WE News:
2025-11-03@08:16:14 GMT

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر: تاریخ کا عظیم موڑ

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر: تاریخ کا عظیم موڑ

پاکستان آرمی کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کا تاریخی اعلان گزشتہ ہفتے کابینہ نے کیا۔

یہ فیصلہ اُن کی غیر معمولی قیادت، تزویراتی صلاحیتوں اور حالیہ قومی دفاعی بحرانوں میں کلیدی کردار کے اعتراف کے طور پر سامنے آیا ہے۔

اس سے قبل 1959 میں اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنگ محمد ایوب خان نے ازخود اپنے اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی۔

فیلڈ مارشل کا اعزاز — عالمی پس منظر

فیلڈ مارشل کا رینک دنیا بھر میں سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز سمجھا جاتا ہے، جو 5 ستاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا 1185ء میں ہوئی جب فرانسیسی بادشاہ فلپ آگسٹس نے جنرل البیرک کلیمنٹ کو اس عہدے پر فائز کیا۔

برطانیہ، جرمنی، بھارت اور دیگر ممالک میں اب تک سینکڑوں جرنیل اس درجہ پر فائز ہو چکے ہیں۔

قابل ذکر عالمی فیلڈ مارشلز میں شامل ہیں برنارڈ مونٹگمری (برطانیہ): دوسری جنگ عظیم میں شمالی افریقہ اور نارمنڈی کی مہمات کے ہیرو ایرون رومیل (جرمنی): ’ڈیزرٹ فاکس‘ کے لقب سے مشہور، شمالی افریقی محاذ کے عظیم جرنیل۔

 اسی طرح سام مانیکشا (بھارت): 1971 کی ہند-پاک جنگ، جنہیں 1973 میں فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا۔

پاکستان کا فوجی رینک — تاریخی جھلک

پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف 2 افراد کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے:

فیلڈ مارشل ایوب خان:

1959 میں ملکی فوجی اور قیادت کے اعتراف میں ترقی دلوائی  گئی۔ ناقدین ابھی تک مخمصے میں ہیں کہ جنگ تو 1965 میں ہوئی، مگر 6 سال قبل یہ اعزاز کیسے اور کیوں ملا ؟

جنرل محمد ایوب خان کو 1959 میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، 1965 کی پاکستان اور بھارت کی جنگ سے کئی سال پہلے۔  یہ کیسے اور کیوں ہوا یہ ہے:

مارشل لا (1958-59) کے بعد خود کو فروغ دینا:

 اکتوبر 1958 میں ایوب خان نے، جو اس وقت پاک فوج کے کمانڈر انچیف تھے، مارشل لاء لگا دیا اور پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔

 1959میں اس نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی، جو کہ فوج میں سب سے زیادہ ممکنہ رینک ہے۔

 یہ ترقی جنگی فتح یا فوجی اداروں کی سفارش کا نتیجہ نہیں تھی۔ اس کے بجائے، یہ ایک سیاسی اقدام تھا کہ ریاست کے سربراہ اور اعلیٰ فوجی رہنما دونوں کے طور پر اپنے اختیار کو مستحکم کیا جائے۔

حرکت کے پیچھے وجوہات:

 طاقت کا استحکام: صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے، اعلیٰ ترین فوجی عہدے کو اپنانے سے اسے مسلح افواج پر مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔

 وقار اور میراث: فیلڈ مارشل کا عہدہ عظیم علامتی اور رسمی وقار رکھتا ہے۔ ایوب خان اپنی حیثیت کو عظیم فوجی لیڈروں سے بلند کرنا چاہتے تھے۔

 پاکستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں: ایوب خان پاکستان کی تاریخ میں واحد شخص ہیں جو فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز رہے۔  کوئی رسمی جواز یا روایتی معیار نہیں تھا۔

1965 کی جنگ کے بارے میں غلط فہمی:

 بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایوب 1965 کی جنگ کی وجہ سے فیلڈ مارشل بنے، لیکن یہ غلط ہے۔ جنگ ان کی ترقی کے 6 سال بعد ہوئی تھی اور اس کے نتائج پر بحث کی جاتی ہے-

ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی فتح کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ بہت سے تجزیہ کار اسے تعطل کا شکار سمجھتے ہیں۔

 ایوب خان کا 1959 میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی ایک خود ساختہ، سیاسی فیصلہ تھا جس کا مقصد پاکستان کے سول اور ملٹری ڈھانچے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا تھا۔ اس کا 1965 کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا جو بہت بعد میں ہوئی۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر:

.

2025 میں بھارت کے ساتھ حساس تنازعہ کے دوران جرات مندانہ کمانڈ اور آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں کلیدی کردار پر حکومت نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ان کو اس عہدے  پر فائز کیا۔ جو وقت کی ضرورت اور حقیقت پر مبنی تھی۔

اس پروموشن کی وجوہات اور اثرات

فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی صرف جنگی فتوحات یا خدمات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی، تزویراتی اور علامتی فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ جنرل منیر کی ترقی کے پیچھے مندرجہ ذیل اہم پہلو شامل ہیں:

اعلیٰ قیادت اور فیصلہ سازی:

بھارت کے ساتھ حالیہ تناؤ میں مؤثر حکمت عملی اور مضبوط کمانڈ۔

داخلی استحکام:

 بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تقرری اندرونی عسکری سیاست میں توازن قائم کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔

فوجی اسٹرکچر میں تبدیلی:

 ماہرین کا خیال ہے کہ اب “چیف آف ڈیفنس اسٹاف” اور “وائس چیف آف آرمی اسٹاف” جیسے نئے عہدوں کی تشکیل ممکن ہے، جو فوجی کمانڈ کو مزید مربوط اور مضبوط بنا سکتے ہیں۔

فیلڈ مارشل کا علامتی مقام:

فیلڈ مارشل کا رینک صرف ایک فوجی عہدہ نہیں بلکہ ایک قومی علامت بن چکا ہے۔ یہ اس افسر کی قائدانہ صلاحیت، قومی سلامتی میں خدمات اور تاریخی حیثیت کو تسلیم کرنے کا اظہار ہوتا ہے۔ جنرل منیر کا یہ تقرر مستقبل میں پاکستان کے فوجی اور سیاسی نظام پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔

 اب نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے:

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کا تقرر پاکستان کی  تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ وہ صرف رینک میں ہی نہیں بلکہ اثر و رسوخ، اسٹرٹیجک ویژن اور قیادت میں بھی ایک ممتاز حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔

آئندہ مہینے اور سال یہ واضح کریں گے کہ ان کی قیادت کس حد تک قومی و علاقائی منظرنامے کو بدلتی ہے۔ ایک  بات تو طے ہے کہ دنیا کو باور کرانا ضروری تھانہ ذندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو کبھی نہیں بھولتیں۔ بلا شبہ اس وقت کی عسکری قیادت ہمارے ہیروز ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان آرمی جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان ا رمی فیلڈ مارشل فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی فیلڈ مارشل کا پاکستان کی ایوب خان پر فائز کی جنگ

پڑھیں:

خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو چترال میں اسپاغ لشٹ کے قریب دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، انھوں نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال خیبرپختونخوا کا خوبصورت علاقہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ دانش اسکولز میں ایچی سن کے معیار کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور غریب ، یتیم اور عام آدمی کے بچے بھی یہاں مفت تعلیمی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ کسی پر احسان نہیں، ریاست کا فریضہ ہے۔ انھوں نے گیس پلانٹ منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا اور اپر چترال کے لیے بجلی کی یکسان ٹیرف مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اگلے ہفتے چترال بھیجنے کا اعلان کیا۔

اپر چترال میں جدید اسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز طلبہ کے لیے میرٹ پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی اسکیم کا اجرا کیا ہے، یہ لیپ ٹاپ چترال کے ہونہار طلبا کو بھی ملیں گے۔

چترال میں تعلیمی اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دانش اسکول کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ چترال ایک انتہائی خوبصورت اور وسیع وعریض ضلع ہے۔ یہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔

خصوصاً اس علاقے میں دیہی آبادی جن کا کی روزی کا دارومدار گلہ بانی ہے، ان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گلہ بانوں کے لیے چراگاہوں کا ایشو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔

گلہ بانوں کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس علاقے میں روزگار اور خوش حالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت، کاروباری طبقے اور افسرشاہی کو پسماندہ اضلاع کی پسماندہ آبادی کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ چترال میں ٹورازم کو بھی خاصی ترقی دی جا سکتی ہے۔

اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور برادریاں زبان اور ثقافت کے اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے قریب ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پچھلے دنوں گوجری زبان کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا اور اہم اقدام ہے۔

اس حوالے سے چترال میں بھی گوجری زبان بولنے والوں کی آبادی کی ترقی کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر فون کرکے مبارکباد دی ہے اور انھیں پیشکش کی ہے کہ مل کر ترقی، خوشحالی، بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، وفاق ان سے مکمل تعاون کرے گا۔

وفاق اور صوبوں کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ بھی تشکیل پا گئی ہے، صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ کو صوبہ خیبرپختونخوا کی تعمیر وترقی کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔

خیبرپختونخوا پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں سیاحت کی صنعت کا بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں قیمتی معدنیات جن میں نایاب اور انتہائی قیمتی جیمزا سٹونز بھی شامل ہیں، زمرد (ایمرالڈ)، تورملین، ایکوامرین، زرد اور نیلا یاقوت (روبی)، اور ڈائمنڈ جیسے قدرتی جیمز اسٹونز وافر مقدار میں موجود ہیں۔

اس کے علاوہ سنگ مرمر، بلیک گرے نائٹ، سفید گرے نائٹ اور دیگر قیمتی ماربل کے وسیع ذخائر صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی بھی اس صوبے میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالامال یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے۔

اگر اس خطے کی ترقی پر یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے چند برسوں میں یہ صوبہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی پر قابو پایا جائے، جرائم کی روک تھام ہو اور ایسے علاقوں میں قانون کا نفاذ یقینی ہو جہاں جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے موجود ہیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ صرف چترال کو ہی مدنظر رکھ لیں تو اس ایک ضلعے کو ہی اگر ٹورازم کے لیے محفوظ بنا دیا جائے تو اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ چترال بونی شندور 153کلومیٹر روڈ پر کام جاری ہے، چترال ایون 46کلومیٹر روڈ آیندہ سال مئی تک مکمل کر لی جائے گی، لواری ٹنل کی شمالی رسائی کے 7کلومیٹر حصے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم نے اپر چترال کے لیے وفاق کی طرف سے یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں اور کالجز قائم ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں نسلی اور ثقافتی ڈائیورسٹی بھی بہت زیادہ ہے۔

خیبرپختونخوا کی سرحد چونکہ افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے یہ صوبہ کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے پروموٹ ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا خیبرپختونخوا میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ نہیں سکتیں۔

خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کے لیے کاروباری سرگرمیوں کا بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی اور قبائلی کلچر مڈل کلاس کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی کامیابی خیبرپختونخوا میں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا استنبول میں اختتام پذیر ہوا پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان نے 4 برس سے افغان حکام کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر قابل اعتماد معلومات فراہم کیں تاہم بار بار کی یقین دھانی کے باوجود افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔

مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی نازک مذاکرات تھے۔ ترکیہ کا مشترکہ اعلامیہ مذاکرات کا ایک کورنگ نوٹ تھا۔ یہ ایک کتاب کے سرروق کی طرح تھا نہ کہ مکمل کتاب کی طرح ۔

افغان فریق کی جانب سے جنگ بندی کے تسلسل کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے تسلسل کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریری ضمانتوں کا طلب کیا جانا مذاکرات کا حصہ تھا۔

ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آیندہ نشست 6 نومبر کو ہو گی جس کی تکمیل پر بیان جاری کریں گے۔ آیندہ مذاکرات میں انٹرلوکیٹرز حکومتی سطح کے افراد اور سیاسی نمایندگی ہو گی۔

مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ سیکیورٹی صورت حال کا تقاضہ ہے ابھی سرحد کو بند رکھا جائے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی امورِ مملکت اور رموزِ مملکت جیسی اصطلاحات پر گہرا غور وفکر کرنا چاہیے۔ طالبان اگر حکومت میں آ گئے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو فاتح یا مطلق العنان حاکم اور بادشاہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں کئی کروڑ عوام آباد ہیں۔

یہاں مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہ یا قومیتیں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہیں۔ خانہ بندوش قبائل بھی افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کا اقتدار کسی بھی افغان گروپ کے پاس ہو، اس کا پہلا فرض منصبی افغانستان کے عوام کی تعمیر وترقی ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام اور فعل کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج اگر طالبان اگر حکومت میں ہیں تو وہ جو چاہیں کریں، اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنے کسی فعل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو یہ ایک غلط طرزعمل اور طرز حکمرانی ہے بلکہ آمریت سے بھی بڑھ کر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مصر کے عظیم الشان عجائب خانے نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول دیے
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو افشا ہونے کے بعد اسرائیلی فوجی استغاثہ لاپتہ
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • ہانیہ عامر کی عاصم اظہر کی سالگرہ میں شرکت
  • فیلڈ مارشل کو سلام، گلگت بلتستان کو ترقی کے تمام مواقع دیئے جائینگے: صدر زرداری
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • تاریخ کی نئی سمت
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • فیلڈ مارشل ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر چوری، سابق صدر کی یادگار اشیاء بھی غائب
  • چیئرمین کل مسالک علماء بورڈ مولانا عاصم مخدوم کی اٹلی میں پوپ لیو سے ملاقات