بھارت کی مکاری، پاکستان کی بہادری
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
بھارت کی چالوں اور مکاریوں کا قصہ بہت پرانا ہے لیکن پاکستان کی بہادری اور غیرت کی داستان ہر دور میں نئی لکھی جاتی ہے۔ جب سے ہندوستان نے اپنی ہٹ دھرمی اور جھوٹ کے پلندوں سے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، تب سے پاکستان نے اپنی جرأت، حکمت عملی، اور ایمان کی طاقت سے اسے ہر محاذ پر منہ کی کھلائی۔ آج ہم بات کریں گے بھارت کی ان سازشوں کی، جو وہ پاکستان کے خلاف بنتا رہتا ہے، اور پاکستان کی اس بہادری کی، جو ہر بار دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دیتی ہے۔
فیٹف گرے لسٹ: بھارت کی سازش کا جھوٹا جالبھارت نے ایک بار پھر اپنی سفارتی چالوں سے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں دھکیلنے کی سازش رچائی۔ اس کی وزارت خارجہ نے کھلم کھلا کہا کہ وہ پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے، لیکن کیا یہ کوئی نئی بات ہے؟ بھارت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ جھوٹ اور پروپیگنڈے سے عالمی اداروں کو گمراہ کرے۔ مگر پاکستان نے ہر بار ثابت کیا کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت کے خلاف مضبوط اقدامات اٹھاتا ہے۔ سنہ 2022 میں فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا تھا، کیونکہ پاکستان نے 35 سفارشات پر بہترین عمل درآمد کیا۔ لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی پھر بھی کم نہ ہوئی۔
بھارت اپنے 7 وفود کو دنیا بھر میں بھیج کر اپنی ڈوبتی سفارت کاری کو سہارا دینا چاہتا ہے۔ یہ وفود عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن دنیا اب بھارت کے جھوٹ کو سمجھنے لگی ہے۔ پاکستان نے بھی اپنا سفارتی وفد، بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں، لندن، واشنگٹن اور برسلز بھیجا ہے تاکہ بھارت کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا جائے۔ یہ سفارتی جنگ پاکستان کی سچائی اور بھارت کی مکاری کو عیاں کرتی ہے۔
بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔ 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں ہونے والے حملے کو بھارت نے پاکستان سے جوڑا، بغیر کسی ثبوت کے۔ اس کے بعد 7 مئی 2025 کو بھارت نے ’آپریشن سندور‘ کے نام سے پاکستان پر میزائل حملے کیے، دعویٰ کیا کہ وہ دہشتگردوں کے اڈوں کو نشانہ بنا رہا ہے، مگر پاکستان نے بتایا کہ یہ حملے شہری علاقوں اور مساجد پر ہوئے۔ پاکستان نے نہ صرف اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، بلکہ آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کے تحت بھارت کے 26 اہداف کو نشانہ بنایا، جس سے بھارت کی چیخیں نکل گئیں۔
پاکستان کی جدید تکنیکی صلاحیتوں، جیسے کہ جے-10 سی طیاروں نے بھارتی رافیل کو پسپا کر دیا۔ عالمی ماہرین نے بھی پاکستان کی اس کامیابی کو غیر معمولی قرار دیا۔ بھارت نے سوچا تھا کہ وہ جھوٹ اور طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کو دبا لے گا لیکن پاک فوج کی تیاری اور قوم کی حمایت نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
افغانستان میں فوجی اڈہ اور دہشتگردی کی سرپرستیبھارت کی مکاری صرف سرحدوں تک محدود نہیں۔ وہ افغانستان میں فوجی اڈہ بنا کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ کالعدم تنظیموں جیسے کہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کو مالی اور عسکری امداد فراہم کر کے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ خضدار میں سکول بس پر حملہ اسی بھارتی سازش کا نتیجہ تھا، جسے پاکستانی قوم اور فوج کبھی نہیں بھولے گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بین الاقوامی میڈیا کو ثبوت پیش کیے کہ بھارت ان دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ایک بھارتی ایجنسی کے افسر کی فون کال نے بھی اس سازش کو بے نقاب کیا۔
پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 83،000 سے زائد جانیں قربان کی ہیں۔ یہ قربانیاں پاکستانی قوم کے عزم اور فوج کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب بھارت نے 6 اور 7 مئی کی رات 80 سے زائد جہازوں کے ساتھ حملہ کیا، پاک فوج نے نہ صرف اسے ناکام کیا، بلکہ بھارتی اثاثوں کو تباہ کر کے دشمن کو سبق سکھایا۔ پاکستانی شاہینوں نے ثابت کیا کہ وہ ہر مشکل حالات میں اپنی سرزمین کا دفاع کر سکتے ہیں۔
بھارت جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے میڈیا اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس جعلی ویڈیوز اور پرانی تصاویر کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سچائی اور شفافیت نے ہر بار بھارت کے جھوٹ کو بے نقاب کیا۔ پاکستانی قوم اور اس کی فوج نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی بھارت کو شکست دیتی ہے۔
بھارت کی ہر چال، ہر سازش، اور ہر حملہ پاکستان کی غیرت اور بہادری کے سامنے ناکام ہوا۔ پاکستانی قوم اور فوج نے ہر بار ثابت کیا کہ وہ اپنی سرزمین، عزت، اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گی۔ بھارت کی مکاری کو بے نقاب کرنے کے لیے پاکستان عالمی سطح پر اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہے، اور فیٹف جیسے اداروں میں بھارت کے خلاف مضبوط کیس تیار کر رہا ہے۔
پاکستان ہمیشہ زندہ باد
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آپریشن بنیان مرصوص بھارت پاک بھارت کشیدگی پاکستان بھارت کی مکاری پاکستانی قوم پاکستان کو پاکستان کی پاکستان نے سے پاکستان کو بے نقاب کر رہا ہے کیا کہ وہ بھارت نے کو گمراہ بھارت کے کے خلاف کی کوشش
پڑھیں:
اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز
پنجاب میں اس وقت اسموگ کا راج ہے۔ لاہور فیصل آباد دنیا میں آلودہ ترین شہروں میں شمار کیے جا رہے ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے لوگ بیمارہیں۔ سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ لیکن ایسا کوئی پہلے سال نہیں ہوا ہے۔ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے۔ ہر سال ہی اسموگ کا راج ہوتا ہے۔ ہر سال ہی ہم اسموگ پر شور مچاتے ہیں۔ اسموگ کی وجوہات کا بھی سب کو علم ہیں۔
سب کو پتہ ہے ایک بڑی وجہ بھارتی پنجاب سے آنے والی ہوائیں ہیں۔ بھارت میں بھی اسموگ کا مسئلہ ہے۔ بھارت کا دارالخلافہ دہلی کا بھی برا حال ہے، وہاں بھی اسموگ نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے، پورے خطہ کا مسئلہ ہے۔ ہم مل کر ہی اس کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسے تعلقات ہی نہیں ہیں کہ ماحولیات پر تعاون ہو سکے۔ مل کر کوئی پالیسیاں بنائی جا سکیں، ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھا جا سکے۔ اس لیے مشترکہ پالیسی اور حل تلاش کرنے کی کوئی صورتحال نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے اسموگ سے نبٹنے کے لیے ایک سال میں کافی کام کیے ہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کسان فصلوں کی باقیات جلاتے تھے، ان کو روکنے کے لیے جدید مشینیں دی جا رہی ہیں۔ لیکن کسانوں کو جلانے کی پرانی عادت ہے، ابھی بھی اس کو مکمل روک نہیں سکے ہیں۔ صنعتوں پر ماحولیات کا سخت نفاذ کیا جا رہا ہے۔ لیکن آپ کہیں سب ٹھیک ہوگیا ہے، غلط ہوگا۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہر آج بھی دنیا کے آلودہ ترین شہر ہیں۔ اسموگ کا راج ہے۔ اسموگ سے نبٹنا کوئی اتنا آسان نہیں۔ اس سے پہلے لندن اور بیجنگ جیسے بڑے شہر بھی اسموگ کا شکار رہے ہیں۔
لندن اور بیجنگ اسموگ بہت مشہور رہی ہیں۔ آج وہاں صورتحال بہتر نظر آرہی ہے۔ لیکن دس سال سے زیادہ عرصہ لگا ہے صورتحال کو تبدیل کرنے میں۔ پنجاب میں بھی اگر یکسوئی سے کام کیا جائے تو دس سال لگ جائیں گے۔ لیکن یکسوئی بنیادی شرط ہے۔ پالیسیوں کا تسلسل بنیادی شرط ہے۔ یہاں حکومت بدلتی ہے تو ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ پالیسیاں بدل جاتی ہیں، جس سے اسموگ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔بہرحال آج کل اسموگ کا راج ہے ۔ پنجاب حکومت نے لاہور میں اسموگ کا زور کم کرنے کے لیے اینٹی اسموگ گن درآمد کی ہیں۔
لاہو رکی سڑکوں پر اینٹی اسموگ گن چلتی نظر آرہی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں اسموگ رہی ہے وہاں یہ اینٹی اسموگ گن استعمال کی گئی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ اسموگ کو مستقل ختم نہیں کرتیں۔ لیکن جس علاقہ میں اس کو استعمال کیا جائے وہاں اس کا اثر ہوتا ہے۔ یہ اسموگ کا مکمل علاج نہیں ہیں لیکن فوری ریلیف ضروری دیتی ہیں۔ جیسے درد کم کرتی ہیں لیکن بیماری کا علاج نہیں ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں جب تک ہم اسموگ کو ختم کرنے کے دیرپا حل مکمل نہیں کر لیتے اس درمیانے عرصے کے لیے اینٹی اسموگ گنز ایک بہترین آپشن ہیں۔
ایک تنقید یہ سامنے آرہی ہے کہ اس کا اثر محدود ہے۔ لیکن یہ تو کوئی نہیں کہہ رہا کہ اس کا کوئی اثر نہیں۔ ویسے تجرباتی طور پر لاہور میں صرف پندرہ اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں۔ یہ لاہور کے لیے بہت کم ہیں۔ لاہور بہت بڑا شہر ہے یہ سارے لاہور کو کور ہی نہیں کر سکتیں۔ جس سڑک پر استعمال کی جاتی ہے صرف وہیں اثر ہوتا ہے۔ مزید گاڑیاں ہونی چاہیے تا کہ ان کے صحیح اثرات لوگوں کے سامنے آسکیں۔ کم تعداد اس پر تنقید کرنے والوں کو دلیل دے رہی ہے۔ جب اینٹی اسموگ گن کی تعداد بڑھ جائے گی تو نتائج بھی بہتر سامنے آئیں گے، تنقید بھی ختم ہو جائے گی۔
اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں اس اینٹی اسموگ گن کا استعمال کیا گیا ہے وہاں اسموگ میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن یہ جس علاقہ میں استعمال کی جائے وہیں کمی ہوتی ہے۔ سارے لاہور کو یک دم کم نہیں کر سکتی۔ کئی علاقوں میں چالیس فیصد تک کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ اس لیے میں اس تجرنے کو ناکام نہیں کہہ رہا ہے۔ میں اس کو جاری رکھنے اور ان کی تعداد بڑھانے کے حق میں ہوں۔ سارے شہروں میں یکساں استعمال کی جائیں گی تو عمومی فرق بھی سامنے آئے گا۔ آپ ماحولیات کے جزیرے نہیں بنا سکتے۔ ایک علاقہ میں بہتر کر لیں ساتھ والے علاقہ کو رہنے دیں، یکساں استعمال ہی بہتر نتائج دے گا۔
سادہ سی بات ہے، ہم کہتے ہیں کہ اگر بارش ہو جائے تو اسموگ ختم ہو جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے نگران دور میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے متحدہ عرب امارات سے مصنوعی بارش برسانے کے لیے جہاز بھی منگوایا تھا۔ وہ دو تین دن مصنوعی بارش کر کے چلا گیا۔ وہ بہت مہنگا تھا۔ اتنی مہنگی مصنوعی بارش ممکن نہیں۔ پھرایک جہاز کافی نہیں۔ چند دن کافی نہیں۔ سارے شہروں میں کیسے کی جائے۔ یہ اینٹی اسموگ گن بھی ایک طرح سے مصنوعی بارش کی ہی ایک شکل ہے۔ پانی فضا میں ایک گن سے پھینکا جاتا ہے جو فضا میں جاکر اسموگ کو ختم کرتا ہے۔ ابھی جو اینٹی اسموگ گن منگوائی گئی ہیں، ان کی رینج 120میٹر ہے۔ جو اسموگ کے ختم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
بیجنگ میں اور دہلی میں بھی یہی استعمال ہوتی رہی ہیں، بین الاقوامی معیار یہی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں حکومت کوئی بھی کام کرے تواس پر تنقید کرنا سب سے آسان کام ہے۔ حکومت کوئی کام کرے تو اس پر تنقید کریں، اگر کوئی کام نہ کرے تو پھر اور تنقید کریں۔ کئی سالوں سے اسموگ کا شکار پنجاب لانگ ٹرم پالیسیاں تو بنا رہا ہے، ان کے نتائج بھی وقت سے آئیں گے۔ ہمسایوں کے بھی مسائل ہیں۔ لیکن فوری حل بھی کرنا حکومت کا کام ہے۔ کئی سالوں سے کوئی فوری حل نہیں تھا۔ ہم خاموش بیٹھے تھے۔
آج ایک حل سامنے آیا ہے تو دوست اس پر بے وجہ تنقید کر رہے ہیں۔ جب تک حکومت کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے، کام آگے کیسے بڑھے گا۔ اگر کسی کے پاس کوئی متبادل حل ہے تو بتائیں۔ اس پر بات ہو جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب خصوصی داد کی مستحق ہیں کہ کم از کم کوئی تو حل سامنے لائی ہیں۔ بہر حال اسموگ کا راج ہے اور فی الحال فوری حل اینٹی اسموگ گن ہی ہیں۔ اس پر تنقید کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ یہ مزید منگوائی جائیں تا کہ ان کا اثر کھل کر سامنے آسکے اور تنقید نگاروں کی تنقید ختم ہو سکے۔ ڈر کر اس منصوبے کو ختم کرنا بزدلی ہوگی اور مجھے پتہ ہے پنجاب حکومت بزدل نہیں ہے۔