فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر: تاریخ کا عظیم موڑ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
پاکستان آرمی کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کا تاریخی اعلان گزشتہ ہفتے کابینہ نے کیا۔
یہ فیصلہ اُن کی غیر معمولی قیادت، تزویراتی صلاحیتوں اور حالیہ قومی دفاعی بحرانوں میں کلیدی کردار کے اعتراف کے طور پر سامنے آیا ہے۔
اس سے قبل 1959 میں اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنگ محمد ایوب خان نے ازخود اپنے اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی۔
فیلڈ مارشل کا اعزاز — عالمی پس منظرفیلڈ مارشل کا رینک دنیا بھر میں سب سے اعلیٰ فوجی اعزاز سمجھا جاتا ہے، جو 5 ستاروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا 1185ء میں ہوئی جب فرانسیسی بادشاہ فلپ آگسٹس نے جنرل البیرک کلیمنٹ کو اس عہدے پر فائز کیا۔
برطانیہ، جرمنی، بھارت اور دیگر ممالک میں اب تک سینکڑوں جرنیل اس درجہ پر فائز ہو چکے ہیں۔
قابل ذکر عالمی فیلڈ مارشلز میں شامل ہیں برنارڈ مونٹگمری (برطانیہ): دوسری جنگ عظیم میں شمالی افریقہ اور نارمنڈی کی مہمات کے ہیرو ایرون رومیل (جرمنی): ’ڈیزرٹ فاکس‘ کے لقب سے مشہور، شمالی افریقی محاذ کے عظیم جرنیل۔
اسی طرح سام مانیکشا (بھارت): 1971 کی ہند-پاک جنگ، جنہیں 1973 میں فیلڈ مارشل کا درجہ دیا گیا۔
پاکستان کا فوجی رینک — تاریخی جھلک
پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف 2 افراد کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے:
فیلڈ مارشل ایوب خان:
1959 میں ملکی فوجی اور قیادت کے اعتراف میں ترقی دلوائی گئی۔ ناقدین ابھی تک مخمصے میں ہیں کہ جنگ تو 1965 میں ہوئی، مگر 6 سال قبل یہ اعزاز کیسے اور کیوں ملا ؟
جنرل محمد ایوب خان کو 1959 میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، 1965 کی پاکستان اور بھارت کی جنگ سے کئی سال پہلے۔ یہ کیسے اور کیوں ہوا یہ ہے:
مارشل لا (1958-59) کے بعد خود کو فروغ دینا:اکتوبر 1958 میں ایوب خان نے، جو اس وقت پاک فوج کے کمانڈر انچیف تھے، مارشل لاء لگا دیا اور پاکستان کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
1959میں اس نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی، جو کہ فوج میں سب سے زیادہ ممکنہ رینک ہے۔
یہ ترقی جنگی فتح یا فوجی اداروں کی سفارش کا نتیجہ نہیں تھی۔ اس کے بجائے، یہ ایک سیاسی اقدام تھا کہ ریاست کے سربراہ اور اعلیٰ فوجی رہنما دونوں کے طور پر اپنے اختیار کو مستحکم کیا جائے۔
حرکت کے پیچھے وجوہات:طاقت کا استحکام: صدر اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے، اعلیٰ ترین فوجی عہدے کو اپنانے سے اسے مسلح افواج پر مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا۔
وقار اور میراث: فیلڈ مارشل کا عہدہ عظیم علامتی اور رسمی وقار رکھتا ہے۔ ایوب خان اپنی حیثیت کو عظیم فوجی لیڈروں سے بلند کرنا چاہتے تھے۔
پاکستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں: ایوب خان پاکستان کی تاریخ میں واحد شخص ہیں جو فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز رہے۔ کوئی رسمی جواز یا روایتی معیار نہیں تھا۔
1965 کی جنگ کے بارے میں غلط فہمی:بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ایوب 1965 کی جنگ کی وجہ سے فیلڈ مارشل بنے، لیکن یہ غلط ہے۔ جنگ ان کی ترقی کے 6 سال بعد ہوئی تھی اور اس کے نتائج پر بحث کی جاتی ہے-
ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی فتح کا دعویٰ کرتے ہیں، جبکہ بہت سے تجزیہ کار اسے تعطل کا شکار سمجھتے ہیں۔
ایوب خان کا 1959 میں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی ایک خود ساختہ، سیاسی فیصلہ تھا جس کا مقصد پاکستان کے سول اور ملٹری ڈھانچے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا تھا۔ اس کا 1965 کی جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا جو بہت بعد میں ہوئی۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر:.
اس پروموشن کی وجوہات اور اثرات
فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی صرف جنگی فتوحات یا خدمات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک سیاسی، تزویراتی اور علامتی فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ جنرل منیر کی ترقی کے پیچھے مندرجہ ذیل اہم پہلو شامل ہیں:
اعلیٰ قیادت اور فیصلہ سازی:
بھارت کے ساتھ حالیہ تناؤ میں مؤثر حکمت عملی اور مضبوط کمانڈ۔
داخلی استحکام:
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تقرری اندرونی عسکری سیاست میں توازن قائم کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
فوجی اسٹرکچر میں تبدیلی:
ماہرین کا خیال ہے کہ اب “چیف آف ڈیفنس اسٹاف” اور “وائس چیف آف آرمی اسٹاف” جیسے نئے عہدوں کی تشکیل ممکن ہے، جو فوجی کمانڈ کو مزید مربوط اور مضبوط بنا سکتے ہیں۔
فیلڈ مارشل کا علامتی مقام:
فیلڈ مارشل کا رینک صرف ایک فوجی عہدہ نہیں بلکہ ایک قومی علامت بن چکا ہے۔ یہ اس افسر کی قائدانہ صلاحیت، قومی سلامتی میں خدمات اور تاریخی حیثیت کو تسلیم کرنے کا اظہار ہوتا ہے۔ جنرل منیر کا یہ تقرر مستقبل میں پاکستان کے فوجی اور سیاسی نظام پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
اب نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے:
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کا تقرر پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہے۔ وہ صرف رینک میں ہی نہیں بلکہ اثر و رسوخ، اسٹرٹیجک ویژن اور قیادت میں بھی ایک ممتاز حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔
آئندہ مہینے اور سال یہ واضح کریں گے کہ ان کی قیادت کس حد تک قومی و علاقائی منظرنامے کو بدلتی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کو باور کرانا ضروری تھانہ ذندہ قومیں اپنے قومی ہیروز کو کبھی نہیں بھولتیں۔ بلا شبہ اس وقت کی عسکری قیادت ہمارے ہیروز ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان آرمی جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان ا رمی فیلڈ مارشل فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی فیلڈ مارشل کا پاکستان کی ایوب خان پر فائز کی جنگ
پڑھیں:
چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 ستمبر 2025ء ) چیئرمین پی ٹی اے کو میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان عہدے سے ہٹانے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محمد آصف اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کی، چیئرمین پی ٹی اے کے وکیل قاسم ودود عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل و دیگر بھی عدالت پیش ہونے والوں میں شامل تھے۔ دوران سماعت وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ’اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا، پٹیشن میں جو مانگا نہ گیا ہو اس کو آرٹیکل 199 میں نہیں دیکھا جا سکتا، کورٹ نے خود لکھا کہ ساری بحث ابھی مکمل نہیں ہوئی‘، جسٹس محمد آصف نے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کو تو کافی موقع دیا گیا تھا‘، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے سے ہٹانے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے کو عہدے پر بحال کردیا۔(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان نے عہدے سے ہٹائے جانے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا تھا ، اس سلسلے میں چیئرمین پی ٹی اے نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف آرڈیننس 1972ء کے تحت اپیل دائر کی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مجھے پہلے 24 مئی 2023ء میں پی ٹی اے میں ممبر (انتظامیہ) مقرر کیا گیا، جس کے بعد 25 مئی 2023ء کو ترقی دے کر چیئرمین بنادیا گیا، میں قوانین اور ضوابط کے تحت اپنے سرکاری امور سرانجام دے رہا ہوں لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے ایک محفوظ فیصلے سناتے ہوئے مجھے عہدے سے ہٹانے کا حکم سنایا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اس اپیل کو تقرری قانونی ثابت کرنے کیلیے دائر کیا ہے، عدالت سے اپیل کو فوری سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا، جسٹس بابر ستار نے 99 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا، اپنے فیصلے میں عدالت نے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان کی تقرری کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ چیئرمین پی ٹی اے کی تعیناتی قانونی طور پر درست نہیں ہوئی، ممبر ایڈمنسٹریشن کے عہدے کی تخلیق ٹیلی کام ایکٹ کے مینڈیٹ سے باہر ہے اور اسے غیر معمولی وجوہات کی بنا پر متعارف کرایا گیا، تقرری کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے پی ٹی اے کے تقرری قوانین میں ترمیم آئین اور ٹیلی کام ایکٹ کے تحت غلط ہے، اس طرح کی صوابدیدی اور من مانی کارروائیاں شفافیت، انصاف پسندی اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتی ہیں۔