وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل چیف کی خدمت میں چند گزارشات
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اقوام کی زندگیوں میں ایسے مواقعہ بہت کم آتے ہیں جب وہ کٹھن امتحانات سے سرخرو ہو کر نکلتی ہیں تو اچانک انقلابی ترقی کی راہ پر فطری طور پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ انقلاب کا ایک مفہوم بھی یہی ہے کہ جس طرح سینے میں قلب الٹا لٹکا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح ’’انقلاب‘‘ بھی اقوام کی زندگیوں اور حالات کو الٹے رخ پر پھیرتا ہے۔ اگر کوئی قوم کم و بیش زندگی کے تمام شعبوں میں گرواٹ اور بدحالی کا شکار ہو تو یہ بدیہی تبدیلی ان سارے کے سارے شعبوں میں اچانک بہتری لانے لگتی ہے۔ جیسا کہ، ’’ہر کالے بادل میں ایک سلور لائن ہوتی ہے‘‘، اسی طرح انڈیا اور مودی جی کے آپریشن سندور نے کرپشن جیسے بدنام زمانہ ماحول میں ڈوبے ہوئے پاکستان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بطور قوم اپنی ’’ازسرنو تشکیل‘‘(Reconstruction) کے لئے اندھیرے حالات میں صرف امید کی موہوم کرنوں کو تلاش کرے۔ اس موڑ پر حالات پہلے ایک قوم کو اچھی طرح جھنجھوڑتے ہیں، تاکہ اس قوم کی اپنی حالت پر آنکھیں کھل جائیں، جس کے بعد وہ قوم حوصلہ باندھ کر اٹھ کھڑی ہو تو آنے والا ہر دن اس کے لئے کامیابی کی نوید لے کر ابھرتا ہے۔ جب 7مئی کو انڈیا نے بہاولپور سمیت پاکستان کے دیگر سات مختلف شہروں پر حملہ کیا تو پاکستان نے انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ سٹرٹیجک وار فیئر کے ساتھ 10مئی کو ’’معرکہ حق بنیان مرصوص‘‘ کے زریعے ہندوستان پر حملہ کیا جس نے نہ صرف بھارت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پاکستان کی جنگی مہارت اور ہوائی قوت نے پوری دنیا کے جنگی ماہرین کو بھی ششدر کر دیا کہ جس کے بعد انڈیا جنگ بندی (Cease Fire) کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
مئی 2025 ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے تک دنیا بھر میں پاکستان کا قومی تشخص ایک ’’مفلس اور نادار معاشی ریاست‘‘ جیسا تھا جس کا بال بال قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا، جس کے سیاست دان کرپٹ اور فوج سیاست میں ملوث ہونے کے لئے بدنام تھی۔ دنیا بھر کے دوست ممالک میں پاکستانی حکمران ’’کشکول‘‘ اٹھائے پھرتے تھے، جن کو اپنے بردار اور دوست اسلامی ممالک بھی طعنے دیتے تھے کہ خودداری پیدا کرو اور اپنے معاشی حالات کو خود بہتر بنائو یعنی پاکستان کو اس کے اپنے بھی قدر کی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا کہ انڈین جارحیت نے رات و رات پاکستانی وقت کے دھارے کو الٹا چلنے پر مجبور کر دیا۔
گزشتہ روز جب آرمی چیف حافظ عاصم منیر نے ’’فیلڈ مارشل‘‘ بننے پر آرمی ہاوس میں عشائیہ دیا تو میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کے لئے تیزترین ترقی کرنے اور معاشی بدلاو لانے کا اس سے اچھا اور نادر موقعہ پھر شائد ہی آ سکے۔ یہ عظیم ترین موقع، ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ (Now or Never) جیسا ہے۔پاکستان کی نہ صرف ایئرفورس نے ہندوستان کو چاروں شانوں چت کیا بلکہ پاکستان کے ’’سائبر اٹیک‘‘ نے پوری دنیا کے نشریاتی اداروں اور ماہرین کے کان کھڑے کر دیئے۔ پاکستان کے سائبر حملے نے جنگی حکمت عملیوں کے معیارات تک کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ پاک بھارت کی جنگ 2025 ء کو خاموش جنگی حکمت عملی کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا، جس کے ذریعے پاکستان نے بھارت کے خلاف یہ جنگ حیران کن طریقے سے بڑے اطمینان سے جیت لی اور 1971 ء کا حساب بھی آنا فانا چکتا کر دیا۔ طاقت اور ہتھیاروں کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ پاکستان نے بھارت کے استعمال میں آنے والے اسرائیلی ایڈوانسڈ ڈرونز اور فرانسیسی رافیل طیاروں کو اپنی جنگی مہارت سے دھول چٹا دی۔ اس سے قبل سائوتھ ایشیا میں سائبر وار کا استعمال نہیں کیا گیا تھا کہ جس طرح پاکستان نے انتہائی رازداری سے ایک بھی گولی چلائے بغیر سائبر حملہ کر کے بھارت کو شش و پنچ میں مبتلا کر دیا!
گلوبل سائبر انٹیلی جنس ریویو (GCIR) کے مطابق پاکستان نے بھارت کے 507 سے زیادہ حساس حیثیت کے حامل فوجی کارروائیاں کرنے والے ٹھکانوں کو جام کر دیا جس میں دفاع، اطلاعات و نشریات، الیکشن کمیشن سرورز، معاشیات کا ڈاٹا بیس، انٹیلی جنس کوآرڈینیشن گرڈز، انڈین سکاڈا سسٹمز، پانی کا نظام، صنعت اور زراعت وغیرہ کا نظام شامل ہیں۔ یہاں تک کہ منٹوں میں بھارت کے 70 فیصد حصے میں بجلی فیل ہو گئی جس سے 50 ملین سے زیادہ انڈین افراد متاثر ہوئے۔اس دوران انڈیا کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے لوک سبھا میں مطالبہ کیا کہ اس بات کی تحقیق ہونی چایئے کہ ہمارے سیکورٹی سسٹم اور فائر والز کو پاکستان کیسے توڑ کر بلا روک ٹوک دندناتا پھرتا رہا۔
مملکت خداداد پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، آرمی چیف آف سٹاف فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر اور باقی مقتدرہ کے لیئے یہ قابل فخر اور تاریخ ساز فتح ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے کہ اسے برقرار کیسے رکھنا ہے۔ اگر آج ہمارے یہ حکومتی اور مقتدری کارپرداز اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر زندگی کے ہر شعبے سے ’’کرپشن‘‘ کا خاتمہ کریں اور ان میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا آغاز کریں تو فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کو پاکستان کی تاریخ میں ’’سنہری دور‘‘ کا آغاز کرنے والوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے فیلڈ مارشل پاکستان نے پاکستان کی بھارت کے کر دیا کے لئے
پڑھیں:
بھارت سے واپس آئےعبداللہ کی کامیاب سرجری، منسا کا پہلے مرحلے کا علاج مکمل، والد فیلڈ مارشل کے مشکور
راولپنڈی:پہلگام واقعے کے بعد بھارت سے بغیر علاج کے زبردستی پاکستان بھیجے جانے والے 9 سالہ عبداللہ اور 7 سالہ منسا کی پہلی کامیاب سرجری ہوگئی، والد نے کہا کہ انڈیا سے مایوس ہوکر واپس آیا تھا مگر فیلڈ مارشل کی وجہ سے بچوں کو نئی زندگی مل گئی۔
اپنے ویڈیو پیغام میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے عبداللہ اور منسا کے والد شاہد احمد نے اے ایف آئی سی میں کامیاب سرجری پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا شکریہ ادا کیا۔
اے ایف آئی سی میں کامیاب سرجری کے بعد عبداللہ اور منسا کی زندگی میں نئی امید کی کرن جاگی ہے۔ دونوں بہن بھائیوں کا علاج بھارت میں جاری تھا، تاہم پاک بھارت کشیدگی کے باعث بھارتی حکومت نے دونوں بچوں کو واپس پاکستان بھیج دیا۔
اے ایف آئی سی عمارت اور سرجری کے بعد بچے عبداللہ اور منسا کے والد شاہد احمد نے اپنے خصوصی ویڈیو میں کہا کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے فوری نوٹس لیتے ہوئے بچوں کی سرجری کا بندوبست کیا، ورنہ میں بھارت سے واپسی کے مایوس ہوگیا تھا۔
والد شاہد احمد نے کہا کہ ’’عبداللہ اور منسا کے کیس کا فیلڈ مارشل عاصم منیر نے فوری نوٹس لیا اور اے ایف آئی سی نے سرجری کی، جو 9 سال سے نہیں ہو رہی تھی۔"
شاہد احمد نے مزید کہا کہ اے ایف آئی سی کے ڈاکٹروں نے محنت اور مہارت سے سرجری کو کامیاب بنایا اور اب دونوں بچے بہتر حالت میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’الحمدللہ، میرے بچے اب کافی بہتر ہیں، میں خود بھی مریض ہوں، شاید صدمہ برداشت نہ کر پاتا۔ ڈاکٹروں نے بہت محنت کی جو قابل تعریف ہے۔ اے ایف آئی سی بہترین ادارہ ہے۔‘‘
دوسری جانب کمانڈنٹ اے ایف آئی سی میجر جنرل (ر) ڈاکٹر نصیر احمد سومرو نے کہا کہ اے ایف آئی سی پاکستان کا پریمیئر کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ ہے اور یہاں کارڈیالوجی کی بہترین سروسز فراہم کی جاتی ہیں۔
میجر ڈاکٹر نصیر احمد سومرو نے کہا کہ ’’فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی خصوصی ہدایات پر بچوں کا علاج یہاں کیا گیا، اور اللہ نے ہمیں کامیابی دی۔‘‘
ڈپٹی کمانڈنٹ بریگیڈیئر ڈاکٹر خرم اختر نے بتایا کہ عبداللہ اور منسا کو پیچیدہ دل کی بیماری تھی، جس کے باعث سرجری ایک مرحلے میں ممکن نہیں تھی۔
بریگیڈیئر ڈاکٹر خرم اختر نے کہا کہ ’’عبداللہ کی سرجری پانچ سے چھ گھنٹے پر محیط تھی جو کامیاب رہی۔ ہمارے پاس قابل ٹیم ہے جو بین الاقوامی تربیت یافتہ ہے۔‘‘
کرنل ڈاکٹر داؤد کمال نے کہا کہ بچوں کو دیا گیا علاج بھارت کے پلان سے کہیں بہتر تھا اور اب دونوں بچے بہتر حالت میں گھر جانے کے قابل ہیں۔
کرنل ڈاکٹر داؤد کمال نے کہا کہ ’’الحمدللہ دونوں بچے بہتر ہیں اور گھر جانے کی پوزیشن میں ہیں۔" میڈیکل ٹیم نے بچوں کی پیچیدہ کیسز کو کامیابی سے مکمل کیا، اور والد نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور اے ایف آئی سی کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔