Daily Ausaf:
2025-11-03@17:50:14 GMT

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی مدبرانہ قیادت

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

پاکستان،چائنا انسٹیٹیوٹ کی تازہ ترین رپورٹ ’’16 گھنٹے میں جنوبی ایشیاء کی تاریخی تبدیلی‘‘ منظرعام پر آئی ہے جس کے مطابق پاکستان نے نہ صرف خطے کے تزویراتی خدوخال کو بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی اس امر پر قائل کر دیا ہے کہ پاکستان اب ایک فعال اور بالادست طاقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اس رپورٹ کا ہر صفحہ اس ناقابلِ تردید حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان نے ایک فیصلہ کن جنگ جیتی اور اس تاریخی فتح کے پسِ پشت فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی مدبرانہ قیادت کارفرما ہے۔یہ وہی جنرل عاصم منیر ہیں جنہیں ماضی میں اکثر ایک خاموش مزاج، محتاط طبیعت اور پسِ پردہ کردار نبھانے والی شخصیت تصور کیا جاتا رہا لیکن 10مئی کے بعد انہی کی قیادت میں ایک ایسا جرات مند، غیرمعمولی تدبر کا حامل اور اسٹریٹیجک وژن رکھنے والا سپہ سالار دنیا کے سامنے آیا جس نے بھارت کو ہر محاذ پر چاہے وہ دفاعی ہو، سفارتی ہو یا تکنیکی پسپائی پر مجبور کر دیا۔اس تفصیلی رپورٹ میں اس امر پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے کہ نریندر مودی کے تمام عسکری و سیاسی اندازے کس طرح محض خوش فہمی پر مبنی تھے۔ بھارتی قیادت یہ گمان کئے بیٹھی تھی کہ رافیل طیارے، S-400سسٹم اور مہنگی دفاعی ٹیکنالوجی انہیں خطے میں ناقابلِ تسخیر بنا چکی ہے، مگر پاکستان نے نہایت سادگی محدود وسائل اور غیرروایتی عسکری حکمت عملی کے امتزاج سے ایک ایسا’’مکسڈ ڈیٹرنس ماڈل‘‘ وضع کیا جس نے دشمن کے زعم کو پاش پاش کر دیا۔ جے-10سی جیسے جدید طیارے، شاہین-III میزائل، الیکٹرانک اور سائبر وارفیئر کے میدان میں پیش رفت نے نہ صرف جنگی لغت کو بدل دیا بلکہ دنیا کو یہ باور کروایا کہ جدید جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور ذہانت کے امتزاج سے جیتی جاتی ہیں۔ لیکن ان تمام حربی کامیابیوں کے عقب میں جو سب سے طاقتور عنصر کارفرما تھا وہ جنرل عاصم منیر کی فکر انگیز قیادت تھی، جس نے نہ صرف عسکری سطح پر بلکہ نظریاتی اور سفارتی محاذ پر بھی نئی راہیں متعین کیں۔
10 مئی 2025ء کا دن جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین 16 گھنٹے پر محیط فضائی جھڑپیں خطے کے منظرنامے کو یکسر بدل دینے کا باعث بنیں۔ ان جھڑپوں کے دوران پاکستان نے تین کلیدی میدانوں میں نمایاں سبقت حاصل کی۔ سب سے پہلے، الیکٹرانک وارفیئر کے محاذ پر پاکستان نے بھارتی کمیونی کیشن نظام کو کامیابی سے جام کر کے دشمن کی مواصلاتی صلاحیت کو محدود کر دیا۔ یہ نہ صرف تکنیکی برتری کا مظہر تھا بلکہ پاکستانی مہارت کا عملی اظہار بھی۔اسی طرح، سائبر وارفیئر کے میدان میں پاکستان نے بھارتی ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس کو محض چند منٹوں میں ناکارہ بنا کر ان کے پروپیگنڈے کو خاموشی سے دفن کر دیا۔ اس کامیابی کے پیچھے وہ مربوط سائبر کمانڈ کارفرما تھی جو جنرل عاصم منیر کی ہدایت پر گزشتہ برس قائم کی گئی تھی۔ تیسرا اور نہایت اہم پہلو چین کی براہِ راست شراکت داری تھی۔ چین نے پاکستان کو نہ صرف ریئل ٹائم سیٹلائٹ ڈیٹا فراہم کیا بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کے موقف کی غیرمبہم حمایت کر کے اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی کا اعلان کیا۔ یہ شراکت داری پاکستانی عسکری قیادت کی اعتماد سازی اور سفارتی بصیرت کی دلیل ہے۔رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی اس برتری کو قائم رکھنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہنا ہوگا جس کا خاکہ تین واضح خطوط پر مبنی ہے۔ سب سے پہلے متحرک سفارت کاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ سارک، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر علاقائی فورمز کو فعال بنا کر وسط ایشیا تک ایک ہم آہنگ اسٹریٹیجک دائرہ قائم کرے تاکہ عالمی منظرنامے میں اپنی موثر موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔
دوسری سمت میں اتحادی ممالک کے ساتھ ایک منی مارشل پلان کے قیام کی سفارش کی گئی ہے جس کے تحت چین، ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ دفاعی اور معاشی اشتراک کو فروغ دے کر بھارت کی تنہائی پسندی کا موثر جواب دیا جا سکے۔ تیسری اور نہایت حساس جہت قانونی و اخلاقی دبا کی ہے جس میں انڈس واٹر ٹریٹی پر ازسرِ نو مذاکرات، بھارت کے ہندوتوا بیانیے کو مغربی عدالتوں میں چیلنج کرنا، اور بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔رپورٹ اس امر پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ بھارت کی ناکامی کی بنیادی وجوہات کیا تھیں۔ سب سے پہلی اور نمایاں وجہ دفاعی زعم تھا۔ مہنگی ٹیکنالوجی پر انحصار، جیسے رافیل اور S-400، پاکستان کی اسمارٹ ڈیٹرنس حکمتِ عملی کے سامنے غیر مثر ثابت ہوا۔ دوسری ناکامی بیانیے کے محاذ پر ہوئی، جہاں ہندوتوا پر مبنی جارحانہ بیانیہ عالمی سطح پر بھی اور خطے میں بھی مسترد کر دیا گیا۔ تیسری ناکامی بھارت کی یک رخی حکمتِ عملی کی تھی، جو چین،پاکستان وسط ایشیا کوریڈور جیسے جامع منصوبے کے سامنے بے اثر ثابت ہوئی۔ نتیجتاً بھارت سفارتی و عسکری دونوں میدانوں میں یکا و تنہا رہ گیا۔ان تمام کامیابیوں کے مرکز میں ایک ایسی قیادت کھڑی نظر آتی ہے جو نہ صرف میدانِ جنگ کی باریکیوں سے واقف ہے بلکہ بین الاقوامی سفارت کاری، میڈیا بیانیے اور قانونی چالوں میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے یہ ثابت کیا کہ جنگیں صرف بارود سے نہیں بلکہ فہم و فراست، حکمت اور وسیع وژن سے جیتی جاتی ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے دشمن کو نہ صرف عملی محاذ پر بلکہ ذہنی، نفسیاتی، سفارتی اور ٹیکنالوجیکل محاذوں پر بھی شکست سے دوچار کیا۔ یہی وہ غیرمعمولی کارنامہ تھا جس کے اعتراف میں عسکری حلقوں اور قومی اداروں نے انہیں فیلڈ مارشل کے تاریخی اعزاز سے سرفراز کیا ۔ ایک اعزاز جو محض ان کی ذاتی فتح نہیں بلکہ پوری قوم کے لئے باعث افتخار ہے۔ رپورٹ کے اختتامی حصے میں مستقبل کی حکمتِ عملی کے طور پر تین اقدامات پر زور دیا گیا ہے جنہیں اگر سنجیدگی سے نافذ کیا جائے تو پاکستان آئندہ کئی دہائیوں تک اپنی یہ برتری قائم رکھ سکتا ہے۔ سب سے پہلا قدم ایک قومی جوائنٹ سائبر اینڈ اسپیس اتھارٹی کا قیام ہے تاکہ پاکستان جدید جنگی محاذوں پر قائدانہ کردار ادا کر سکے۔ دوسرا اقدام آبی حکمت عملی سے متعلق ہے جس کے تحت انڈس واٹر ٹریٹی کو نئے سرے سے پیش کر کے بھارت کی آبی بالادستی کو عالمی سطح پر چیلنج کیا جائے۔
تیسرا اہم اقدام علاقائی میڈیا اتحاد کا قیام ہے جس کے تحت ترکیہ، ایران، آذربائیجان جیسے دوست ممالک کے ساتھ مل کر ساتھ ایشیاء نیوز گرڈ تشکیل دیا جائے تاکہ بھارتی پروپیگنڈے کا بھرپور توڑ ممکن بنایا جا سکے۔ جنرل عاصم منیر کی زیرِ قیادت پاکستان نے محض ایک جنگ نہیں جیتی بلکہ دنیا کو ایک نئی تزویراتی فکر ایک نئے بیانیے اور ایک نئی حکمت عملی سے روشناس کرایا۔ یہ فتح صرف بارود کی نہیں تھی بلکہ شعور، ادراک اور تدبر کی تھی۔ آج جب عالمی برادری جنوبی ایشیاء کی طرف نگاہ کرتی ہے تو اسے ایک ایسا پاکستان دکھائی دیتا ہے جو نہ صرف ہر قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے بلکہ عالمی قیادت کے کردار کے لیے بھی پرعزم ہے اور اس عزم کی جیتی جاگتی علامت ہیں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: عاصم منیر کی فیلڈ مارشل پاکستان نے کہ پاکستان بھارت کی ہے جس کے کر دیا پر بھی

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ
  • ستائیسویں آئینی ترمیم ،فیلڈ مارشل کاعہدہ آئینی بنانے کیلئے آرٹیکل243میں ترمیم کی جائیگی،حکومتی ذرائع
  • فیلڈ مارشل کاعہدہ آئینی بنانے کیلئے آرٹیکل243 میں ترمیم کی تیاری
  • فیلڈ مارشل کاعہدہ آئینی بنانے کیلئے آرٹیکل243 میں ترمیم کی جائے گی، وفاقی حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم کی تیاری پکڑلی
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • ہانیہ عامر کی عاصم اظہر کی سالگرہ میں شرکت
  • فیلڈ مارشل کو سلام، گلگت بلتستان کو ترقی کے تمام مواقع دیئے جائینگے: صدر زرداری
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • فیلڈ مارشل ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر چوری، سابق صدر کی یادگار اشیاء بھی غائب