’یوم تکبیر‘ ’تحفظِ پاکستان‘ کے باب میں ایک عظیم سنگِ میل
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
مملکتوں کی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں، کبھی تو سنگین داخلی بحران سر اٹھانے لگتے ہیں، تو کبھی سرحدوں کے پار مسائل اُس کے وجود اور سالمیت کو خطروں سے دوچار کر دیتے ہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے وقت سے اتنے زیادہ خطروں سے دوچار رہا ہے کہ اب اس کے ’نازک موڑ سے گزرنے‘ کو لطیفوں میں بیان کیا جانے لگا ہے۔ لیکن یہ مذاق کی بات ہر گز نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے کہ اس مملکت کے ساتھ خدشات اور غیر یقینی صورت حال کا سلسلہ کسی نہ کسی طور اکثر و بیش تر جاری رہا ہے۔ دوسری طرف جتنا زیادہ اس کے حوالے سے یہ واہمے اور سوالیہ نشان بڑھے ہیں، قدرت نے اس مملکت کے تحفظ اور اس کی مدافعت اور اس کے لوگوں میں نئی توانائی بھرنے کے سلسلوں میں بھی کوئی کمی نہیں رہنے دی۔
1971ءکے ہاکی ورلڈ کپ کی فتح اور پھر اسکواش اور کرکٹ جیسے کھیلوں تک میں پاکستان کی حکم رانی سے لے کر اس کے وجود کے لیے خطرات بننے والے ہم سائے ملک ہندوستان سے مختلف نوعیت کے خطرات کے ماحول تک۔ قدرت نے کٹھن مواقع پر بار بار پاکستان کو سرخرو کیا ہے۔ اس حوالے سے یہاں بہت سے معجزے اور اَن ہونیاں بھی ہوتی ہوئی دیکھی گئی ہیں اور مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی امید اور زندگی کی نئی کرنیں بھی پھوٹی ہیں۔ بلاشبہ 28 مئی 1998ءاس ملک کی تاریخ اور اس کی سالمیت کے باب میں ایک ایسے ہی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جسے آج ہم ’یوم تکبیر‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے ابھی پاکستان 1971ءمیں سقوط ڈھاکا جیسے اندوہ ناک سانحے کے بعد گویا دوبارہ سے سانس لینے کے قابل ہی ہوا، اس نے اپنے وجود کے بکھرے ہوئے تنکے سمیٹے اور پھر تعمیر نو شروع کی دو جولائی 1972ءکو ہندوستان سے ’شملہ معاہدہ‘ ہوا، جنگی اسیروں کی واپسی، سرحدی پوزیشن کی بحالیوں کے بعد داخلی محاذ پر 1973ءمیں نئے دستور کی کوششیں کام یاب ہوئیں۔
اس کے بعد ابھی ایک سال بھی نہیں گزرتا کہ ہندوستان نے 18 مئی 1974ءکو ’مسکراتا بدھا‘ کے مضحکہ خیز نام سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع کر دی اور دنیا کے سامنے اُسے پرامن قرار دینے کی ایک ناکام کوشش بھی کی۔ یہ براہ راست تین برس قبل دولخت ہونے والی ریاست پاکستان کے لیے خطرناک بات تھی، وہ ملک جو ابھی سنبھل ہی رہا تھا، عین اسی لمحے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے ’گھاس کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے!‘ کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔
ابھی فروری 1974ءمیں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں مسلمان دنیا سے تعلقات کے نئے دور کی ایک نئی شروعات ضرور ہوئی تھی، لیکن پاکستان جیسے ’تیسری دنیا‘ کے ملک کے لیے ’جوہری قوت‘ کا مہنگا حصول عملی طور پر کس قدر ناممکن دکھائی دیتا تھا، اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں، مگر دنیا نے پھر یہ معجزہ بھی دیکھا کہ اِس کم وسائل مملکت کو اس کے لیے مہارت بھی میسر ہوئی اور ضروری وسائل بھی دست یاب ہوئے۔ باوجود اس کے کہ حکومتی سطح پر کتنے ہی بحران آئے اور گئے، کتنی ہی سیاسی اور فوجی حکومتوں کی تبدیلیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن اس ملک کے ’جوہری پروگرام‘ کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نہ آنے دی گئی۔
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری ’پاکستان کرونیکل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’17 ستمبر 1974ءکو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ سے ’ڈاکٹریٹ‘ کرنے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا کہ وہ یورینئم افزودگی کے پیچیدہ کام میں مہارت رکھتے ہیں، پاکستان اسٹیل مل ان کی درخواست کے باوجود ان سے استفادہ نہیں کر رہا۔ جس کے بعد انھیں معمول کی چھٹیوں پر ملک واپسی کی ہدایت کی گئی اور اس طرح دسمبر 1974ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سالانہ چھٹیوں پر وطن آئے اور ذوالفقار بھٹو سے ملاقات کی اور یوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔
اسی سلسلے میں31 جولائی 1976ءکو راول پنڈی میں ’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنائے گئے، جہاں 1978ءمیں یورینئم افزودہ کرنے کا منصوبہ کام یاب ہوگیا۔ بعد ازآں اس کی باقاعدہ عمارت کہوٹہ میں قائم کی گئی، یکم جنوری 1984ءکو اس ریسرچ لیبارٹری کو ’ڈاکٹر عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹریز‘ قرار دے دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی اور سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر نے ہمیں اپنے ایک انٹرویو میں بتایا ”جوہری توانائی کا حصول ہی ذوالفقار بھٹو کی وجہ قتل بنا۔ 1964ءمیں منیر احمد خان ’انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی‘ (ویانا) میں تھے، بطور وزیر خارجہ بھٹو وہاں گئے، تو منیر احمد خان سے بھی ملے، انھوں نے بتایا کہ ہندوستان میں جوہری توانائی کا انسٹی ٹیوٹ بن گیا ہے اور وہ 10 سال میں ایٹم بم بنا سکیں گے، ذوالفقار بھٹو نے جنرل ایوب خان کو اس پر کام کرنے کا مشورہ دیا۔
جو انھوں نے ’منہگا‘ کہہ کر رد کر دیا، لیکن جب انھیں اقتدار ملا، تو انھوں نے منیر احمد خان کو براہ راست ملتان کے جلسے میں بلایا اور اعلان کیا کہ ’ہمیں گھاس بھی کھانا پڑی تو کھائیں گے، لیکن ایٹم بم بنائیں گے اور میں منیر احمد خان کو ’پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘ کا چیئرمین مقرر کر رہا ہوں۔۔۔!‘ جلسے کے بعد بات ہوئی کہ آپ نے بنا کچھ کہے سنے جلسے میں اعلان کر دیا؟ تو بھٹو نے منیر احمد خان سے کہا ’مجھے پتا ہے کہ آپ کی بیوی آسٹرین ہے، اگر میں پہلے کہتا تو ہو سکتا ہے، آپ کہتے میں اپنی بیگم سے پوچھ لوں اب آپ جواب دیں پاکستان کے عوام کو!‘ پھر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ہمارا ری پراسسنگ پلانٹ منسوخ کیا، لیکن ہم نے دوسرا کہوٹہ والا شروع کردیا۔ منیر احمد خان کہتے ہیں کہ میرے سامنے امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ہم تمھیں خوف ناک مثال بنادیں گے!“
برصغیر کی ’جوہری قوت کی تاریخ‘ میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا، جب 11 مئی 1998ءکو بھارت نے ایک مرتبہ پھر راجستھان کے قصبے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کر ڈالے، اور دو دن بعد مزید دو مزید ایٹمی دھماکے کر دیے، جس کے بعد منطقی طور پر پاک بھارت تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ یہی نہیں اس وقت کے ہندوستانی وزیر داخلہ اور امور کشمیر کے سربراہ لال کشن ایڈوانی نے اشتعال انگیزی میں ایک قدم اور آگے بڑھے اور آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں بھی دینی شروع کر دیں۔
ایسے میں پاکستان پر امریکا سمیت عالمی طاقتوں نے جوہری تجربے نہ کرنے کے لیے سخت ترین دباﺅ ڈالا اور جوابی اقدام کے طور پر بھی کسی پیش قدمی سے باز رہنے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دیں۔ دوسری طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ ’جوہری تجربات‘ کے لیے عوامی دباﺅ بھی بڑھنے لگا۔ بالآخر 28 مئی 1998ءکو وزیراعظم نوازشریف کے زیر قیادت پاکستان نے عالمی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے جوہری قوت ہونے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔ اس روز پاکستان نے چاغی (بلوچستان ) کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے مسلم دنیا کی پہلی جوہری قوت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا اور 30 مئی کو چھٹا ایٹمی دھماکا کر کے ہندوستان کے پانچ دھماکوں کا بھرپور جواب دیا۔
جس طرح 1974ءسے 1998ءتک ’جوہری قوت‘ کے حصول کے لیے پاکستان کے ہر حکم راں اور فیصلہ ساز نے اپنا اپنا پورا کردار ادا کیا، بالکل ایسے ہی 1998ءتا حال پوری ریاست اپنے اس قیمتی دفاعی اثاثے کی حفاظت اور دنیا میں اپنی جوہری حیثیت منوانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ بانی ایٹمی پروگرام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ’ہلالِ امتیاز‘ اور ’نشانِ امتیاز‘ سے بھی نوازا گیا۔ 11مارچ 2001ءکو ’محسن پاکستان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کا خصوصی مشیر برائے سائنس وٹیکنالوجی مقرر کیا گیا۔
ان کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر تھا، وہ 31 جنوری 2004ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ پھر چار فروری 2004ءکو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ٹیکنالوجی منتقلی کے اعتراف اور معافی کی درخواست کی، جو صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے قبول کرلی۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم اور اُس وقت کی حکم راں جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا یہ بیان قابل ذکر اور اس ساری صورت حال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ ”ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دوسری دفعہ پاکستان کو بچا لیا!“ قبل ازیں 28 جنوری 1987ءکو معروف ہندوستانی صحافی کلدیپ نیر سے انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے پاس ایٹم بم کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا، جو اس وقت کافی متنازع بھی ہوا، تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر کا یہ انٹرویو دراصل ایک حکمت عملی کا نتیجہ تھا، جس کا مقصد سرحد پر موجود ہندوستانی فوج کو پیغام دینا تھا، اس کے بعد سرحدوں پر کشیدگی میں کمی کرنے میں مدد ملی تھی۔
2006ءمیں جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان علاج کے سلسلے میں آغا خان اسپتال کراچی میں داخل تھے، تو ان کے عقیدت مندوں نے اسپتال کے باہر گل دستوں کے ڈھیر لگا دیے تھے، یہی نہیں پاکستانی عوام نے انھیں ’بانیان پاکستان‘ کے بعد سب سے زیادہ غیر متنازع اور متفقہ طور پر پسندیدہ شخصیت کا درجہ دیا ہے۔ آج ’یوم تکبیر‘ کے تاریخی موقع پر ہم محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر آج تک کے تمام سائنس دانوں اور فیصلہ سازوں کو بجا طور پر خراج تحسین پیشں کرتے ہیں، جنھوں نے بہت غیریقینی صورت حال میں بھی ہمارے دفاع کو یقینی بنایا اور ہم آج بھی ایک آزاد مملکت کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ذوالفقار بھٹو پاکستان کے جوہری قوت میں ایک ایٹم بم کے لیے خان کو اور اس کے بعد
پڑھیں:
یوم تکبیر، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے عزم کا اعادہ
یوم تکبیر، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے عزم کا اعادہ WhatsAppFacebookTwitter 0 28 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)یوم تکبیر کے موقع پر جاری کردہ اعلامیے میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے 28 مئی 1998 کو حاصل کی گئی جوہری صلاحیت کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے اس دن کو نہ صرف دفاعی خودمختاری کی علامت قرار دیا بلکہ قومی ترقی، صحت، توانائی اور زراعت میں جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے حوالے سے پاکستان کی نمایاں پیش رفت کو بھی اجاگر کیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، ملک کا معتبر جوہری ادارہ ہونے کے ناطے، فلاح عامہ کے لیے نیوکلیئر سائنس سے مستفید ہونے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی ایک مثال ملک بھر میں قائم کینسر کے 20 ہسپتالوں کا نیٹ ورک ہے، جو تشخیص و علاج کی جدید سہولیات فراہم کررہا ہے۔ لینئر ایکسلریٹر اور پیٹ سکینرز جیسی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ یہ مراکز 80 فیصد سے زائد کینسر کے مریضوں کو علاج فراہم کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اسلام آباد کا نوری کینسر ہسپتال، جدید ترین روبوٹک ریڈیو سرجری کی سائبر نائف ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمعرکہ حق، پاکستان نے ایک ہزار بھارتی فوجی مارے،وزیر ریلوے حنیف عباسی کا دعوی معرکہ حق، پاکستان نے ایک ہزار بھارتی فوجی مارے،وزیر ریلوے حنیف عباسی کا دعوی بھارت 24 کروڑ عوام کا پانی روکنا چاہتا ہے جو کبھی نہیں ہوگا، وزیراعظم پاک، بھارت جنگ بندی باعث اطمینان، خطے کے امن کو تباہ کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہوں گے،ترک صدر سہ فریقی اجلاس: صدر آذربائیجان کا پاکستان میں 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان نائب وزیراعظم اسحاق ڈار 29 تا 30 مئی ہانگ کانگ کا دورہ کریں گے امیر کے حکم کیخلاف پاکستان میں لڑنا جائز نہیں، افغان طالبان کا فتنۃ الخوارج کو انتباہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم