پاکستان کی ایرانی ایٹمی پروگرام کی حمایت اور خطے کی بدلتی صورتحال
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پاکستان کے ویزاعظم، ایران کے صدر کے ساتھ کھڑے ہو کر پوری طاقت سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک جملہ نہیں، یوں لگتا ہے کہ پورا پالیسی شفٹ ہے، جس میں بہت سی چیزیں طے کر دی گئی ہیں۔ پاکستان اور ایران خطے میں دونوں ریاستوں کے خلاف برسرپیکار عناصر کے خلاف بھرپور کارروائیاں کریں گے۔ کچھ عناصر کی گرفتاریوں کی بھی اطلاعات آرہی ہیں۔ کسی زمانے میں ای سی او نامی علاقائی تعاون کی تنظیم ہوا کرتی تھی، جسکا مقصد پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان روابط کو فروغ دینا تھا۔ اب لگتا ہے کہ افغانستان اور چین کو شامل کرکے اسکو توسیع دی جا چکی ہے۔ اب طاقت کا توازن مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
خطے میں بڑی تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ ہر ملک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بڑی برق رفتاری سے کام کر رہا ہے۔ پاک بھارت جنگ نے خطے میں طاقت کے توازن میں بڑی ہل چل پیدا کی ہے اور انڈیا کی خود ساختہ برتری کے زعم پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے۔ انڈیا کا خیال تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت کے سہارے باقی تیاریوں سے ٖغافل ہوچکا ہے اور اقتصادی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ روٹی کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ الیکٹرانک وار فئر جیسے مہنگے خرچے کسی صورت نہیں کرسکتا۔ ویسے غلط اسسمنٹ غلط نتائج کی طرف لے جاتی ہے۔مودی کی ہندتوا حکومت فرعونیت کا شکار ہوچکی تھی۔ ویسے تو انہیں چاہیے تھا کہ دو ہزار انیس کی مختصر جھڑپ سے ہی عبرت پکڑتے اور جنگ کی طرف نہ آتے، مگر انہوں نے میڈیا کے زیر اثر آ کر الیکشن کو مختصر جھڑپ سے جیتنے کا پروگرام بنایا۔
حیران کن طور پر انڈین میڈیا نے پاوں پر کلہاڑی نہیں ماری بلکہ کلہاڑی پر سر مار دیا۔دنیا بھر میں انڈین میڈیا کی کریڈیبیلٹی متاثر ہوئی ہے۔ حالات اس قدر خراب تھے کہ کوئی انڈین وزیر بین الاقوامی میڈیا پر انٹرویو کے لیے تیار نہیں تھا۔ پہلی ہی جھڑپ میں چھ طیاروں کے نقصان نے رافیل کو فیل کر دیا۔ مودوی اور ہندتوا کا غرور ایک دو گھنٹے کی لڑائی میں برباد ہوگیا اور رہی سہی کسر کشمیر سے لے کر راجھستان تک پھیلے پاکستانی حملے نے پوری کر دی۔ مودی کو کہنا پڑا کہ آپ نے ہمارے اوپر ہی حملہ کر دیا؟!! خیر عرض یہ کر رہا تھا کہ جنگ سے پہلے ہی دنیا میں جاری تعلقات کی ٹوٹ پھوٹ اب مزید تیز ہوگئی ہے۔
ہمارے وزیراعظم جناب شہباز شریف صاحب ترکی، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے پر ہیں۔ یہ ترتیب بہت اہمیت کی حامل ہے اور بہت کچھ سمجھا رہی ہے۔ جان سانتر کے مطابق اسے مکمل پالیسی شفٹ قرار دینا تو بہت جلدی ہوگی، مگر بدلتے موسم کا اشارہ ضرور ہے۔ آپ جنگ کے دوران کے حالات کا مشاہدہ کریں تو اسلامی جمہوری ایران نے پاکستان کی سفارتی محاذ پر بھرپور مدد کی اور انڈیا کی جارحیت سے روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس دورے میں سعودی عرب، عرب امارات اور قطر شامل نہیں ہیں۔ آپ آگاہ ہیں کہ ایٹمی دھماکے ہوں یا اس سے پہلے بڑے واقعات ہوں، ہمیشہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی رہے ہیں۔
اب کیونکہ سعودی، اماراتی اور قطری مکمل طور پر امریکی کیمپ میں چلے گئے ہیں اور ہر طرح سے ٹرمپ کے حضور موجود ہیں، ایسے میں پاکستان جو مکمل طور پر چین کے ساتھ کھڑا ہے، ان سے دوری بنتی ہے۔ جنگ میں بھی ترکی، آذربائیجان اور چین نے عملی اور اعلانیہ مدد کا اعلان کیا۔ یہ پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی کا عکاس تھا۔ آپ دیکھیں کہ انڈیا کی صرف اسرائیل نے اعلانیہ حمایت کی، اس نے بھی پاکستان دشمنی میں اور ایک بڑے گاہک کے طور پر ہی ڈیل کیا۔ آج ہندوستان کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کو جس سفارتی تنہائی کا شکار کرنا چاہتا تھا، آج خود اسی مقام پر کھڑا ہے۔
انڈین میڈیا سے کچھ آوازیں اٹھی تھیں کہ اس جنگ میں افغانستان نے انڈیا کا ساتھ دیا ہے۔ کچھ اشارے بھی ایسے تھے، جن سے یہی پتہ چلتا تھا، جیسے اہم وزیر کا عین جنگ میں خفیہ دورہ بھارت، جے شنکر کا افغان وزیر خارجہ کو فون اور سابق افغان سفیر کا بیان کہ پنجابیوں اور انڈیا کی لڑائی ہے۔ انڈین میڈیا تو طالبان کے ذریعے پاکستان پر جنگ تک مسلط کرانے کی خبریں دے رہا تھا، مگر ان کی یہ ننھی منی خوشی بھی اس وقت دم توڑ گئی، جب چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ بیجنگ میں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سی پیک کو کابل تک بڑھانے کا اعلان کر رہے تھے اور پولیس کیڈٹس کی پاسنگ آوٹ پریڈ میں افغانستان کے امیر المومنین کا اعلان کیا جا رہا تھا کہ کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف لڑائی جہاد نہیں ہے۔ یہ گیم اس سے بھی تھوڑی آگے نکل چکی ہے۔
سنا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں نے داعش پر حملہ کرکے ان کے کافی بندے مار دیئے ہیں۔ جواباً انہوں نے شکوہ کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف ان دونوں کا کوئی اتحاد تھا، جو ٹوٹ چکا ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کے ویزاعظم، ایران کے صدر کے ساتھ کھڑے ہو کر پوری طاقت سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک جملہ نہیں، یوں لگتا ہے کہ پورا پالیسی شفٹ ہے، جس میں بہت سی چیزیں طے کر دی گئی ہیں۔ پاکستان اور ایران خطے میں دونوں ریاستوں کے خلاف برسرپیکار عناصر کے خلاف بھرپور کارروائیاں کریں گے۔ کچھ عناصر کی گرفتاریوں کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں۔ کسی زمانے میں ای سی او نامی علاقائی تعاون کی تنظیم ہوا کرتی تھی، جس کا مقصد پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان روابط کو فروغ دینا تھا۔
اب لگتا ہے کہ افغانستان اور چین کو شامل کرکے اس کو توسیع دی جا چکی ہے۔ اب طاقت کا توازن مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ہندوستان امریکی ٹرین میں سوار ہو کر اترا رہا تھا اور پاکستان اس ٹرین سے اتر رہا ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس ٹرین میں بیٹھے رہنے کی قیمت کیا ہے۔؟ اس لیے وہ انڈیا کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔بہت سے بھارتی صحافی سوال اٹھا رہے ہیں، جو امریکہ ہمیں چین کے خلاف تیار کر رہا تھا، عین وقت پر اس نے ہماری مدد کیوں نہیں کی؟!!! پہلے سفارتی زبان کی لچھہ داریوں میں چھپا کر وہی کچھ کیا جاتا تھا، جو آج ٹرمپ بھری بزم میں بار بار انڈیا کو شرمندہ کرکے کر رہا ہے۔ انڈیا کے لیے سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ اس کے درینہ دوست روس نے بھی وہی موقف اپنایا ہے، جو پاکستان چاہتا تھا۔ گیم ابھی جاری ہے اور شہباز شریف تاجکستان پہنچ رہے ہیں، جہاں بھارت کا بھارت سے باہر اکلوتا اڈا واقع ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انڈین میڈیا پاکستان اور لگتا ہے کہ انڈیا کی ایران کے کرتے ہیں کے خلاف رہا تھا رہے ہیں ہے اور کی طرف کر رہا تھا کہ رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
ایرانی جوہری پروگرام کیخلاف بے بنیاد الزامات پر تہران میں آسٹرین ناظم الامور وزارت خارجہ طلب
پرامن ایرانی جوہری پروگرام کے بارے آسٹرین انٹیلیجنس ایجنسی کی متنازعہ رپورٹ کی اشاعت پر تہران میں آسٹریا کی ناظم الامور کو آج وزارت خارجہ طلب کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ و اشتعال انگیز رپورٹ کی اشاعت پر آسٹریا کی حکومت سے باضابطہ وضاحت طلب کی گئی ہے اسلام ٹائمز۔ پرامن ایرانی جوہری پروگرام کے بارے آسٹریا کی خفیہ ایجنسی کے مبینہ دعووں پر آج تہران میں آسٹریائی سفارتخانے کی ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کیا گیا جس کے دوران بے بنیاد آسٹرین دعووں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایرانی جوہری پروگرام کے بارے شائع ہونے والی آسٹریائی انٹیلیجنس کی رپورٹ کو غیر ذمہ دارانہ و اشتعال انگیز قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اس بارے ایرانی وزارت خارجہ نے آسٹریا کی حکومت سے باضابطہ وضاحت بھی طلب کی ہے۔
ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کے مطابق اپنی متنازعہ رپورٹ میں آسٹریا کی انٹیلیجنس ایجنسی نے دعوی کیا ہے کہ ایران اپنی علاقائی طاقت کو مضبوط بنانے کے لئے فوجی جوہری پروگرام پر عمل پیرا اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ اس تنظیم نے مزید دعوی کیا کہ ایران کے پاس اُن بیلسٹک میزائلوں کا روز افزوں زرادخانہ بھی موجود ہے کہ جو طویل فاصلے تک جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
آسٹرین انٹیلیجنس ایجنسی کے سالانہ جائزے میں ان بے بنیاد دعووں کی اشاعت پر تہران میں جمہوریہ آسٹریا کے سفارتخانے کی چارج ڈی افیئرز مائیکلا پاچر کو (PACHER Michaela) ایرانی وزارت خارجہ کے سربراہ شعبہ 1 یورپ علی رضا ملاقدیمی نے وزارت خارجہ طلب اور اس دوران آسٹریائی سفارتکار کو اسلامی جمہوریہ ایران کے شدید احتجاج سے آگاہ کیا۔
قبل ازیں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسمعیل بقائی نے بھی پرامن ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے آسٹرین انٹیلیجنس ایجنسی کی جھوٹی رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے آسٹریا کی حکومت سے اس بارے باضابطہ وضاحت کا مطالبہ کیا اور تاکید کی تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دیگر ہتھیاروں کا سخت مخالف اور مغربی ایشیائی خطے کے "وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک" ہونے کے نظریئے کا بانی و اولین حامی ہے!