پاکستان کا ’بین الاقوامی ثالثی تنظیم‘ کے بانی رکن کے طور پر کردار باعث فخر ہے، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی تنظیم (IOMed) کے قیام کی دستخطی تقریب میں پاکستان کی نمائندگی ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ وہ ہانگ کانگ میں منعقدہ تاریخی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، جہاں IOMed کے قیام سے متعلق کنونشن پر دستخط کیے گئے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ عوامی جمہوریہ چین کو اس سنگ میل تقریب کی میزبانی پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کو عملی جامہ پہنانے میں چین کی قیادت کا کلیدی کردار ’چینی دانشمندی‘ کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تقریب نہ صرف بین الاقوامی ثالثی اور سفارتکاری کے ایک نئے دور کا آغاز ہے بلکہ کثیرالجہتی اور ثالثی کے اصولوں پر مبنی ایک نئے عالمی ادارے کی پیدائش کی علامت بھی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ IOMed کا قیام ثالثی کے میدان میں اسی طرح غیر معمولی ہے جیسے ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک (AIIB) فنانس کے شعبے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو IOMed کے بانی رکن کے طور پر شامل ہونے پر فخر ہے۔
مزید پڑھیں: اسحاق ڈار کا ازبک وزیر خارجہ سے رابطہ، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
انہوں نے ہانگ کانگ کو تنظیم کے صدر دفتر کے طور پر منتخب کیے جانے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ شہر مشرق اور مغرب کو جوڑنے والا ایک متحرک مرکز ہے، جو اس نئی عالمی تبدیلی کی میزبانی کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان نے بین الاقوامی ثالثی مرکز (IMAC) قائم کیا ہے تاکہ تجارتی اور سرمایہ کاری تنازعات کے حل اور عدالتی عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے IOMed کے سیکرٹریٹ اور IMAC پاکستان کے درمیان تعاون پر امید ظاہر کی۔
انہوں نے کہا کہ ثالثی، سفارتکاری، مکالمہ اور بین الاقوامی تعاون عالمی امن، سلامتی اور خوشحالی کے فروغ کے لیے کلیدی ستون ہیں، اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پاسداری اس مقصد کے حصول میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
اپنے خطاب میں اسحاق ڈار نے دنیا کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج نسلِ نو کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کا خواب پہلے سے کہیں زیادہ دور محسوس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطینی علاقوں کی صورتحال، غیر ملکی قبضے اور دیرینہ تنازعات علاقائی اور عالمی امن کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔
مزید پڑھیں: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا آذربائیجان کے وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کچھ عناصر اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی انتخابی اور علاقائی بالادستی کے عزائم کے لیے دنیا کے امن کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے بھارت کی حالیہ فوجی جارحیت کو بلاجواز اور بلا اشتعال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہوئی ہے اور یہ علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ سندھ طاس معاہدے جیسے بین الاقوامی معاہدوں کو مؤخر کرکے نئی خطرناک مثالیں قائم کی جا رہی ہیں، جو انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہیں۔
اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ IOMed کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزیوں کو معمول نہیں بننے دے گی۔ انہوں نے جموں و کشمیر کو جنوبی ایشیا میں تنازعات کی بنیادی جڑ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کے فوری اور پرامن حل پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو درپیش نئے چیلنجز جغرافیائی، بین الاقوامی اور تکنیکی حدود سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں جن سے نمٹنے کے لیے نئی حکمت عملی اور جذبے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے صدر شی جن پنگ کے ’گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو‘ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام اقوام متحدہ پر مبنی امن و سلامتی کے نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: خضدار واقعہ: نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور، اسحاق ڈار
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ایک اسٹریٹجک شراکت دار اور چین کا ہر موسم کا دوست ہونے کے ناتے، چین کی کثیرالجہتی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ان کے بقول، IOMed کا قیام دنیا کو زیادہ منصفانہ، جامع اور مساوی بنانے کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ پاکستان نہ صرف IOMed کو اپنا سفارتی تجربہ فراہم کرے گا بلکہ انصاف، مکالمہ، اور عالمی مساوات کے فروغ میں بھی سرگرم کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر اس ادارے کو بااختیار بنائیں تاکہ یہ امن، انصاف، اور مساوات کے فروغ میں اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ کام کر سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار بین الاقوامی ثالثی تنظیم پاکستان چین ہانگ کانگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسحاق ڈار بین الاقوامی ثالثی تنظیم پاکستان چین ہانگ کانگ بین الاقوامی ثالثی انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ ہوئے کہا کہ کہ پاکستان کے لیے
پڑھیں:
پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟
پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحالخلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔
ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔(جاری ہے)
ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔
لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔
‘‘ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیتتجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔
جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔
‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔
سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔
لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔‘‘میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘
پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلاتعالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ادارت: مقبول ملک