حماس کا غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پر اتفاق، اسرائیل کا انکار
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
ایک فلسطینی عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز پر اتفاق کیا ہے، تاہم اسرائیلی حکام نے اس تجویز کو واشنگٹن کی قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی اسرائیلی حکومت اسے قبول نہیں کر سکتی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسٹیو وٹکوف نے بھی اسے مسترد کر دیا کہ حماس نے غزہ میں یرغمالیوں کے معاہدے اور جنگ بندی کے لیے ان کی پیشکش کو قبول کر لیا، ان کا کہنا تھاکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے اور یہ ان کی پیش کردہ تجویز سے مختلف ہے۔
حماس کے قریب فلسطینی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ حماس کو ثالثوں کے ذریعے موصول پیشکش میں 10 یرغمالیوں کی رہائی اور 70 روزہ جنگ بندی شامل ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس تجویز میں 70 دن کی جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے جزوی انخلا کے بدلے میں 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔
اس میں اسرائیل کی طرف سے متعدد فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے، جن میں سیکڑوں طویل قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ذمہ دار حکومت اس طرح کے معاہدے کو قبول نہیں کر سکتی اور اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ معاہدہ اسٹیو وٹکوف کی تجویز کردہ پیش کش سے مماثلت رکھا ہے۔
بعد ازاں، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پر ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ انہیں ’بہت امید ہے‘ کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی لڑائی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے آج پیش رفت ہوگی اور اگر آج نہیں تو کل ہوگی۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے فوری طور پر ویڈیو کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ 18 مارچ کو اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنوری کے جنگ بندی کے معاہدے کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا تھا اور غزہ میں حملے شروع کر دیے تھے۔
حماس نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ سے مکمل طور پر انخلا کرتا ہے اور مستقل جنگ بندی پر راضی ہوتا ہے تو وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے صرف عارضی جنگ بندی پر راضی ہو گا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ جنگ صرف حماس کے خاتمے کے بعد ہی ختم ہو سکتی ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 54 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ساحلی پٹی کو تباہ کر دیا گیا ہے، امدادی گروپوں کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: یرغمالیوں کی رہائی کہ حماس حماس کے کہا کہ کر دیا
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی مذاکرات میں ڈرامائی پیشرفت ہوئی ہے، غیر ملکی میڈیا کا دعویٰ
اطلاعات کے مطابق، امریکہ نے حماس کو اس بات کی ضمانت کی پیشکش کی ہے کہ جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات واقعی ہوں گے، اور یہ کہ اسرائیل پوری متفقہ مدت کے دوران جنگ بندی کی پابندی کرے گا، جو کہ ممکنہ طور پر 45 سے 60 دن کے درمیان ہو سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے جاری مذاکرات میں ڈرامائی پیشرفت ہوئی ہے، غیر ملکی اور اسرائیلی ذرائع نے آج (بدھ) کو "کان نیوز" کو تصدیق کی کہ آئندہ چند دن ایک ممکنہ معاہدے کے حوالے سے نہایت اہم ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، امریکہ نے حماس کو اس بات کی ضمانت کی پیشکش کی ہے کہ جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات واقعی ہوں گے، اور یہ کہ اسرائیل پوری متفقہ مدت کے دوران جنگ بندی کی پابندی کرے گا، جو کہ ممکنہ طور پر 45 سے 60 دن کے درمیان ہو سکتی ہے۔اسرائیل نے امریکی ضمانت کی مخالفت نہیں کی، لیکن معاہدے کو اس شرط سے مشروط کیا ہے کہ حماس جنگ بندی کے پہلے ہفتے میں کم از کم دس زندہ یرغمالیوں کو رہا کرے، اور بعد میں مردہ یرغمالیوں کی واپسی بھی عمل میں لائی جائے۔ تاہم، یروشلم میں حکام اس بات کے خلاف ہیں کہ امریکہ جنگ کے مکمل خاتمے کی ضمانت دے۔
غیر ملکی ذرائع نے کہا کہ اگر اسرائیل جنگ کے خاتمے کے معاملے میں لچک دکھائے تو معاہدہ کل ہی طے پا سکتا ہے۔ اسرائیلی ذرائع اور دیگر متعلقہ فریقین نے زور دیا کہ یہ ایک اہم پیشرفت ہے مگر حتمی بریک تھرو نہیں۔ ادھر فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ حماس نے تاحال امریکی ثالث اسٹیو وِٹکوف کے ساتھ کسی فریم ورک معاہدے پر دستخط نہیں کیے، اور ان کا اندازہ ہے کہ امریکی ایلچی آئندہ دنوں میں ایک نئی تجویز پیش کریں گے۔ ایک ایسا خاکہ جو ممکنہ طور پر تبدیل ہو سکتا ہے، خاص طور پر مستقل جنگ بندی کے معاملے میں، جو کہ حماس کی جانب سے ایک کلیدی شرط ہے۔ حماس نے آج اعلان کیا کہ اس کی وِٹکوف کے ساتھ "اصولی طور پر مفاہمت" ہو گئی ہے، تاہم اسرائیل نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ "پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ" ہے۔ ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار کے مطابق: "حماس کی تجویز نہ تو اسرائیل کو قبول ہے اور نہ ہی امریکی انتظامیہ کو"۔
اس کے باوجود، خود وِٹکوف نے واضح کیا کہ "ہم ایک نئی شرائط کی دستاویز بھیجنے کے قریب ہیں، اور مجھے طویل المدت معاہدے کے امکانات کے حوالے سے اچھا احساس ہے"۔ وِٹکوف کے یہ بیانات ان پیغامات سے ہم آہنگ ہیں جو انہوں نے پہلے بھی دیے تھے، جن کے مطابق عارضی جنگ بندی ایک جامع حل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ تاہم، یہ واضح ہے کہ مرکزی مسئلہ یعنی جنگ کے مکمل خاتمے کا مطالبہ بدستور اختلاف کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس مرحلے پر، وِٹکوف ایک نئی اور زیادہ لچکدار تجویز پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، تاکہ فریقین کے درمیان موجود اختلافات کو کم کیا جا سکے اور ایک ایسے معاہدے تک پہنچا جا سکے جو نہ صرف یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے بلکہ ممکنہ طور پر ایک طویل المدت تصفیہ کی راہ بھی ہموار کرے۔