Islam Times:
2025-09-18@16:15:01 GMT

بین الاقوامی ناکامی

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

بین الاقوامی ناکامی

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر ان ناکامیوں کے ساتھ ساتھ، ڈونلڈ ٹرمپ اندرون خانہ سیاست میں بھی سنگین بحرانوں سے روبرو ہے۔ اس نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر کو اختلافات کے عروج پر برطرف کر دیا، امریکہ کی اقتصادی اور میڈیا طاقت کی علامت تصور کیے جانے والے شخص یعنی ایلن ماسک سے تعلقات کی جگہ تلخ کلامی اور ایکدوسرے کے راز فاش کرنے نے لے لی اور اب ٹرمپ کو کیلی فورنیا سمیت کئی ریاستوں میں تارکین وطن کے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا ہے۔ تارکین وطن کا ایشو، جسے کبھی ٹرمپ اپنی صدارتی مہم میں اپنے حق میں استعمال کرتا تھا، اب اس کی نسل پرستانہ اور دھوکہ دہی پر مبنی امیگریشن پالیسیوں کے باعث سماجی ناراضگی کی علامت بن چکا ہے۔ سڑکوں کے مناظر اور پولیس گردی ایک بے بس امریکہ کی تصویر کشی کر رہے ہیں جو اب مزید دنیا میں جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ یاسر فرخ پارسا
 
1)۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو "عالمی بحرانوں کے فوری حل" کے نعرے سے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا تھا، اب اسے ایسے مسائل کا سامنا ہے جو نہ صرف حل نہیں ہوئے بلکہ خارجہ پالیسی میں اس کی اسٹریٹجک کمزوریاں بن چکے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ دعوی کہ وہ "یوکرین میں جنگ کو ایک دن میں ختم کر سکتا ہے" کئی بار دہرایا گیا، لیکن آخرکار اس نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ یہ جملہ محض ایک مذاق تھا اور اس کا مطلب "فیصلہ سازی کی رفتار میں اضافہ کرنا" تھا۔ ٹرمپ کے موقف میں یہ تبدیلی نہ صرف حکمت عملی میں تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ امریکہ کے اندرونی سیاسی، سیکورٹی اور میڈیا حلقوں کی جانب سے ٹرمپ پر بہت زیادہ دباؤ کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ مزید برآں، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ جیسی متنازع شخصیت بھی اسٹریٹجک ناکامیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
 
2)۔ یوکرین کے مسئلے میں شکست واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کیف کی حمایت منقطع کرنے کے وعدے نہ صرف جنگ ختم ہونے کا باعث نہیں بنے بلکہ ان کی وجہ سے امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ "طاقت کے بدلے امن" نامی ٹرمپ کے منصوبے کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا گیا اور بدلے میں روس، جنگ کو لمبا کر کے میدان جنگ میں طاقت کا توازن اپنے حق میں تبیل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دریں اثنا، غزہ کے مسئلے نے بھی امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ کے امیج کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اپنی پہلی مدت صدارت میں ٹرمپ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت، اب غزہ میں صیہونی رژیم کے نامحدود مجرمانہ اقدامات سے بھی جڑ گئی ہے۔ ایسے مجرمانہ اقدامات جنہیں حتی امریکی میڈیا بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
 
3)۔ ٹرمپ، جو اپنی دوسری مدت صدارت کے دوران غاصب صیہونی رژیم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے یمن کو مکمل طور پر امریکہ کا مطیع بنانے کی کوشش میں مصروف تھا، اب اس کی حالت یہ ہے کہ وہ خطے میں طاقت کی نئی حقیقت قبول کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یمن پر امریکی فضائی حملوں کی ناکامی اور انصار اللہ کے ٹھکانوں پر ان حملوں کے بے اثر ہونے کے بعد نہ صرف ٹرمپ کا فوجی منصوبہ بری طرح ناکام ہو گیا بلکہ امریکہ غیر اعلانیہ طور پر یہ بات قبول کرنے پر بھی مجبور ہو چکا ہے کہ بحیرہ احمر میں اپنی جہاز رانی کے راستوں کی سیکورٹی کے لیے اسے صیہونی رژیم کی سلامتی کو نظرانداز کرتے ہوئے انصار اللہ یمن کی رضامندی حاصل کرنی پڑے گی اور حتی ریاض اور ابوظہبی میں اپنی اتحادی حکومتوں کی رائے سے بھی چشم پوشی اختیار کرنا ہو گی۔ یہ حقیقت بحیرہ احمر میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 
4)۔ اگرچہ ایران کے مسئلے میں ابھی ٹرمپ کو یقینی شکست نہیں ہوئی لیکن موجودہ حالات اور ٹرمپ کے طرز عمل سے پالیسی سازی میں تعطل کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ ایران میں یورینیم افزودگی کے مکمل خاتمے پر مبنی ٹرمپ کے حد سے زیادہ نامعقول مطالبے نیز زبانی دھمکیوں نے عملی طور پر کسی بھی طرح کے منطقی مذاکرات کا راستہ روک دیا ہے۔ ٹرمپ نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کا ماحول بنا کر تہران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی لیکن ایران نے اپنی اندرونی طاقت، علاقائی اثر و رسوخ اور مقامی جوہری صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ وہ کمزور پوزیشن میں مذاکرات قبول نہیں کرے گا۔ اگر ٹرمپ نے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی نہیں کی تو ایران کے مسئلے میں شکست بھی اس کی ناکامیوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گی۔
 
5)۔ عالمی سطح پر ان ناکامیوں کے ساتھ ساتھ، ڈونلڈ ٹرمپ اندرون خانہ سیاست میں بھی سنگین بحرانوں سے روبرو ہے۔ اس نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر کو اختلافات کے عروج پر برطرف کر دیا، امریکہ کی اقتصادی اور میڈیا طاقت کی علامت تصور کیے جانے والے شخص یعنی ایلن ماسک سے تعلقات کی جگہ تلخ کلامی اور ایکدوسرے کے راز فاش کرنے نے لے لی اور اب ٹرمپ کو کیلی فورنیا سمیت کئی ریاستوں میں تارکین وطن کے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا ہے۔ تارکین وطن کا ایشو، جسے کبھی ٹرمپ اپنی صدارتی مہم  میں اپنے حق میں استعمال کرتا تھا، اب اس کی نسل پرستانہ اور دھوکہ دہی پر مبنی امیگریشن پالیسیوں کے باعث سماجی ناراضگی کی علامت بن چکا ہے۔ سڑکوں کے مناظر اور پولیس گردی ایک بے بس امریکہ کی تصویر کشی کر رہے ہیں جو اب مزید دنیا میں جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
 
6)۔ ایسے حالات میں ٹرمپ نے خارجہ تعلقات کی بحالی یا خارجہ پالیسی کی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرنے کے بجائے آگے بھاگ کر اندرونی بحران پیدا کرنے کا سہارا لیا ہے۔ تارکین وطن پر حد سے زیادہ توجہ، اپنے میڈیا کارکنوں کے خلاف دھمکی آمیز بیانات اور نرم خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا وہ حربے ہیں جو ٹرمپ استعمال کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی ایشوز میں شدید ناکامی کا براہ راست نتیجہ اندرونی تشدد کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اب ٹرمپ دنیا میں ایک طاقتور امیج پیش کر کے اپنے حامیوں کو قائل نہیں کر سکتا لہذا وہ گھر میں دشمن تراشی کر کے اپنا سیاسی وقار بحال کرنے کے درپے ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اب ماضی کی تاثیر نہیں رہی۔ نہ ڈیٹرنس پاور، نہ بین الاقوامی اتفاق رائے پیدا کرنے کی طاقت اور نہ ہی علاقائی اتحادیوں کو سنبھالنے کی صلاحیت۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نہیں کر سکتا صیہونی رژیم تارکین وطن ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی کے مسئلے کی علامت ٹرمپ کے چکا ہے

پڑھیں:

امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) ایک اہم پیش رفت میں امریکی قانون سازوں نے "پاکستان فریڈم اینڈ احتساب ایکٹ" کے نام سے ایک بل کو ایوان میں متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے ذمہ دار پاکستانی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔

اس بل کی حمایت ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے قانون ساز مشترکہ طور پر کر رہے ہیں، جس کا اعلان ایوان کی ذیلی کمیٹی برائے جنوبی اور وسطی ایشیا کے چیئرمین اور مشی گن سے ریپبلکن پارٹی کے قانون ساز بل ہیزینگا اور کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹ رہنما سڈنی کاملاگر-ڈوو نے مشترکہ پر کیا ہے۔

ایوان کے کئی دیگر نمائندوں نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

(جاری ہے)

فریڈم اینڈ اکاؤنٹیبلٹی بل گلوبل میگنیٹسکی ہیومن رائٹس احتساب ایکٹ کے تحت امریکی صدر کو پابندیاں لگانے کا اختیار دیتا ہے۔ اس کے تحت واشنگٹن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں یا بدعنوانی کے ذمہ دار افراد کو نشانہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس بل کا اطلاق پاکستان کی حکومت، فوج یا سکیورٹی فورسز کے موجودہ اور سابق اعلیٰ عہدیداروں پر ہو گا۔

یہ قانون پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے امریکی حمایت کی بھی تصدیق کرتا ہے اور جمہوری اداروں اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔

اس سے قبل جون 2024 میں انہیں امور کے حوالے سے ایوان نے ایک قرارداد 901 بھی منظور کی تھی، جس میں اس وقت کے صدر جو بائیڈن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔

تاہم بائیڈن انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اور اب اس سلسلے میں یہ بل متعارف کروایا گیا ہے۔

اس قرارداد میں پاکستان میں جمہوریت کی مضبوط حمایت کا اظہار کیا گیا تھا اور امریکی انتظامیہ پر زور دیا گیا کہ وہ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور آزادی اظہار کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کے ساتھ تعاون کرے۔

بل میں کیا ہے؟

نئی قانون سازی پر بات کرتے ہوئے کانگریس کے نمائندے ہوزینگا نے کہا، "امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا، کیونکہ ایسے افراد جو اس وقت پاکستان کی حکومت، فوج، یا سکیورٹی فورسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں یا پہلے خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں یا اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔

"

ان کا مزید کہنا تھا، "پاکستان فریڈم اینڈ احتساب ایکٹ پاکستان کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ برے عناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان میں نہ تو جمہوری عمل اور نہ ہی آزادی اظہار کو ختم کیا جائے گا۔"

کملاگر ڈوو نے زور دیا کہ "جمہوریت کو فروغ دینا اور انسانی حقوق کا تحفظ امریکی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں اور امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں اس پہلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔

"

ان کا مزید کہنا تھا، "جمہوری پسماندگی اور عالمی بدامنی کے وقت، امریکہ کو اندرون اور بیرون ملک ان اقدار کا دفاع کرنا چاہیے، اور ان کو نقصان پہنچانے والوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ مجھے پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو خطرے میں ڈالنے والوں کو سزا دینے کے لیے قانون سازی متعارف کرانے میں چیئر ہوزینگا کے ساتھ شامل ہونے پر فخر ہے۔

"

ٹیکساس سے ڈیموکریٹ رہنما جولی جانسن نے مزید کہا، "آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو نقصان پہنچانے یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرا کر، ہم ایک مضبوط پیغام دیتے ہیں: جمہوریت پر حملہ کرنے والوں کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ عالمی سطح پر معافی نہیں پائیں گے۔"

پاکستانی امریکن کا اس بل میں اہم کردار

امریکہ میں مقیم پاکستانی پبلک افیئرز کمیٹی کے سابق صدر اسد ملک کا کہنا ہے کہ "یہ قانون سازی پاکستانی عوام کو بااختیار بناتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوریت کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کیا جائے گا اور انہیں مناسب نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

"

فرسٹ پاکستان گلوبل کے ڈاکٹر ملک عثمان نے تارکین وطن کی کاوشوں کے وسیع تر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "یہ پاکستانی تارکین وطن کی کانگریس میں انتھک وکالت اور ہماری کمیونٹیز میں نچلی سطح پر متحرک ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ تاریخی بل حقیقی آزادی اور پاکستانی جمہوریت کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے ساتھ، حقوق کی آزادی کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔"

بل کو ایوان کی خارجہ امور اور عدلیہ کی دونوں کمیٹیوں کو نظرثانی کے لیے بھیجا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر برطانوی وزیراعظم سے متفق نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ارشد ندیم میڈل حاصل کرنے میں ناکام، ’کوشش کرکے ہار جانے پر ہم دکھی نہیں‘
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)