آم کتنا میٹھا اور رسیلا ہے، کاٹے بغیر کیسے چیک کریں؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
اگرچہ عام طور پر ریڑھی والے آم کے میٹھا ہونے کا یقین دلانے کیلئے گاہگ کو آم کا تھوڑا حصہ کاٹ کر پیش کرتے ہیں لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ آم کو کاٹے بغیر ہی اسکی مٹھاس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
آم کی مٹھاس کا اندازہ کاٹنے سے پہلے ہی چند طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ یہاں درج ذیل چند مشہور طریقے دیے جارہے ہیں:
1) خوشبو کو چیک کریں
پکنے والا آم اپنی مٹھاس کی وجہ سے خوشبو خارج کرتا ہے۔ آم اوپری حصے سے سونگھیں، اگر خوشبو میٹھی ہو تو آم پکا ہوا اور میٹھا ہوگا۔
2) رنگ دیکھیں
ہر قسم کے آم کا رنگ مختلف ہوتا ہے مگر عموماً پکنے پر رنگ ہلکا پیلا یا نارنجی ہوجاتا ہے۔ اگر آم زیادہ سبز ہے تو یہ کچا ہو سکتا ہے۔
3) نرم دباؤ دیکھیں
پکنے والا آم تھوڑا نرم ہوتا ہے۔ اگر ہلکا دباؤ دینے پر آم تھوڑا دب جائے تو یہ اندر سے میٹھا ہو سکتا ہے۔ زیادہ سخت آم اکثر کچے ہوتے ہیں۔
4) وزن چیک کریں
میٹھے آم میں رس زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے سائز سے تھوڑا زیادہ وزنی محسوس ہوتا ہے۔ اگر آم وزن میں ہلکا محسوس ہو تو شاید یہ زیادہ میٹھا اور رسیلا نہ ہو۔
احتیاط
تاہم واضح رہے کہ مذکورہ بالا تمام طریقے صرف ایک اندازہ لگانے کے لیے ہیں۔ حتمی ذائقہ کا اندازہ آم کاٹنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے
پڑھیں:
مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے حالانکہ وہ مساوی کام کر رہی ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں خواتین کھلاڑیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا، اقوام متحدہ نے کیا حل بتایا؟
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ویمن نے ’مساوی اجرت کے عالمی دن‘ کے موقعے پر حکومتوں، آجروں اور محنت کش تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاشی ناانصافی کے خاتمے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اوسطاً خواتین کو دنیا بھر میں مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے جب کہ اقلیتی نسلی گروہوں، معذور خواتین اور مہاجر خواتین کے ساتھ یہ فرق اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: مخصوص ایام میں خواتین ایتھلیٹس کو درپیش چیلنجز: کھیل کے میدان میں ایک پوشیدہ آزمائش
اجرت یا تنخواہ کی یہ تفریق نہ صرف خواتین کی معاشی خودمختاری کو متاثر کرتی ہے بلکہ جامع اور پائیدار ترقی کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یو این ویمن نے واضح کیا ہے کہ مساوی اجرت محض ایک سماجی یا معاشی مطالبہ نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی توثیق آئی ایل او کنونشن 100 اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں کی گئی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو کم اجرت دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف معاشی امتیاز ہے بلکہ انصاف، برابری اور باہمی تعاون کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔
مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق
30 سال قبل، حکومتوں نے بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن میں مساوی اجرت کے لیے قانون سازی اور عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا جسے بعد ازاں پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
مگر اب جبکہ سنہ 2030 صرف 5 سال دور ہے یو این ویمن نے زور دیا ہے کہ رفتار بڑھائی جائے۔
حل کیا ہے؟ اقوام متحدہ کی سفارشاتیو این ویمن نے درج ذیل ٹھوس اقدامات کی تجویز دی ہے۔ ان اقدامات میں شامل ہے کہ حکومتیں مضبوط قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائیں جو اجرت میں صنفی تفریق کو ختم کریں، آجر ادارے شفاف تنخواہی نظام اپنائیں اور صنفی مساوات پر مبنی آڈٹ کرائیں، محنت کش تنظیمیں اجتماعی سودے بازی اور سماجی مکالمے کو فروغ دیں اور تحقیقاتی ادارے اور نجی شعبہ ڈیٹا شفافیت اور احتساب میں کردار ادا کریں۔
یو این ویمن، عالمی ادارہ محنت اور او ای سی ڈی کے ساتھ مل کر ’مساوی اجرت اتحاد ‘ کی قیادت کر رہا ہے جو اس عالمی مسئلے کے حل کے لیے سرکاری و نجی سطح پر شراکت داری کو فروغ دیتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ وعدے کو عمل میں بدلا جائےیو این ویمن نے عالمی رہنماؤں کو یاد دلایا ہے کہ اجرت میں برابری کی مخالفت دراصل انصاف کے اصولوں پر حملہ ہے۔
ادارے نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین جراتمندانہ اقدامات کے ساتھ اس ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ پرعزم ہوں تاکہ خواتین کو بھی وہی معاشی احترام ملے جو مردوں کو حاصل ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خواتین سے امتیازی سلوک خواتین سے ناروا سلوک خواتین کی کم اجرت خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک مرد عورت میں تفریق