اپنے تازہ خطاب میں یمنی رہبر انقلاب نے متنبہ کیا ہے کہ فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی، مسجد اقصی کی تباہی اور اس ملک (فلسطین) کی پوری سرزمین پر قبضہ ہی قابض و سفاک صیہونی رژیم کا اصلی ہدف ہے اور حالیہ تمام شہادتیں بھی اسی مسئلے کیساتھ ہم آہنگ ہیں! اسلام ٹائمز۔ یمنی اسلامی انقلاب اور مزاحمتی تحریک انصار اللہ کے سربراہ سید عبدالملک بن بدر الدین الحوثی نے غزہ اور پورے خطے کی تازہ ترین صورتحال کے بارے اپنے تازہ خطاب کے دوران اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ 600 دن سے زائد کی انسانیت سوز جنگ کے باوجود بھی قابض و سفاک صیہونی رژیم غزہ کے عوام کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے، تاکید کی ہے کہ جب ہم فلسطینی عوام کے المیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ان مسائل کی تاریخ 77 سال پرانی ہے۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطینی لیڈی ڈاکٹر کے 9 بچوں پر "اسرائیلی حملہ" فلسطینی عوام کو درپیش المیوں میں سے صرف ایک چھوٹا سا "نمونہ" ہے، سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ سفاک اسرائیلی رژیم جان بوجھ کر رات کے آخری پہر میں فلسطینی پناہ گزینوں کو نشانہ بناتی اور اپنے "عقائد" کے مطابق ان حملوں کا مرکز بھی "بچوں" کو قرار دیتی ہے۔ اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ صہیونی ذہنیت کا اصلی مسئلہ؛ فلسطینی عوام، اور فلسطینی سرزمین پر ان کا وجود ہے، یمنی رہبر انقلاب نے کہا کہ اسی وجہ سے قابض صیہونی، مظلوم فلسطینی عوام سے "چھٹکارہ" پانے کی کوشش میں ہیں۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ "امریکہ" کی جانب سے غزہ میں "انسانی امداد کی تقسیم" ایک "جھوٹی نمائش" ہے، سربراہ انصار اللہ یمن نے کہا کہ انسانی امداد کی تقسیم کا "امریکی" منصوبہ ایک فریب و جھوٹا ڈھونگ ہے کہ جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں "بھوک" کو مزید منظم کرنا اور مزید پھیلانا ہے۔ سید عبدالملک بن بدر الدین الحوثی نے نشاندہی کی کہ اسرائیل ان اقدامات کے ذریعے بہت چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بھی لاکھوں فلسطینیوں کو جمع کر لینے کی کوشش میں ہے تاکہ وہ فلسطینی عوام کو "انتہائی کم خوراک" کے لئے انہیں طویل مدت تک انتظار میں رکھ کر اپنے مذموم سیاسی مقاصد حاصل کر سکے! انہوں نے تاکید کی کہ انسانی امداد کی تقسیم سے متعلق دشمن کا یہ مذموم طریقہ کار ایک ایسی صورت میں رائج کیا جا رہا ہے کہ جب خوراک کے حامل ہزاروں ٹرکوں کو غزہ کی پٹی میں "داخل" ہونے کی اجازت صرف اس لئے نہیں دی جا رہی تاکہ ان پر لدا تمام غذائی مواد ضرورت مندوں تک پہنچنے سے قبل ہی "گل سڑ" جائے!

انہوں نے امداد کی تقسیم کے اس طریقہ کار کو ایک ایسا "شو" قرار دیا کہ جسے بین الاقوامی رائے عامہ میں بھی "ناقابل قبول" قرار دیا جا چکا ہے اور کوئی اسے قبول تک نہیں کرتا۔ سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ ہر بین الاقوامی ادارہ کہ جو اس قسم کی انسانی امداد کی تقسیم کو انجام دیتا ہے - چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا دیگر تنظیمیں - پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس امریکی عمل نے "تمام بین الاقوامی چارٹر" اور "انسانی حقوق" پر سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے کہ غزہ کی پٹی میں غاصب صیہونی رژیم و امریکہ کی جانب سے جاری "بھوک کی انجنیئرنگ" انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے، یمنی رہبر انقلاب نے تاکید کی کہ اسرائیل، غزہ کے طبی شعبے پر بھی اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ ان تمام اقدامات کا مقصد مظلوم فلسطینی عوام کو زبردستی بے دخل کر دینا اور غزہ کی پٹی پر مکمل قبضہ جمانا ہے!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قابض و سفاک اسرائیلی رژیم مسجد اقصی کو تباہ کر ڈالنا چاہتی ہے، سید عبدالملک الحوثی نے مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی مظالم پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں بھی متعدد غیر قانونی صیہونی بستیاں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ اس اقدام کا مقصد اس علاقے میں "ناجائز قبضے" کو مزید بڑھانا ہے۔ اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ قابض صیہونی آبادکار، فلسطینیوں کے گھروں پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے دوران وہ فلسطینیوں کی زرعی محصولات تک کو جلا ڈالتے ہیں، سربراہ انصاراللہ یمن نے کہا کہ غاصب صیہونیوں کی جانب سے بیت المقدس پر قبضے کی برسی ملت اسلامیہ کی بدترین یادوں میں سے ایک ہے اور یہی وجہ ہے کہ تباہی کی اس برسی کے موقع پر مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنے مقدس مقامات کی بے توقیری کے خطرے کا احساس کرنا چاہیئے۔ رہبر انقلاب یمن نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے حالات کا از سر نو جائزہ لینا اور مسجد اقصی کے خلاف بڑھتے خطرات سے آگاہ رہنا چاہیئے کیونکہ قابض اسرائیلی رژیم اپنے معاندانہ اقدامات کے ذریعے اس مقدس مسجد کو تباہ کر ڈالنا چاہتی ہے، تاہم، قابض اسرائیلی رژیم نے بھی اس مقصد کو چھپایا نہیں بلکہ اس نے نہ صرف اس کا کھلے عام اعلان کیا ہے بلکہ اس کے حصول کے لئے مسلسل اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ مسجد اقصی پر قابض صیہونی رژیم کے روزانہ کے حملے صرف اور صرف اس مسجد کے اسلامی تشخص کو تباہ کرنے کے مقصد سے انجام پاتے ہیں، سید عبدالملک بن بدر الدین الحوثی نے مزید کہا کہ مسجد اقصی کے نیچے اور اردگرد جو کھدائی و سرنگیں "ایک حسابی انداز" میں بنائی جا رہی ہیں ان کا واحد مقصد اس مسجد کو تباہ کرنا ہے.

. جیسا کہ سرنگوں کی تعداد 27 تک جا پہنچی ہے جبکہ غاصب صہیونی اس کوشش میں ہیں کہ آخر کار کچھ نہ کچھ، اس مسجد کے منہدم ہونے کا سبب بن ہی جائے!

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انسانی امداد کی تقسیم سید عبدالملک الحوثی اسرائیلی رژیم فلسطینی عوام کرتے ہوئے کہ صیہونی رژیم رہبر انقلاب غزہ کی پٹی کو تباہ کر الحوثی نے نے کہا کہ کی جانب اس بات

پڑھیں:

اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے ایک قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔ یہ قرارداد 142 ممالک کے ووٹوں سے منظور ہوئی۔ امریکا اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ واضح رہے کہ یہ قرارداد ’’نیویارک ڈیکلریشن‘‘ پر مبنی ہے جو فرانس اور سعودی عرب نے جولائی میں تیار کی تھی اور جسے عرب لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ اس اعلامیے کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل میں نئے سرے سے جان ڈالنا ہے لیکن اس میں فلسطینی تنظیم حماس شامل نہ ہو۔ یہ ووٹنگ عالمی رہنمائوں کی 22 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات سے قبل منعقد ہوئی ہے۔ قرارداد کی تمام خلیجی عرب ریاستوں نے حمایت کی۔ قرارداد کے منظور شدہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام مشن کی تعیناتی کی حمایت کی گئی ہے۔ اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے امریکا کا کہنا تھا کہ اس سے سنجیدہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے، یہ غلط سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ امریکی سفارت کار مورگن اورٹیگس نے جنرل اسمبلی میں کہا کہ یقین رکھیے، یہ قرارداد حماس کے لیے تحفہ ہے، امن کو فروغ دینے کے بجائے اس کانفرنس نے جنگ کو طول اور حماس کو حوصلہ دیا ہے۔ اسرائیل، جو طویل عرصے سے اقوامِ متحدہ پر الزام لگاتا آیا ہے کہ اس نے 7 اکتوبر کے حملوں پر حماس کا نام لے کر مذمت نہیں کی، اس نے بھی جنرل اسمبلی کے اعلامیے کو یکطرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور ووٹ کو تماشا قرار دیا۔ قرارداد میں حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کی شدید مذمت کی گئی اور حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت چھوڑ دے، ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے، اور تمام یرغمالوںکو رہا کرے۔ واضح رہے کہ 22 ستمبر کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی 80 ویں تاسیس کے موقع پر جنرل اسمبلی میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہورہا ہے، جس کا مرکزی ایجنڈا اقوامِ متحدہ کی اسی سالہ تاریخ کا جائزہ لینا، ماضی کی کامیابیوں پر غور کرنا اور مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی مرتب کرنا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس اجلاس کے موقع پر برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، بلجیم اور دیگر ممالک باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ ادھر نیتن یاہو نے قرارداد کی منظوری پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ’’کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہیں انہوں نے فلسطینی مغربی کنارے میں نئی متنازع آباد کاری کے توسیعی منصوبے پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے متنازع توسیعی منصوبے کے تحت اسرائیلی آباد کاروں کے لیے 3400 نئے گھر بنائے جائیں گے، مقبوضہ بیت المقدس سے مغربی کنارے کا بیش تر حصہ منقطع کردیا جائے گا اور اس علاقے میں دیگر اسرائیلی آباد کاروں کی بستیوں کو ساتھ ملایا جائے گا۔ بادی النظر میں دو ریاستی حل کی قرارداد مسئلہ فلسطین کے باب میں ایک اہم پیش رفت محسوس ہو رہی ہے تاہم بنظر غائر دیکھا جائے تو جسے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین پر پیش رفت خیال کیا جارہا ہے وہ اس کے سو ا کچھ نہیں کہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر اسرائیل کو قانونی حیثیت دے دی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوامِ عالم ایک ایسا فیصلہ کرتی جو عدل و انصاف اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ ہو تا، اس فیصلے میں مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت کی جاتی مگر حق و انصاف کی راہ اپنانے اور اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کے بجائے سارا زور اس بات پر رہا کہ حماس غیر مسلح ہو جائے، اپنے ہتھیار حوالے کردے اور یرغمالیوں کو رہا کردے اور غزہ کی حکومت چھوڑ دے، سوال یہ ہے کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کا جواز کیا ہے؟ یرغمالیوں کو کس بنیاد پر رہا کیا جائے؟ عزہ پر حماس کی حکومت ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، جسے تسلیم نہیں کیا گیا، حقائق، اصول اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کر کے حماس کو بے دست و پا کرنے کی کوشش دراصل فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اسے اقوامِ متحدہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل نامی شجرِ خبیثہ کا بیج برطانیہ نے بویا، اس کی نمو کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کا فریضہ اقوامِ متحدہ نے انجام دیا اور جس کی نگہداشت امریکا اور مغربی طاقتیں کر رہی ہیں، مغربی طاقتوں کی اسی بے جا حمایت اور سرپرستی نے اسرائیل کو معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اسرائیل کی پوری تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ وہ کسی طور فلسطین کی سرزمین سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں 1947 میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیش کیا جانے والے پارٹیشن پلان ہو یا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ یا اوسلو معاہدہ، صہیونی قیادت اسرائیل کے قیام سے قبل ہی گریٹر اسرائیل کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے، اب تو خود نیتن یاہو بھی کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ گریٹر اسرائیل کے ایک تاریخی اور روحانی مشن پر ہیں اور یہ کہ وہ گریٹر اسرائیل کے وژن سے خود کو منسلک محسوس کرتے ہیں، جس میں فلسطینی ریاست کے لیے مخصوص علاقے اور موجودہ اردن اور مصر کے ممکنہ حصے شامل ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود ہی بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جبکہ قابض طاقت کے طور پر جو پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں اور جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ سب بھی غیر قانونی ہیں۔ یہ حقیقت کس سے مخفی ہے کہ 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہودی کمیونٹی کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی، جس کے بعد بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نقل مکانی میں ان کی مدد کی گئی، دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسایا گیا، فلسطینیوں کی زمینیں جبراً ضبط کر کے انہیں یہودی آباد کاری کے حوالے کیا گیا۔ اقوام عالم کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دو ریاستی حل کسی طور فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں، اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔ دنیا اگر مسئلہ فلسطین واقعتا حل کرانا چاہتی ہے تو اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور یہ کہ بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے، جس میں مسلح مزاحمت بھی شامل ہے۔ قرارداد کی منظوری سے یہ سمجھ لینا کہ یہ مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے سراسر عاقبت نااندیشی ہے، آج اگر طاقت اور قبضے کو بطور دلیل تسلیم کرلیا گیا توکمزور اقوام کے پاس جینے کا حق نہیں رہ سکے کا اور ان غیر منصفانہ اقدامات اور فیصلوں کے نتیجے میں دنیا طواف الملوکی کا منظر پیش کرے گی اور خطے میں قیامِ امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
  • اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی روز میں 64 فلسطینی شہید، درجنوں زخمی
  • مسلمان مقبوضہ مشرقی یروشلم پر اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گے،ترک صدر
  • ہم بیت المقدس پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، رجب طیب اردگان
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کا مقصد فلسطینیوں کی جبری مہاجرت ہے، اردن
  • فلسطینی عوام کے لیے تعاون، صحت کے شعبے میں معاہدہ طے
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریگا، جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد