بچے کے دل کی دھڑکن ابھی باقی ہے !
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
پچھلے مضمون میں ہم نے بچے کے گرد پانی کم ہونے کی تشخیص کے عمل کے بارے میں لکھا جس میں 2 سوال پوچھے گئے تھے۔
پہلا سوال یہ تھا کہ اگر خدشہ ہو کہ بچے کے گردوں نے پانی بنایا ہی نہیں تب کیا جائے؟
اس سوال کاجواب تلاش کرنے کے لیے ایک ایسا الٹرا ساؤںڈ کروانے کی ضرورت ہے جسے anomaly scan کہا جاتا ہے۔ 22 سے 24 ہفتے کے بچے کے اعضا کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک بنے ہیں یا نہیں؟ اور یہ الٹرا ساؤنڈ ایک ایسا اسپیشلسٹ کرتا ہے جو Anomaly scan کرنے کی تربیت حاصل کرتا ہے۔
بچہ بننے کا عمل کسی فیکٹری میں بننے والے سامان کی طرح کا ہے جہاں اگر کوئی بھی چیز ٹھیک سے نہ بنے تو اسے ناکارہ سمجھ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ بچے دانی کی فیکٹری میں کئی جگہ پہ ایسے مراحل آتے ہیں جہاں بچے کے اعضا اصل حالت میں نہیں بن پاتے، ایسی صورت حال میں فطرت کا کوالٹی کنٹرول سامنے آتا ہے اور اس بچے کو اسقاط کی صورت میں ماں کے جسم سے باہر نکالنے کا بندوبست کرتا ہے۔
سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ اگر یہ تشخیص ہو جائے کہ بچہ ٹھیک نہیں بن سکا، تب انتظار کرنے کی بجائے بچہ پیدا کروا لیا جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹرز اور والدین باہمی مشاورت سے اس نتیجے پہ پہنچ جاتے ہیں کہ یہ بچہ دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا سو حمل کا دورانیہ آگے بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں، باوجود اسکے کہ بچے کا دل دھڑک رہا ہو۔
اگر پانی کم ہونے کے بعد الٹرا ساؤنڈ گواہی دے کہ بچے کے گردے ٹھیک نہیں بنے تب سمجھ لیا جاتا ہے وہ potter syndrome کا شکار ہے۔ اس کا دل ماں کے سہارے چلتا رہے گا مگر دنیا میں آکر وہ گردوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ایسی صورت میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ماں کے حمل کو طویل کرنے کی بجائے بچے کو مصنوعی درد کے ذریعے پیداکروا لیا جائے۔ یاد رہے کہ 24 ہفتے سے کم کا بچہ اسقاط حمل میں ہی گنا جائے گا۔
اگر تشخیص اشارہ کرے کہ پانی کی تھیلی میں قبل از وقت سوراخ ہو گیا ہے، بچے کی بناوٹ میں کوئی خرابی نہیں تب ایک بڑا سوال منہ پھاڑے آ کھڑا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟
پانی کی تھیلی میں سوراخ ہونے کے بعد سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ویجائنا کے راستے جراثیم بچے دانی میں داخل ہوں گے اور حاملہ عورت کو انفیکشن ہو جائے گی۔
انفیکشن کی جانچ کے لیے بھی میڈیکل سائنس کے پاس 2 ٹیسٹ ہیں۔ ٹیسٹ سے پہلے ہسٹری کہ حاملہ کو بخار تو نہیں ہورہا؟ یاد رکھیے کہ انفیکشن کی سب سے بڑی علامت بخار ہے۔ اگر بخار ہو جائے تو سمجھا جائے کہ جسم میں چاروں طرف جراثیم دندناتے پھر رہے ہیں۔
لیبارٹری میں پہلا CRP ہے ، ایک ایسا عنصر جو جگر سے خارج ہوتا ہے اور انفیکشن ہونے کی علامت ہے۔ CRP جتنا زیادہ ہو گا، جسم میں انفیکشن اتنی ہی زیادہ ہو گی۔
دوسرا ٹیسٹ خون کے سفید خلیوں کا ہے جو جسم کی دفاعی فوج ہیں۔ کسی بھی انفیکشن کی صورت میں سفید خلیوں کی تعداد بڑھ جائے گی بالکل اسی طرح جیسے دشمن حملہ کرے تو فوج سرحدوں پہ پہنچ جاتی ہے۔
اگر تشخیص میں پانی کی تھیلی میں سوراخ ہونے کے ساتھ یہ پتا چلے کہ حاملہ کو بخار ہو رہا ہے اور CRP اور سفید خلیے جسم میں زیادہ ہو چکے ہیں، تب کیا کیا جائے، خاص طور پہ اگر بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہو اور بچہ ہو بھی 20 ہفتے کا؟
ایک اصول یاد رکھیے کہ جب بھی ماں اور بچے کی زندگی کا سوال پیدا ہو، ہمیشہ ماں کی زندگی کو اولیت دی جائے گی چاہے بچہ 20 ہفتے کا ہو، 28 کا یا 32 کا۔ ماں اگر بچ جائے گی تو بچے بہت۔ لیکن بچے کو بچاتے بچاتے ماں کی زندگی کو داؤ پہ نہیں لگایا جا سکتا۔
پاکستان میں ڈاکٹرز کی اکثریت کنفیوژن کا شکار ہے۔ تشخیص ہو چکی کہ بچے کے گرد پانی نہیں ، ماں ہسٹری دے چکی کہ بخار ہو رہا ہے، لیبارٹری بتا چکی کہ CRP کافی بڑھا ہوا ہے اور سفید خلیے بھی زیادہ ہو چکے۔ اب سائنس کے مطابق یہ دو جمع دو، چار کا مسئلہ ہے لیکن جب سائنس اور اعتقاد کے درمیان کھنچی ہوئی لکیر مبہم پڑ جائے تب باقی سب سائنسی علامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے توجیہہ تراشی جاتی ہے کہ ابھی بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے سو انتظار کرنا بہتر ہے۔
انتظار؟ مگر کس بات کا؟
پانی بننے کا؟ شاید؟
مگر پانی جتنا بھی بنے گا وہ تو سوراخ سے باہر نکل جائے گا اور سوراخ بند کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔
یہاں بھی ایک مضحکہ خیز صورت حال بن جاتی ہے جس میں حاملہ کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ 4 لیٹر پانی روزانہ پئیے اور ڈرپس بھی لگوائے کہ اس سے بچے کے گرد پانی بڑھ جائے۔
شاید جسم کی فزیالوجی ڈاکٹرز کو یاد نہیں رہتی کہ منہ سے پیا ہوا پانی بچے کی تھیلی میں نہیں، حاملہ کے گردوں میں جا کر پیشاب بناتا ہے اور بچے کے گرد موجود پانی بچے کے گردے بناتے ہیں اس خون سے مدد لے کر جو آنول میں گردش کرتا ہے۔ اگر حاملہ عورت زیادہ پانی پی لے تو ایسے کیمیائی مادے فوراً خارج ہوتے ہیں جو حاملہ عورت کے جسم سے فالتو پانی فوراً باہر نکالیں تاکہ جسم میں موجود نمکیات کا توازن نہ بگڑے۔
واپس آتے ہیں انتظار کرنے کی طرف :
سوال وہیں منہ پھاڑے کھڑا ہے کہ انتظار کیوں؟
شاید بچے دانی آپ ہی آپ درد زہ میں مبتلا ہو کر بچے کو باہر نکال دے .
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسا کب ہو گا؟
یہ تو پتا نہیں کہ کب ایسا ہو گا؟ شاید ایک ہفتہ؟ 2 ہفتے؟ شاید اس سے بھی زیادہ ؟
اتنی دیر میں حاملہ عورت کیا کرے جس کے جسم میں انفیکشن پھیلی ہوئی ہے؟
اسے اینٹی بایوٹکس کا استعمال کروائیں گے تاکہ انفیکشن کنٹرول ہو جائے۔
کیا انفیکشن قابو کرنے اور حمل کی مدت اس انتظار میں گزارنے سے کہ درد زہ شروع ہو جائیں، بچہ بچ جائے گا؟
نہیں … وہ تو مشکل ہے .. انفکشن زدہ بچہ اور پھر 20، 22 ہفتے عمر …
تو پھر درد زہ کا انتظار کیوں کریں؟
دیکھیے وہ بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے تو …
جی وہ تو تب بھی ٹھیک ہی ہو گی اگر درد زہ شروع ہو جائیں اور بچہ پیدا ہو جائے؟
جی درست مگر تب تو فطرت نے درد زہ شروع کروائے نا ..
تو آپ کیوں نہیں درد زہ شروع کرواتے جب حاملہ کو انفیکشن بھی ہے اور بچے کی عمر بھی انتہائی کم اور پانی بھی غائب؟
جی کیسے شروع کروائیں درد زہ ؟ابھی بچے کے دل کی دھڑکن ٹھیک ہے ..
وہ تو ٹھیک ہی رہے گی کیونکہ دل صحیح بنا ہوا ہے، خرابی تو پانی کی کمی اور پھر بخار میں ہے ..
جی وہ تو ٹھیک ہے مگر ہم زندہ بچے کو کیسے پیدا کروائیں؟
کیا بچہ اس وقت زندہ نہیں ہوگا جب قدرتی درد زہ شروع ہوں گے؟
جی ہو گا مگر وہ تو جسم کا نظام ..
کیا تب بچہ پیٹ سے باہر آ کر زندہ رہے گا؟
نہیں وہ تو مشکل ہے، بچے کے پھیپھڑے 20، 22 ہفتے میں کام نہیں کرتے تو سانس نہیں آئے گی ..
تو پھر کروائیں بچے کو پیدا کہ ماں کے جسم میں انفیکشن موجود ہے اور اینٹی بایوٹکس وقتی کنٹرول ہے ..
مگر دیکھیں .. بچے کے دل کی دھڑکن ابھی ٹھیک ہے۔
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی حاملہ عورت بچے کے گرد زیادہ ہو حاملہ کو ہو جائے جائے گی ٹھیک ہے کرنے کی جاتا ہے پانی کی جاتی ہے کرتا ہے کہ بچے ہے اور کے جسم بچے کو ماں کے بچے کی
پڑھیں:
ایک دن، ایک سانس اور ایک دل کی دھڑکن: کینسر میں مبتلا اداکارہ انجلین ملک کی جذباتی پوسٹ
کینسر میں مبتلا پاکستانی اداکارہ و پروڈیوسر انجلین ملک نے اپنی صحت سے متعلق جذباتی پوسٹ شیئر کی۔اداکارہ انجلین ملک کینسر میں مبتلا ہیں اور وہ اپنی صحت سے اپنے مداحوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی فراہم کرتی رہتی ہیں۔اداکارہ نے اب اپنی چھٹی کیموتھراپی مکمل ہونے پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے لکھا کہ 6 کیموتھراپیز مکمل ہوچکی ہیں، اس موقع پر اپنے اس سفر کا مختصر حصہ شیئر کر رہی ہوں۔انجلین ملک نے لکھا کہ کیمو تھراپی کوئی مذاق نہیں ہے لیکن میں یہاں موجود ہوں اور کینسر کیخلاف جنگ لڑ رہی ہوں۔اداکارہ نے مزید لکھا کہ ایک دن، ایک سانس اور ایک دل کی دھڑکن، میرے لیے یہ ہی طاقت ہے اور یہ میں ہوں۔انجلین ملک کی اس ویڈیو کے بعد ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کی جانب سے جلد صحتیابی کیلئے دعائیں اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا جارہا ہے۔
View this post on InstagramA post shared by Angeline Malik (@angelinemalikofficial)