دنیا میں 7 نہیں 6 براعظم ہیں، برطانوی ماہر ارضیات کی تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
تمام نصابی کتب کی رو سے دنیا سات براعظم،ایشیا، افریقہ، جنوبی امریکا، شمالی امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور انٹارکٹکا پر مشتمل ہے مگر ڈربی یونیورسٹی برطانیہ کے ماہر ارضیات ڈاکٹر جارڈن فیتھین نے بذریعہ تحیق دریافت کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کی گہرائی میں واقع یورپ اور شمالی امریکا کی ارضیاتی (ٹیکٹونک)پلیٹیں اب بھی جڑی ہوئی ہیں، گو وہ رفتہ رفتہ جدا ہو رہیں۔
لہذا ڈاکٹر جارڈن کے نزدیک تکنیکی طور پر ان دونوں کو درحقیقت ایک ہی براعظم کہنا چاہیے۔یاد رہے سائنس دانوں کے مطابق 25 کروڑ سال پہلے دنیا کے سبھی موجودہ براعظم ایک عظیم الشان براعظم ’’پانگیا‘‘(Pangaea)کی صورت باہم جڑے تھے۔پھر وہ بتدریج الگ ہونے لگے۔
چھ کروڑ سال پہلے یورپ اور شمالی امریکہ کی علحیدگی کا عمل شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
برطانوی حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا اسرائیل میں داخلہ بند
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: برطانیہ کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے دو ارکانِ پارلیمنٹ کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائمن اوفر اور پیٹر پرنسلے ایک پارلیمانی وفد کے ساتھ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے دورے پر گئے تھے، جہاں وہ طبی اور ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے دونوں ارکانِ پارلیمنٹ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ خطے میں صحت عامہ کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن اسرائیلی حکومت نے انہیں اس موقع سے محروم کر دیا جو انتہائی افسوسناک رویہ ہے۔
برطانوی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی عوامی نمائندوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ لندن میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم برطانوی حکام نے اسرائیلی حکومت پر واضح کیا ہے کہ یہ اقدام دوستانہ تعلقات کے منافی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق فارن آفس منسٹر ہمیش فالکنر سمیت اعلیٰ حکام ارکانِ پارلیمنٹ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس سے قبل بھی اسرائیلی حکام نے بعض برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، جس پر برطانیہ کی سیاسی قیادت نے سخت ردعمل دیا تھا۔