غزہ میں 100 فیصد آبادی کو قحط کا خطرہ، فلسطینی بھوک سے قریب المرگ ہوگئے
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
غزہ کی پٹی اس وقت دنیا کی وہ واحد جگہ بن چکی ہے جہاں بھوک اپنی انتہائی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اقوام متحدہ نے ایک ہوش رُبا بیان میں بتایا ہے کہ اس علاقے کی پوری کی پوری آبادی قحط کے خطرے کی زد میں ہے، یعنی یہاں بسنے والے ہر فرد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو تقریباً 20 ماہ گزر چکے ہیں، اور اس دوران امن قائم کرنے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہو چکی ہیں۔ مارچ میں دوبارہ شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں نے چھ ہفتوں کی محدود جنگ بندی کو بھی توڑ ڈالا، جس کے بعد حالات مزید سنگین ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے ادارے (اوچا) کے ترجمان جینز لارکے نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ غزہ کرۂ ارض پر واحد خطہ ہے جہاں پورا معاشرہ بھوک کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں 100 فیصد آبادی کو قحط لاحق ہونے کا خطرہ ہے، اور اسرائیلی حکام کی طرف سے حالات کی بہتری کے دعوے زمینی حقیقت کے برعکس ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل نے 2 مارچ کو لگائی گئی مکمل امدادی ناکہ بندی کو جزوی طور پر ختم کیا ہے، تاہم اس کے باوجود غذائی اجناس اور ادویات کی قلت بدستور قائم ہے۔ اسرائیلی حکومت کا مؤقف ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں تاکہ اسرائیل کو بدنام کیا جا سکے۔ جنیوا میں اسرائیل کے سفیر ڈینیئل میرون نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ اقوام متحدہ دراصل حماس کو خوراک فراہم کرتا ہے اور اسرائیل کے اقدامات کو نظرانداز کرتا ہے۔
اس سب کے باوجود، زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ لارکے کے مطابق، اسرائیل نے اب تک 900 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی، مگر صرف 600 ٹرک ہی سرحد پر پہنچ سکے ہیں۔ ان میں سے بھی کچھ ہی ٹرکوں کی امداد مستحق افراد تک پہنچ پائی، کیونکہ سیکیورٹی اور بدانتظامی اس عمل میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جیسے ہی امدادی ٹرک غزہ کے اندر داخل ہوتے ہیں، متاثرین کی بھیڑ ان پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ یہ لوگ دراصل وہی امداد واپس لے رہے ہوتے ہیں جو ان کے لیے بھیجی گئی ہے، لیکن افسوس کہ وہ اس طریقے سے نہیں پہنچائی جا رہی جس طرح ہونا چاہیے۔
مئی میں امریکا اور اسرائیل کی مدد سے قائم کی گئی ’’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ اس وقت امداد کی تقسیم میں مصروف ہے، لیکن اقوام متحدہ کے مطابق یہ نظام غیر مؤثر ہے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے مزید افراتفری پیدا کر رہا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کو بائی پاس کر کے امداد کا متبادل نظام متعارف کرائے جانے کے بعد منگل کے روز ہزاروں فلسطینی ایک امریکی امدادی مرکز پر جا پہنچے۔ اس منظر نے یہ بات اور بھی واضح کر دی کہ جب لوگوں کو خود جا کر امداد حاصل کرنی پڑتی ہے، تو وہ راستے میں لٹیروں اور خطرات کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔
یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غزہ میں انسانی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، اور اگر فوری، منظم اور غیر جانبدار انسانی امداد فراہم نہ کی گئی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ اور اس
پڑھیں:
آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہیگنز نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اور وہ ممالک جو اسے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں انھیں غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اقوام متحدہ سے خارج کر دینا چاہیے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آئرلینڈ کے صدر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے آزاد ماہرین کی حالیہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آزاد ماہرین نے شواہد پیش کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔
آئرلینڈ کے صدر نے اسی رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں کی رکنیت ختم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کیے جائیں جو ہمارے ہم جیسے انسانوں پر یہ مظالم ڈھا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت نے غزہ شہر میں ٹینک اور زمینی فوج تعینات کر دی ہے۔