فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، 2ججزکا اختلافی نوٹ
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، 2ججزکا اختلافی نوٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 30 May, 2025 سب نیوز
اسلام آ باد(سب نیوز)سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر دو ججز نے اختلافی نوٹ جاری کردیا جس میں کہا ہے کہ فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے، فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا ان کا تحریری فیصلہ سامنے آگیا ہے۔5 ججز کے اکثریتی فیصلے میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کو درست قرار دیا گیا تھا۔ اختلافی تفصیلی نوٹ 36 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں ججز نے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ دنیا میں دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں درست نہیں، یہ درست ہے کہ عام فوج داری عدالتوں میں سزا کی شرح کم ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت یا خواہش موجود نہیں ہے۔نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ مستقل طور پر نچلی عدالتوں کے فیصلوں کا عدالتی جائزہ لے رہی ہے، عدالتی مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر بریت کے فیصلے بے بنیاد سیاسی مقدمات میں آتے ہیں، ایسے فیصلے غیر پیشہ ورانہ تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ججز نے نوٹ میں کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں وفاقی، پنجاب اور بلوچستان حکومت کی طرف سے دائر کی گئیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ان حکومتوں کو فوج داری عدالتوں پر اعتماد نہیں رہا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان منتخب حکومتوں نے فوج داری عدالتوں پر اعتماد ختم کردیا ہے، ان حکومتوں نے غیر سنجیدہ، سیاسی نوعیت کے مقدمات کے حل کا بوجھ فوجی عدالتوں پر ڈال دیا ہے جو کہ ناقابل فہم ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی افسران جو فوجی عدالتوں کی صدارت کرتے ہیں وہ فوجی معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، ان افسران کے پاس عدالتی تجربہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ دیوانی مقدمات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں کو عام عدالتی نظام کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا، عام عدالتوں کے افسران عدالتی تجربے کے ساتھ ساتھ آزادی کے حامل ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے مقدمات کو سمجھنے کے بجائے اپنے مقصد کیلئے فوجی عدالتوں پر انحصار کررہی ہیں، عام فوج داری عدالتوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بغیر ثبوت افراد کو مجرم ٹھہرائیں تو منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزی ہوگی، جب استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت یا مواد نہ ہو تو فوجی عدالت سزا کیسے دے سکتی ہے؟
ججز نے لکھا کہ 9 مئی مقدمات سے متعلق کورٹ مارشل ہونے والے کچھ افراد نے بھی عدالت سے رجوع کیا، سپریم کورٹ کے 25 مارچ 2024 کے حکم نامے کے بعد سویلینز کے ٹرائل آگے بڑھے اور سزائیں سنائی گئیں، فوجی عدالتوں میں سزاں سے بہت سارے سویلینز سزا یافتہ ہیں، فوجی عدالتوں کے پاس سویلین کا ٹرائل کرنے کا دائرہ اختیار نہیں، 9 مئی مقدمات میں سویلینز کو سنائی جانے والی سزائیں اور ان کے ٹرائل کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ یہ غلط تاثر قائم ہو چکا ہے کہ اگر فوج داری عدالتیں دہشت گردی ختم نہیں کرسکتیں تو فوجی عدالتیں حل ہیں، کیا 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خطرناک دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں سنانے سے دہشت گردی ختم ہوئی؟ جواب ہے کہ قدرتی طور پر ایک فوجی افسر کا کام نہیں کہ وہ مجرمان کو سزائیں دے، فوج کا کام ملک کا دفاع ہے نہ کہ عدلیہ کے فرائض سر انجام دینا، اگر فوج عدلیہ کے فرائض سر انجام دینے لگی تو لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہے گا، یہ درست قرار دیا گیا کہ فوجی عدالتوں میں بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس، الیکشن کمیشن نے تحریری گزارشات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس، الیکشن کمیشن نے تحریری گزارشات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں ایتھوپیا اور پاکستان کے درمیان اعلی تعلیم کے شعبے میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیرصدارت اجلاس ،مویشی منڈیوں، سکیورٹی کے اقدامات اور صفائی کے مناسب انتظامات پر تبادلہ خیال وزیرداخلہ محسن نقوی کا عید الاضحی کے موقع پر ایکسپریس وے پر قائم بکر منڈی کا دورہ، پارکنگ کے لئے ایریا مختص اور فی... سی ای او آئیسکو محمد نعیم جان نے فیڈرز، ٹرانسفارمرز اور صارفین کی انفرادی شکایات کے ازالے میں تاخیر کا نوٹس لے لیا پارلیمنٹ میں جعلی بھرتیاں کرنے والا ملازم بے نقاب ، معطل ، اسپیکر نے معاملہ ایف آئی اے کو بھجوا دیا، جعلی لیٹر سمیت...
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: فوج داری عدالتوں فوجی عدالتوں عدالتوں میں اختلافی نوٹ میں کہا گیا نوٹ میں کہا عدالتوں پر سپریم کورٹ گیا ہے
پڑھیں:
’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلان کیا کہ نادار افراد کو عدلیہ کے تمام درجوں پر ریاستی خرچ پر قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس کے تحت ریاست غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی، جو 50 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔
کیا یہ نیا اقدام ہے؟نظام عدل سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ کوئی نیا اقدام نہیں کیونکہ پاکستان میں فری لیگل ایڈ کا نظام پہلے سے موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ طویل عرصے سے اعلانات کے ذریعے توجہ تو حاصل کرتی آئی ہے لیکن عملی اقدامات کی کمی کی وجہ سے عام شہریوں، خواہ وہ صاحبِ حیثیت ہوں یا نادار، کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ریٹائرڈ جسٹس شاہد جمیل کا کہنا ہے، ''افتخار چوہدری کے دور سے عدالتیں خبروں میں آنے کے فن میں ماہر ہو چکی ہیں لیکن عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
(جاری ہے)
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ فری لیگل ایڈ سیلز ہر جگہ موجود ہیں اور ٹرائل کورٹس کے ججوں کو اختیار ہے کہ وہ نادار افراد کے لیے وکیل مقرر کریں، جو وہ کرتے بھی ہیں، ''میں ہائی کورٹ بار کا ممبر رہا ہوں اور وہاں بھی غریب افراد کے لیے امدادی فنڈ موجود ہے۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے فیصلوں اور اعلانات پر مؤثر عمل درآمد ضروری ہے، جو پاکستان میں طویل عرصے سے مفقود ہے۔
یہ عنصر کسی بھی فیصلے کو اخبارات کی سرخیوں تک تو لے جاتا ہے لیکن عام عوام کے لیے عملی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ قابلِ ذکر ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے حلف اٹھانے کے بعد تمام کمرہ عدالتوں کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ بھی تاحال مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔سپریم کورٹ میں چون ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا: وجوہات کیا ہیں؟
شاہد جمیل کے مطابق، ''دلکش اعلانات سرخیاں تو بنوا سکتے ہیں لیکن ایک باقاعدہ نظام کے قیام کے بغیر عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اس کے لیے پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہے کیونکہ عدالتیں ایک حد سے آگے قانون سازی یا فنڈز مختص نہیں کر سکتیں۔‘‘ امید کی کرن یا قبل از وقت تنقید؟تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمل درآمد پر تنقید قبل از وقت ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں، ''اگرچہ غریب افراد کے لیے قانونی معاونت کا نظام پہلے سے موجود ہے لیکن چیف جسٹس کی جانب سے اس عزم کو دہرانا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش ایک خوش آئند قدم ہے۔
‘‘ بے بنیاد مقدمات کے خاتمے کا چیلنجپاکستان میں یہ عمومی تاثر ہے کہ عدالتوں میں بڑی تعداد میں غیر سنجیدہ اور بے بنیاد مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ اگر کسی غریب فرد کے خلاف ایسا مقدمہ دائر ہو، تو ریاست کو اس کے لیے وکیل کی فیس ادا کرنا ہو گی۔ وکلاء برادری کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ ریاست کو غریب افراد کی قانونی مدد جاری رکھنی چاہیے اور چیف جسٹس کا یہ اقدام درست سمت میں ہے۔
تاہم بے بنیاد مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو خود کوئی مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔معروف قانون دان فاروق ایچ نائیک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی۔ بے بنیاد مقدمات کے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ ایک ایسا قانون بنائے، جس کے تحت مقدمہ دائر کرنے والے کو مدعا علیہ کے عدالتی اخراجات کا کچھ حصہ پیشگی جمع کرانا لازم ہو۔
اگر مقدمہ سچا ثابت ہو تو جمع شدہ رقم واپس کر دی جائے اور ہارنے والے کو اخراجات ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ وکیل کی عدم دستیابی ہی واحد رکاوٹ نہیںقانونی ماہرین مجموعی طور پر چیف جسٹس کے اقدام سے اختلاف نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ وکیل کی عدم دستیابی ہی انصاف کی راہ میں واحد رکاوٹ نہیں۔ سن 2024 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال کے ذمہ دار صرف جج نہیں بلکہ وکلاء کا کردار بھی اہم ہے۔ وہ مختلف حربوں سے مقدمات کو طول دیتے ہیں، خصوصاً وہ وکلاء، جو ''جعلی مقدمات‘‘ لڑتے ہیں اور فیصلے سے زیادہ مدعی کو تھکا کر اس کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔
جسٹس (ر) شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی اصل توجہ نچلی عدالتوں پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا، ''سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے وکلاء کو پابند کرے، جو پیشی پر حاضر نہیں ہوتے کہ وہ دوسرے فریق کے اخراجات ادا کریں، کیونکہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں وکیل بغیر بھاری مالی جرمانے کے عدالت سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا۔‘‘ان کے بقول یہ اقدام فوری انصاف کی فراہمی کے لیے سب سے ضروری ہے۔
ادارت: امتیاز احمد