجارتی موضوعات کوبعدمیں شامل کیاجائے۔اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کالائحہ عمل طے کیاجائے اورایل اوسی پرجنگ بندی کی مستقل نگرانی کامطالبہ کیاجائے اور خلاف ورزی کرنے والے کے احتساب کے لئے اصول وضع کئے جائیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے بھارت کو کے خلاف کے ساتھ چین کے کے لئے
پڑھیں:
بھارت چین پر ایپل کا انحصار کم کرنے میں معاون؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) امریکی ٹیک کمپنی ایپل نے اس ماہ کہا کہ بھارت امریکی مارکیٹ کے لیے آئی فونز بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ایپل کے سی ای او ٹم کُک نے چند روز قبل اپنی کمپنی کے تازہ ترین مالی نتائج کے اعلان کے ساتھ کہا تھا کہ امریکی میں فروخت ہونے والے زیادہ تر آئی فونز اسمبل کرنے والا ملک بھارت ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی میں فروخت ہونے والے تقریباً تمام آئی پیڈز، میک کمپیوٹرز، ایپل واچز اور ایئر پوڈز ویتنام میں تیار کیے جائیں گے۔
یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر عائد محصولات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا۔ ٹرمپ کے محصولات نے ایپل کی سپلائی چین، فروخت اور منافع کو بھی متاثر کیا ہے۔
(جاری ہے)
بھارت میں آئی فون کی پیداوار میں اضافے کے مواقع اور چیلنجزنیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی کی سینیئر ماہر اقتصادیات لیکھا چکرورتی کا کہنا ہے کہ ایپل کا بھارت میں پیداوار بڑھانے کا فیصلہ نہ صرف ایک بڑا موقع ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ ممکنہ چیلنجز بھی موجود ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک تفصیلی تجزیہ بتاتا ہے کہ ان چیلنجز میں چین کے مقابلے میں لاگت کی مسابقت، لیبر مارکیٹ کی سختیاں اور سپلائی چین کی کمزوریاں شامل ہیں۔
چکر ورتی نے مزید کہا کہ بھارت میں آئی فون بنانا چین کے مقابلے میں پانچ سے دس فیصد زیادہ مہنگا ہے کیونکہ پرزے مہنگے ہیں اور فیکٹریوں کی کارکردگی نسبتاً کمزور ہے، ''مزید یہ کہ اس سرمایہ کاری کے مالیاتی اثرات کا محتاط جائزہ لینا ضروری ہے، خاص طور پر ٹیکس محصولات، انفراسٹرکچرز میں سرمایہ کاری اور ممکنہ سبسڈیز کے حوالے سے۔
‘‘ بھارت میں آئی فونز کی پیداوار میں اضافہاندازہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت بھارت میں بننے والے آئی فونز کی تعداد 20 فیصد ہے۔ بلومبرگ کے مطابق ایپل نے مارچ 2025ء تک بھارت میں22 ارب ڈالر مالیت کے آئی فون تیار کیے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں60 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
امریکی کمپنی کا منصوبہ ہے کہ سن 2026 تک بھارت میں سالانہ 60 ملین سے زائد آئی فونز تیار کیے جائیں، جو موجودہ پیداوار کا دوگنا ہو گا اور بھارت کی الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ صنعت کو مضبوط بنائے گا۔
یہ تبدیلی ایپل کے لیے ایک بڑا فیصلہ ہے، جس نے ہمیشہ اپنی مصنوعات چین میں تیار کی ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے امریکی درآمدات پر عائد بھاری محصولات، خاص طور پر چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے دوران، اس کمپنی کے لیے مشکلات پیدا کر رہی تھیں اور اسے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
تاہم امریکی صدر نے ٹیکنالوجی مصنوعات، بشمول اسمارٹ فونز اور سیمی کنڈکٹرز کو محصولات سےعارضی طور پر استثنیٰ دے دیا ہے۔
اس سلسلے میں واشنگٹن اور بیجنگ نے بھی حال ہی میں نوے روزہ مفاہمت پر اتفاق کیا ہے۔
عاطف توقیر / مرلی کرشنن
ادارت: عاطف بلوچ