تمام نصابی کتب کی رو سے دنیا سات براعظم،ایشیا، افریقہ، جنوبی امریکا، شمالی امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور انٹارکٹکا پر مشتمل ہے مگر ڈربی یونیورسٹی برطانیہ کے ماہر ارضیات ڈاکٹر جارڈن فیتھین نے بذریعہ تحیق دریافت کیا ہے کہ بحر اوقیانوس کی گہرائی میں واقع یورپ اور شمالی امریکا کی ارضیاتی (ٹیکٹونک)پلیٹیں اب بھی جڑی ہوئی ہیں، گو وہ رفتہ رفتہ جدا ہو رہیں۔

لہذا ڈاکٹر جارڈن کے نزدیک تکنیکی طور پر ان دونوں کو درحقیقت ایک ہی براعظم کہنا چاہیے۔یاد رہے سائنس دانوں کے مطابق 25 کروڑ سال پہلے دنیا کے سبھی موجودہ براعظم ایک عظیم الشان براعظم ’’پانگیا‘‘(Pangaea)کی صورت باہم جڑے تھے۔پھر وہ بتدریج الگ ہونے لگے۔

چھ کروڑ سال پہلے یورپ اور شمالی امریکہ کی علحیدگی کا عمل شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

اسلام ٹائمز: ہم نے فتح کا جشن منالیا۔ قوم کو متحد کر لیا، آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نواز دیا۔ وزیر اعظم اور صدر نے بارہا افواج پاکستان کی دلیری اور شجاعت کا اعتراف کر لیا۔ ترانے بج گئے اور اعلانات ہوگئے تو سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہمیشہ سے پاکستان کے پاس بہترین فوج اور بدترین معیشت رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں معیشت میں بہتری کی کچھ صورت نظر آئی ہے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اب بھی ہم آئی ایم ایف سے ایک بلین ڈالر کے لیے ملتمس دکھائی دیتے ہیں۔ تحریر: عمار مسعود

یہ درست ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے ایک فقید المثال عسکری فتح حاصل کی۔ ایسی فتح جس کا بھارت کو گمان بھی نہیں تھا۔ مودی جی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ایسی پاک بھارت جنگ ہوگی اور اس میں پاکستان فتح حاصل کرے گا اور پھر کانگریس ان سے لوک سبھا میں سوال کرے گی کہ مودی جی بتائیں، ہمارے کتنے طیارے مارے گئے؟ کتنے رافیل زمیں بوس ہوئے؟ کتنی دفعہ فرانس کی ٹیکنالوجی کا پاکستان نے تمسخر اڑایا تو مودی جی کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی جواب نہیں ہوگا۔

خجالت بھارتی حکومت کا طرہ امتیاز بن چکی ہے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ صلح ٹرمپ نے نہیں کروائی تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا صدر بیچ میں کود پڑتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے کہ صلح تو میں نے کروائی تھی۔ وہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وقت، دن سب کچھ یاد کروا دیتا ہے جب بھارت ٹرمپ سے ملتمس ہوا کہ خدارا جنگ بندی کراؤ ورنہ ہم تو ڈوب چلے۔

اگرچہ جھوٹ کے بل بوتے پر بھارت کے وزیر اعظم اور انکی ٹیم اس عبرتناک شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے اپنے تجزیہ کار اور بین الاقوامی مبصرین اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ نقصان بھی بھارت کا زیادہ ہوا، طیارے بھی بھارت کے زیادہ گرائے گئے، شکست بھی بھارت کے ماتھے پر لکھی گئی۔ جنگ بندی کی درخواست بھی مودی جی نے کروائی تو یہ پروپیگنڈا زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

جھوٹ کا یہ کاروبار زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ بھارت کو بدترین شکست ہوئی ہے۔  کسی نہ کسی سٹیج پر مودی جی کو یہ تسلیم کرنا ہوگا اور جس دن وہ یہ تسلیم کریں گے وہ دن ان کی حکومت کا آخری دن ہوگا۔ یہ بات مودی جی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلسل اپنے عوام کو جھانسہ دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

اب ذرا پاکستان کی طرف بھی توجہ کیجیے۔ ہم نے فتح کا جشن منالیا۔ قوم کو متحد کر لیا، آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نواز دیا۔ وزیر اعظم اور صدر نے بارہا افواج پاکستان کی دلیری اور شجاعت کا اعتراف کر لیا۔ ترانے بج گئے اور اعلانات ہوگئے تو سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ ہمیشہ سے پاکستان کے پاس بہترین فوج اور بدترین معیشت رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں معیشت میں بہتری کی کچھ صورت نظر آئی ہے مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

اب بھی ہم آئی ایم ایف سے ایک بلین ڈالر کے لیے ملتمس دکھائی دیتے ہیں۔ اب بھی آئی ایم ایف کی قسط ہمارے لیے سب سے بڑی معاشی کامیابی رہی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہماری معیشت کا سائز بہت سکڑ گیا ہے۔ ہم مائیکرو اکنامکس کی سطح پر تبدیلیاں تو کر سکے ہیں مگر غریب کے چولہے کو ابھی بھی اس مبہم  معاشی ترقی کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

ہمارے ہاں غربت آج بھی غریب کے سر پر ناچ رہی ہے۔ افلاس سے تنگ آئی ایک مخلوق اس ملک میں وجود رکھتی ہے۔ خط ناداری آئے روز اوپر جارہا ہے اور کروڑوں  لوگ اس کی زد میں آر ہے ہیں۔ بجلی کے بل، آٹے کی قیمت، پٹرول کے نرخ ہمارے پاؤں کی بیڑیاں بن چکے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ شہباز شریف اس معاملے میں اسحاق ڈار کی معاونت سے بہتر کام کر رہے ہیں مگر اب اس ملک کے عوام میں مزید انتظار کا یارا نہیں ہے۔

ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ دنیا میں عسکری اور حربی جنگ اب خال خال ہی ہوگی اور اگر ہوگی تو پاکستان اس کے لیے اتنا تیار ہے کہ اسے فتح مبین حاصل ہوگی۔ اب میدان معیشت کا ہے۔ ساری دنیا میں مقابلہ اس کا ہو رہا ہے۔ اصل دوڑ معاشی ترقی کی ہے۔ دنیا ایک دوسرے سے معاشی میدان میں سبقت لے جانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ درآمدات، برآمدات کی ایک علیحدہ جنگ چل رہی ہے۔ ٹیرف نام کا ایک اور حربی طریقہ ٹرمپ وضع کر چکا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ساری دنیا کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ جنگ کرنا کوئی مناسب بات نہیں۔ ہاں البتہ معاشی میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا بہت کام کی بات ہے۔ یہی ایک میدان ہے جس میں ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے ہوں گے۔ اب معاشی پالیسیوں کی طرف دھیان دینے کی ضروت ہے۔ اب معاشی طور پر خود کو مضبوط اور طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔ اب معیشت کے میدان میں خود کو ناقابل شکست بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہم عسکری میدان میں بھارت کو شکست دے چکے ہیں لیکن کیا یہ موقع نہیں ہے کہ اب ہم اپنی توجہ معاشی میدان کی طرف دیں اور بھارت سے سبقت لے جائیں۔

بھارت رقبے کے حوالے سے ہم سے بہت بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا سائز بھی بڑا ہے لیکن کیا معیشت کا سائز رقبے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ سنگاپور کی مثال لیں۔ چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا  ہے لیکن دنیا بھر میں بینکنگ کی دنیا کا آنکھ کا تارہ بنا ہوا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس سنگاپور سے زیادہ بہتر انسانی اور قدرتی ذرائع موجود ہیں لیکن ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ایسے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اپنی ترقی میں ہم خود ہی مانع ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مانع حمل دوا یا ممکنہ خطرہ؟ خواتین کی صحت پر نئی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • ایک بٹن دبائیں گے تو انڈیا کے ڈیم اڑ جائینگے، ڈاکٹر ثمر مبارک
  • بیرسٹر سیف کی سربراہی میں وفد کا شمالی وزیرستان کا دورہ
  • قاتل فنگس جو اندر سے انسان کو کھا جاتا ہے؛ نئی عالمی وبا کا خطرہ
  • جوہری خطے میں طبل جنگ بجانا غیر ذمہ دارانہ فعل ہے، رضوان سعید شیخ
  • ’’میرے ساتھ طوائف جیسا سلوک ہوا‘‘، برطانوی حسینہ نے بھارت کی حقیقت بیان کردی
  • رسالت مآب ﷺ ایک مدبر قائد اور جنگی امور کے ماہر بھی تھے، مقررین
  • مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
  • شراب نوشی سے لبلبے کے سرطان کا خطرہ، ڈبلیو ایچ او