اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مئی 2025ء) یروشلم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت میں وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل سیاست دان بیزلیل اسموٹریچ نے جمعرات 29 مئی کو اعلان کیا کہ اسرائیل دریائے اردن کے مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آباد کاروں کی مزید 22 بستیاں تعمیر کرے گا۔

فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط پر انڈونیشیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کو تیار

فلسطینی علاقے ویسٹ بینک میں اسرائیلی آباد کاروں کی بستیوں کی اقوام متحدہ کی طرف سے اس لیے باقاعدگی سے مذمت کی جاتی ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں۔

اس کے علاوہ ان بستیوں کو، جن میں لاکھوں اسرائیلی شہری آباد ہیں، اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین دیرپا امن کے قیام کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اسرائیلی وزیر خزانہ نے کیا اعلان کیا؟

انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ ویسٹ بینک میں ان نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کا فیصلہ ملکی سکیورٹی کابینہ نے کیا۔ اسموٹریچ، جو خود بھی ایک آباد کار ہیں، نے یہ اعلان ملکی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے ساتھ مل کر کیا، جن کی وزارت ان بستیوں کے انتظام کی ذمے دار ہے۔

غزہ حملے ’ناقابل فہم‘: اسرائیل سے متعلق جرمن لہجے میں تبدیلی

اسموٹریچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''ہم نے بستیوں کی تعمیر سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے: جوڈیا اور سماریا (عربی میں السامرہ) میں 22 نئی بستیوں کی تعمیر، سماریا کے شمال میں قائم بستی کا احیاء، اور ریاست اسرائیل کے مشرقی محور کا دوبارہ مضبوط بنایا جانا۔

‘‘

اہم بات یہ ہے کہ اسموٹریچ نے جوڈیا اور سماریا کی جو جغرافیائی اصطلاحات استعمال کیں، وہ فلسطین کا قدیم توراتی نام ہے اور اسرائیل میں انتہائی کٹر سوچ کے حامل سیاسی حلقے یہ اصطلاح مغربی کنارے کے اس فلسطینی علاقے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس پر اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دور سے قبضہ کر رکھا ہے۔

’اگلا مرحلہ: خود مختاری‘

اسرائیلی وزیر خزانہ نے ایکس پر اس بارے میں اپنی پوسٹ میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سے متعلق مزید لکھا، ''اگلا مرحلہ: خود مختاری!‘‘

اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کے اس فیصلے کے بارے میں وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ اس فیصلے سے ''خطے کی شکل بدل جائے گی اور آئندہ برسوں میں (اسرائیلی) آباد کاری کے مستقبل کی تشکیل بھی ہو گی۔

‘‘

اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک بیان میں کہا کہ یہ ''ایک پوری نسل کی طرف سے ایک ہی بار کیا جانے والا فیصلہ‘‘ ہے، جس میں قائدانہ کردار اسموٹریچ اور کاٹز نے ادا کیا۔

غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی

لیکوڈ پارٹی نے ٹیلیگرام پر اپنے بیان میں مزید کہا، ''اس فیصلے میں اردن کے ساتھ مشرقی سرحد کے قریب چار نئی بستیوں کا قیام بھی شامل ہے، جو مشرق میں اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط بنانے کے عمل کا حصہ ہے اور ساتھ ہی قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے پر اسرائیل کی اسٹریٹیجک گرفت کو بھی مزید مضبوط بنائے گا۔

‘‘

لیکوڈ پارٹی نے ایک ایسا نقشہ بھی شائع کیا، جس میں پورے ویسٹ بینک میں پھیلی ہوئی ان 22 نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے مقامات دکھائے گئے ہیں۔

اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت

موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ماضی میں بھی کئی مرتبہ اس عہدے پر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی قیادت میں موجودہ کثیرالجماعتی اسرائیلی حکومت دسمبر 2022ء میں اقتدار میں آئی تھی۔

فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم، وزیر خارجہ

اس کے لیے نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی نے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل اور انتہائی کٹر یہودیوں کی الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں سمیت متعدد چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت ہے۔

غزہ کے بچوں کے سامنے ہر طرف سے فقط موت، یونیسیف

اس پس منظر میں بیزلیل اسموٹریچ نے ان بستیوں سے متعلق اعلان کرتے ہوئے اور اس فیصلے پر ممکنہ تنقید کے پیش نظر کہا، ''ہم نے کسی غیر ملکی زمین کو اپنے قبضے میں نہیں لیا، بلکہ اپنے اجداد کی میراث کو۔‘‘

فیصلے پر شدید تنقید

اسرائیلی حکومت کے اس اعلان کے بعد انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروپوں اور اسرائیلی آباد کاری کی مخالف غیر حکومتی تنظیموں نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عملی طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کر لینے کی طرف ایک اور قدم ہے، جس کی رفتار اب تیز ہو چکی ہے۔

ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے موقع پر غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ

ان گروپوں اور تنظیموں کے مطابق ویسٹ بینک کو اسرائیل میں شامل کر لینے کی اسرائیلی کوششوں میں خاص طور پر غزہ پٹی کی اس جنگ کے باعث تیزی آ چکی ہے، جو سات اکتوبر 2023ء کے اسرائیل میں حماس کے خونریز حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی۔

غزہ کے لیے نیا اسرائیلی منصوبہ ’ناقابل قبول‘، فرانس

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کے مخالف 'پیس ناؤ‘ نامی گروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''اسرائیلی حکومت اب کوئی مختلف دکھاوا بھی نہیں کرتی: مقبوضہ علاقوں کا اسرائیل میں شامل کیا جانا اور آباد کاروں کی بستیوں میں توسیع اس کا مرکزی ہدف ہے۔‘‘

اس غیر حکومتی تنظیم کے مطابق، ''اسرائیل نے جو نیا فیصلہ کیا ہے، وہ مغربی کنارے کی ڈرامائی حد تک نئی تشکیل کرے گا اور یوں وہاں اسرائیلی قبضے کو مزید تقویت ملے گی۔‘‘

ادارت: افسر اعوان، رابعہ بگٹی

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بستیوں کی تعمیر اسرائیلی حکومت اسرائیلی وزیر دائیں بازو کی ویسٹ بینک میں اسموٹریچ نے میں اسرائیل اسرائیل میں نیتن یاہو نئی یہودی اس فیصلے کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات

اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان

امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔

امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے بینک الفلاح کا مزید 50 لاکھ ڈالرعطیہ کرنے کا اعلان
  • اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت
  •  اسلام آباد: ٹریفک پولیس کا ناکوں پر لرنر پرمٹ بنا کر دینے کا اعلان
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کے قبضے کا ماڈل دہرا رہا ہے، آل پارٹیز حریت کانفرنس
  • محسن نقوی کا اسلام آباد کے دو میگا پراجیکٹس دسمبر کے اوائل میں کھولنے کا اعلان
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے