امریکا نے حماس کی جنگ بندی پر رضامندی کا دعویٰ مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
واشنگٹن: امریکہ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے اُس دعوے کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ تنظیم نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق امریکی تجویز کو قبول کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حماس کے ایک ذریعے نے دعویٰ کیا کہ گروپ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کی گئی نئی تجویز کو قبول کر لیا ہے، جو انہیں ثالثوں کے ذریعے موصول ہوئی۔
تاہم امریکی نیوز ویب سائٹ Axios کے مطابق، اسٹیو وٹکوف کے ترجمان نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے۔
رپورٹر باراک راویڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر بتایا کہ "وائٹ ہاؤس کے ایلچی اسٹیو وٹکوف حماس کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں" کہ گروپ نے ان کی مجوزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی تجویز قبول کی ہے۔
اسٹیو وٹکوف کے بقول: "جو کچھ میں نے حماس کی جانب سے دیکھا، وہ مایوس کن اور مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہے۔"
ترجمان نے تصدیق کی کہ "Axios کا ٹویٹ درست ہے"۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں شدید انسانی بحران اور جنگ بندی کی عالمی اپیلوں کا سلسلہ جاری ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی صدر ٹرمپ نے نیو یارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معروف اخبار نیو یارک ٹائمز اور اس کے چار رپورٹرز کے خلاف 15 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
ٹرمپ نے مؤقف اختیار کیا کہ نیویارک ٹائمز نے برسوں سے جانبدار اور من گھڑت رپورٹنگ کے ذریعے ان کی شہرت، انتخابی مہم اور کاروباری ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ ان کی قانونی ٹیم نے یہ مقدمہ فیڈرل کورٹ، مڈل ڈسٹرکٹ آف فلوریڈا میں دائر کیا ہے۔
مقدمے میں تین تحقیقی مضامین اور ایک کتاب کو بنیاد بنایا گیا ہے جو انتخابی مہم کے دوران شائع ہوئیں۔ اس کے ساتھ اخبار کے ایڈیٹوریل بورڈ کی جانب سے ڈیموکریٹ امیدوار اور موجودہ نائب صدر کاملا ہیرس کی حمایت کو بھی دعوے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ٹرمپ نے الزام لگایا کہ اخبار نے ان کے خاندان، کاروباری سرگرمیوں اور "امریکا فرسٹ" تحریک کو غلط انداز میں پیش کیا، جس کے باعث انہیں قانونی مسائل اور انتخابی عمل میں نقصان اٹھانا پڑا۔
دوسری جانب نیو یارک ٹائمز نے مقدمے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام آزادیٔ صحافت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ان کی رپورٹنگ شواہد پر مبنی اور عوامی مفاد میں تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر ٹرمپ کا دعویٰ کامیاب ہو گیا تو امریکی میڈیا پر بڑے پیمانے پر قانونی اور مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے جو آزادیٔ صحافت کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا۔