یوم تکبیر پر کراچی تا خیبر عوام ایک آواز، مظاہرے اور ریلیاں
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
ایٹمی دھماکوں کے 27 سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں یوم تکبیر جوش اور خروش سے منایا جا رہا ہے۔
کراچی سے خبیر تک عوام ایک آواز ہیں، مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا ہے۔
بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کا جواب دے کر خطے میں طاقت کا توازن بحال کرنے پر وطن کے رکھوالوں کو سلام پیش کیا رہا ہے اور پرچم کشائی کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے۔
لاہور میں طلبہ و طالبات کی جانب سے ریلیاں نکالی گئی ہیں جبکہ سرگودھا میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے ریلی نکالی۔
بھارت کی مسلط کردہ جنگ میں سرخرو ہوکر نکلے ہیں: وزیراعظم
جھنگ، بہاولنگر، لودھراں، ڈی جی خان سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی تقریبات جبکہ سکھر اور خیرپور میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔
بلوچستان میں چمن، نصیرآباد، جعفرآباد اور سبی کے اسکولوں میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا جبکہ ڈیرہ بگٹی اور بولان میں ریلیاں نکالی گئیں۔
سوات میں پرچم کشائی اور واک میں بڑی تعداد میں شہریوںنے شرکت کی جبکہ آزاد کشمیر میں نکیال، سماہنی اور بھمبر میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
وادی نیلم میں ایل او سی پر یاد گار شہداء پر تقریب منعقد کی گئی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کا انعقاد کیا گیا
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔