WE News:
2025-07-25@00:13:06 GMT

بچے کے دل کی دھڑکن ابھی باقی ہے !

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

پچھلے مضمون میں ہم نے بچے کے گرد پانی کم ہونے کی تشخیص کے عمل کے بارے میں لکھا جس میں 2 سوال پوچھے گئے تھے۔

پہلا سوال یہ تھا کہ اگر خدشہ ہو کہ بچے کے گردوں نے پانی بنایا ہی نہیں تب کیا جائے؟

اس سوال کاجواب تلاش کرنے کے لیے ایک ایسا الٹرا ساؤںڈ کروانے کی ضرورت ہے جسے anomaly scan کہا جاتا ہے۔ 22 سے 24 ہفتے کے بچے کے اعضا کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک بنے ہیں یا نہیں؟ اور یہ الٹرا ساؤنڈ ایک ایسا اسپیشلسٹ کرتا ہے جو Anomaly scan کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔

بچہ بننے کا عمل کسی فیکٹری میں بننے والے سامان کی طرح کا ہے جہاں اگر کوئی بھی چیز ٹھیک سے نہ بنے تو اسے ناکارہ سمجھ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ بچے دانی کی فیکٹری میں کئی جگہ پہ ایسے مراحل آتے ہیں جہاں بچے کے اعضا اصل حالت میں نہیں بن پاتے، ایسی صورت حال میں فطرت کا کوالٹی کنٹرول سامنے آتا ہے اور اس بچے کو اسقاط کی صورت میں ماں کے جسم سے باہر نکالنے کا بندوبست کرتا ہے۔

سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ اگر یہ تشخیص ہو جائے کہ بچہ ٹھیک نہیں بن سکا، تب انتظار کرنے کی بجائے بچہ پیدا کروا لیا جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹرز اور والدین باہمی مشاورت سے اس نتیجے پہ پہنچ جاتے ہیں کہ یہ بچہ دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا سو حمل کا دورانیہ آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں، باوجود اسکے کہ بچے کا دل دھڑک رہا ہو۔

اگر پانی کم ہونے کے بعد الٹرا ساؤنڈ گواہی دے کہ بچے کے گردے ٹھیک نہیں بنے تب سمجھ لیا جاتا ہے وہ potter syndrome کا شکار ہے۔ اس کا دل ماں کے سہارے چلتا رہے گا مگر دنیا میں آکر وہ گردوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ایسی صورت میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ماں کے حمل کو طویل کرنے کی بجائے بچے کو مصنوعی درد کے ذریعے پیداکروا لیا جائے۔ یاد رہے کہ 24 ہفتے سے کم کا بچہ اسقاط حمل میں ہی گنا جائے گا۔

اگر تشخیص اشارہ کرے کہ پانی کی تھیلی میں قبل از وقت سوراخ ہو گیا ہے، بچے کی بناوٹ میں کوئی خرابی نہیں تب ایک بڑا سوال منہ پھاڑے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟

پانی کی تھیلی میں سوراخ ہونے کے بعد سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ویجائنا کے راستے جراثیم بچے دانی میں داخل ہوں گے اور حاملہ عورت کو انفیکشن ہو جائے گی۔

انفیکشن کی جانچ کے لیے بھی میڈیکل سائنس کے پاس 2 ٹیسٹ ہیں۔ ٹیسٹ سے پہلے ہسٹری کہ حاملہ کو بخار تو نہیں ہورہا؟ یاد رکھیے کہ انفیکشن کی سب سے بڑی علامت بخار ہے۔ اگر بخار ہو جائے تو سمجھا جائے کہ جسم میں چاروں طرف جراثیم دندناتے پھر رہے ہیں۔

لیبارٹری میں پہلا CRP ہے ، ایک ایسا عنصر جو جگر سے خارج ہوتا ہے اور انفیکشن ہونے کی علامت ہے۔ CRP جتنا زیادہ ہو گا، جسم میں انفیکشن اتنی ہی زیادہ ہو گی۔

دوسرا ٹیسٹ خون کے سفید خلیوں کا ہے جو  جسم کی دفاعی فوج ہیں۔ کسی بھی انفیکشن کی صورت میں سفید خلیوں کی تعداد بڑھ جائے گی بالکل اسی طرح جیسے دشمن حملہ کرے تو فوج سرحدوں پہ پہنچ جاتی ہے۔

اگر تشخیص میں پانی کی تھیلی میں سوراخ ہونے کے ساتھ یہ پتا چلے کہ حاملہ کو بخار ہو رہا ہے اور CRP  اور سفید خلیے جسم میں زیادہ ہو چکے ہیں، تب کیا کیا جائے، خاص طور پہ اگر بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہو اور بچہ ہو بھی 20 ہفتے کا؟

ایک اصول یاد رکھیے کہ جب بھی ماں اور بچے کی زندگی کا سوال پیدا ہو، ہمیشہ ماں کی زندگی کو اولیت دی جائے گی چاہے بچہ 20 ہفتے کا ہو، 28 کا یا 32 کا۔ ماں اگر بچ جائے گی تو بچے بہت۔ لیکن بچے کو بچاتے بچاتے ماں کی زندگی کو داؤ پہ نہیں لگایا جا سکتا۔

پاکستان میں ڈاکٹرز کی اکثریت کنفیوژن کا شکار ہے۔ تشخیص ہو چکی کہ بچے کے گرد پانی نہیں ، ماں ہسٹری دے چکی کہ بخار ہو رہا ہے، لیبارٹری بتا چکی کہ CRP کافی بڑھا ہوا ہے اور سفید خلیے بھی زیادہ ہو چکے۔ اب سائنس کے مطابق یہ دو جمع دو، چار کا مسئلہ ہے لیکن جب سائنس اور اعتقاد کے درمیان کھنچی ہوئی لکیر مبہم پڑ جائے تب باقی سب سائنسی علامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے توجیہہ تراشی جاتی ہے کہ ابھی بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے سو انتظار کرنا بہتر ہے۔

انتظار؟ مگر کس بات کا؟

پانی بننے کا؟ شاید؟

مگر پانی جتنا بھی بنے گا وہ تو سوراخ سے باہر نکل جائے گا اور سوراخ بند کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔

یہاں بھی ایک مضحکہ خیز صورت حال بن جاتی ہے جس میں حاملہ کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ 4 لیٹر پانی روزانہ پئیے اور ڈرپس بھی لگوائے کہ اس سے بچے کے گرد پانی بڑھ جائے۔

شاید جسم کی فزیالوجی ڈاکٹرز کو یاد نہیں رہتی کہ منہ سے پیا ہوا پانی بچے کی تھیلی میں نہیں، حاملہ کے گردوں میں جا کر پیشاب بناتا ہے اور بچے کے گرد موجود پانی بچے کے گردے بناتے ہیں اس خون سے مدد لے کر جو آنول میں گردش کرتا ہے۔ اگر حاملہ عورت زیادہ پانی پی لے تو ایسے کیمیائی مادے فوراً خارج ہوتے ہیں جو حاملہ عورت کے جسم سے فالتو پانی فوراً باہر نکالیں تاکہ جسم میں موجود نمکیات کا توازن نہ بگڑے۔

واپس آتے ہیں انتظار کرنے کی طرف :

سوال وہیں منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ انتظار کیوں؟

شاید بچے دانی آپ ہی آپ درد زہ میں مبتلا ہو کر بچے کو باہر نکال دے .

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسا کب ہو گا؟

یہ تو پتا نہیں کہ کب ایسا ہو گا؟ شاید ایک ہفتہ؟ 2 ہفتے؟ شاید اس سے بھی زیادہ ؟

اتنی دیر میں حاملہ عورت کیا کرے جس کے جسم میں انفیکشن پھیلی ہوئی ہے؟

اسے اینٹی بایوٹکس کا استعمال کروائیں گے تاکہ انفیکشن کنٹرول ہو جائے۔

کیا انفیکشن قابو کرنے اور حمل کی مدت اس انتظار میں گزارنے سے کہ درد زہ شروع ہو جائیں، بچہ بچ جائے گا؟

نہیں … وہ تو مشکل ہے .. انفکشن زدہ بچہ اور پھر 20، 22 ہفتے عمر …

تو پھر درد زہ کا انتظار کیوں کریں؟

دیکھیے وہ بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے تو …

جی وہ تو تب بھی ٹھیک ہی ہو گی اگر درد زہ شروع ہو جائیں اور بچہ پیدا ہو جائے؟

جی درست مگر تب تو فطرت نے درد زہ شروع کروائے نا ..

تو آپ کیوں نہیں درد زہ شروع کرواتے جب حاملہ کو انفیکشن بھی ہے اور بچے کی عمر بھی انتہائی کم اور پانی بھی غائب؟

جی کیسے شروع کروائیں درد زہ ؟ابھی بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے ..

وہ تو ٹھیک ہی رہے گی کیونکہ دل صحیح بنا ہوا ہے، خرابی تو پانی کی کمی اور پھر بخار میں ہے ..

جی وہ تو ٹھیک ہے مگر ہم زندہ بچے کو کیسے پیدا کروائیں؟

کیا بچہ اس وقت زندہ نہیں ہوگا جب قدرتی درد زہ شروع ہوں گے؟

جی ہو گا مگر وہ تو جسم کا نظام ..

کیا تب بچہ پیٹ سے باہر آ کر زندہ رہے گا؟

نہیں وہ تو مشکل ہے، بچے کے پھیپھڑے 20، 22 ہفتے میں کام نہیں کرتے تو سانس نہیں آئے گی ..

تو پھر کروائیں بچے کو پیدا کہ ماں کے جسم میں انفیکشن موجود ہے اور اینٹی بایوٹکس وقتی کنٹرول ہے ..

مگر دیکھیں .. بچے کے دل کی دھڑکن ابھی ٹھیک ہے۔

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی حاملہ عورت بچے کے گرد زیادہ ہو حاملہ کو ہو جائے جائے گی ٹھیک ہے کرنے کی جاتا ہے پانی کی جاتی ہے کرتا ہے کہ بچے ہے اور کے جسم بچے کو ماں کے بچے کی

پڑھیں:

سینیٹ میں مخبر کے تحفظ اور نگرانی کیلئے کمیشن کے قیام کا بل منظور

—فائل فوٹو

مخبر کے تحفظ اور نگرانی کے لیے کمیشن کے قیام کا بل پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ نے منظور کر لیا۔

سینیٹ کے اجلاس میں منظور کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فرد، ادارہ یا ایجنسی کمیشن کے سامنے معلومات پیش کرسکتا ہے، مخبر ڈکلیئریشن دے گا کہ اس کی معلومات درست ہیں، معلومات کو دستاویزات اور مواد کے ساتھ تحریر کیا جائے گا۔

بل کے مطابق اگر مخبر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتا اور جعلی شناخت دے تو کمیشن اس کی معلومات پر ایکشن نہیں لے گا، اگر مخبر کی معلومات پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہو تو وہ نہیں لی جائے گی۔

منظور کیے گئے بل کے مطابق اگر معلومات پاکستان کے سیکیورٹی، اسٹریٹجک اور معاشی مفاد کے خلاف ہو تو وہ معلومات نہیں لی جائے گی، مخبر سے غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ تعلقات سے متعلق معلومات نہیں لی جائے گی، وہ معلومات بھی نہیں لی جائے گی جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ممنوع ہو، مخبر سے جرم پر اکسانے والی معلومات بھی نہیں لی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ وزراء اور سیکریٹریز کے ریکارڈ سے متعلق کابینہ اور کابینہ کمیٹیوں کی معلومات نہیں لی جائے گی، قانون، عدالت کی جانب سے ممنوع معلومات اور عدالت، پارلیمنٹ، اسمبلیوں کا استحقاق مجروح کرنے والی معلومات بھی نہیں لی جائے گی، تجارتی راز سے متعلق مخبر کی معلومات نہیں لی جائے گی۔

مخبر کے تحفظ اور نگرانی کے کمیشن کے قیام کا بل سینیٹ میں پیش

مخبر کے تحفظ اور نگرانی کے کمیشن کے قیام کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا۔

بل کے مطابق اس شخص سے معلومات نہیں لی جائے گی جو اس کے پاس بطور امانت ہو، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو کسی غیر ملک نے خفیہ طور پر دی ہو، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو کسی انکوائری، تحقیقات یا مجرم کے خلاف قانونی کارروائی میں رکاوٹ ڈالے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو کسی شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈالے، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اعتماد میں دی ہو، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو عوامی مفاد میں نہیں اور کسی نجی زندگی میں مداخلت ڈالے۔

سینیٹ میں منظور کیے گئے بل کے مطابق کمیشن کسی بھی شخص کو طلب کر کے اس سے حلف پر معائنہ کرے گا، کمیشن ریکارڈ، شواہد طلب کرے گا، گواہوں اور دستاویزات کا معائنہ کرے گا، پبلک ریکارڈ بھی طلب کر سکے گا، کمیشن کے مجاز افسر کے پاس مکمل معاونت حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔

بل کے مطابق کمیشن کا مجاز افسر حکومتوں، اتھارٹی، بینک، مالی ادارے سے دستاویزات اور معلومات حاصل کر سکے گا، متعلقہ افسر 60 دن کے اندر معلومات کی تصدیق کرے گا، اگر مخبر کی معلومات کی مزید تحقیقات و تفتیش درکار ہو جس سے جرم کا فوجداری مقدمہ چلے تو کمیشن وہ متعلقہ اتھارٹی کو بھجوائے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ کمیشن یقینی بنائے گا کہ مخبر کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، اگر کوئی مخبر نقصان میں ہو تو وہ کمیشن کے سامنے درخواست دے گا جو متعلقہ اتھارٹی کے سپرد کی جائے گی، مخبر کی معلومات درست ہوئی تو اسے حاصل شدہ رقم کا 20 فیصد اور تعریفی سند دی جائے گی، زیادہ مخبر ہونے پر 20 فیصد رقم برابر تقسیم ہو گی۔

سینیٹ میں منظور کردہ بل کے مطابق غلط معلومات دینے والے کو 2 سال قید اور 2 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، اس جرمانے کو اس شخص کو دیا جائے گا جس کے بارے میں مخبر نے غلط معلومات دی، مخبر کی شناخت کو اتھارٹی کے سامنے ظاہر نہیں کیا جائے گا، جو مخبر کی شناخت ظاہر کرے گا اسے 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال قید ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ میں مخبر کے تحفظ اور نگرانی کیلئے کمیشن کے قیام کا بل منظور
  • فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے سے گُڈ طالبان کا خاتمہ کیا جائے گا، علی امین گنڈاپور
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • آڈٹ رپورٹ ابتدائی مرحلے میں ہے، مکمل جانچ باقی ہے، پاور ڈویژن کا مؤقف
  • 9 مئی کیس میں بری شاہ محمود پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں؟ سلمان اکرم کا جواب سامنے آگیا
  • یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ شاہ محمودقریشی پارٹی قیادت سنبھالیں گے،سلمان اکرم راجہ 
  • کیا9مئی کیس میں بری شاہ محمود پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال سکتے ہیں؟
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی؟ ابھی کون کون سے کیسز میں ضمانت ہونا باقی ہے؟
  • کراچی، کباڑ کے بڑے گودام میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی