Daily Ausaf:
2025-11-03@10:43:20 GMT

مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

دنیاکے سیاسی افق پرکچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کے ہرموڑپرآزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں۔جنوبی ایشیاانہی سرزمینوں میں سے ایک ہے،جہاں سرحدیں فقط جغرافیے کی لکیرنہیں بلکہ نظریات، عقائد اوراحساسات کی خونچکاں تاریخ کا استعارہ بن چکی ہیں۔ ایسے میں جب ایک ریاست کامتعصب اور شدت پسند سربراہ، جس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن بھی ہے اور اقتدارکازعم بھی،اپنے سیاسی جلسے میں کروڑوں پاکستانیوں کے ’’گولی سے اڑادینے‘‘کی کھلی دھمکی دے،توسوال صرف اخلاقیات یاسفارت کانہیں رہتا بلکہ یہ انسانی تہذیب کے اجتماعی شعور،بین الاقوامی قوانین، اورعالمی اداروں کی بقاکاسوال بن جاتاہے۔
مودی کایہ حالیہ بیان،جوگجرات کی زمین پرگونجا،محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنون کااظہارہے ایک ایسا جنون جواپنی ہی تاریخ کے آئینے میں شرمندہ نظر آتا ہے،مگر اپنے آس پاس کے دشمنوں پرللکارکے ذریعے خودکوزندہ رکھنے کی کوشش کرتاہے مگر یہ للکاراب ہنسی میں نہیں اڑائی جاسکتی،کیونکہ یہ اس خطے میں بسنے والے دوایٹمی طاقتوں کے کروڑوں انسانوں کے مستقبل کوجھونکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
مودی کی دھمکی نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی ہے بلکہ ایک ایسے ذہنی پس منظرکوآشکارکیاہےجوخطے میں امن کے امکانات کوزائل کرنے میں مصروف ہے۔یہ دھمکی،جو اخلاقیات اورانسانی حقوق کے اصولوں کے برعکس ہے، نہ صرف ایک جنگی جنون کی علامت ہےبلکہ اس سے بھارت کی داخلی سیاسی صورتِ حال کابھی پتہ چلتاہےجس میں جارحیت کوسیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بیان،جوانسانی اقدارکےمنافی ہے،ایک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتاہےجوجارحیت اورتفرقہ اندازی میں یقین رکھتا ہے، اورجوخطے کی سلامتی واستحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔
دراصل مودی کاحالیہ بیان ،شکست خوردہ ضمیراس مکاری کے سفرکی طرف لے گیاجہاں وہ ووٹوں کے لئے بڑھکیں مارکردجل وفریب سے کام لے رہاتھاکیونکہ ایک عالم جان چکاہے کہ دردیارِہند،جہاں غرورِقوم پرستی کاشعلہ ایوانوں میں بلندہوتاہے اوردہلی کے ایوانِ اقتدار میں تکبر،جاہ ومنصب کالباس پہنے بیٹھاہے،وہاں رافیل نامی وہ پرندے،جن پرخزان ملت کے خزف وگوہرلٹائےگئے،طیارہ تقدیرکے دوش پر پاکستان کے جواں ہمت صاعقہ برداروں کے سامنے خاک وخون میں گِر گئے۔جب رافیل کی شکست پر فرانس کی کمپنی نے تین پرندوں کی ہلاکت کااقرار کیا ، تودہلی کی فصیلِ غرورپرایساسناٹاطاری ہوا، گویا آگرہ کے قلعہ لال پرسیاہ پرچم لہرانہیں بلکہ آنسوبہارہاہو۔وہی ایئرمارشل اے کے بھارتی، جن کے بیانات سے پیشتر بادل گرجتے تھے،اب کہنے لگےکہ’’جنگ میں نقصان معمول ہے‘‘گویاشکست کوسبکی میں ملفوف کرکےپیش کیاجائے،اورخون کےرسنے کولفظوں کےرومال سےچھپایاجائے مگر تاریخ کی نگاہ تیزہے،وہ زخم دیکھ لیتی ہے،وہ چیخ سن لیتی ہے۔
پاکستانی شاہین،جن کی پروازپاک سرزمین کے افق تک محدودرہی،مگرجن کے فولادی تیردشمن کی فضائوں کوکاٹتے ہوئے عبرت کانشان بنے،محض عسکری چابک دستی نہ تھے، بلکہ پاک وچین کے باہمی تدبرکا مجسمہ بنے۔اس معرکہ کی جیت،پاکستان کی ہمت سے زیادہ، چین کی تجارتی حکمت اورعسکری فن کاغیراعلانیہ اعلان تھی۔
دراصل مودی کے شعلہ اگلتے ہوئے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب سیزفائرکی راکھ میں چینی حکمت نے ایک چنگاری رکھی جب بھارت کی توجہ مغرب میں پاکستان پرتھی،بیجنگ نے مشرق میں اروناچل پردیش کے مقامات کےنام،چینی وتبتی زبان میں بدل کریہ پیغام دیا کہ’’نقشے فقط کاغذپرنہیں بنتے،وہ ذہنوں،دعووں اورقوتِ ارادہ میں نقش ہوتےہیں‘‘۔یہ تبدیلی فقط زبان کی تکرارنہ تھی،بلکہ زمین کی ملکیت کاادبی اعلان تھااورجب بھارت نے مشرق کی جانب نظرکی،تووہاں پہاڑوں کے نام بدلےجاچکے تھے،وادیاں بیگانہ ہوچکی تھیں، اورنقشہ،اس کااپنانہ رہاتھا۔
بھارت کی تینوں سمتوں پرتین دیواریں چین، پاکستان،نیپال تناؤکی تین چٹانیں،جن میں ہندوستان ایک فریب زدہ خواب کی مانند محصورہو چکاہے۔ نیپال،چھوٹاسہی،مگراس کی خودداری نے بھارتی غرور کےقلعے میں دراڑیں ڈال دیں۔ پاکستان،جواب صرف فوجی نہیں بلکہ فکری قوت بھی ہے اورچین،جس کی طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ تمدنی بھی ہے۔ یہ ایسے ہے،جیسے ایک کمزورپروانہ تین شیروں کی کمین گاہوں میں جاگرے،اور سمجھے کہ یہ رات کابادل ہے،جس سے سلامت گزرجائے گا۔بس یہی شکست خوردہ مودی کی حالت ہوچکی ہے۔مودی کے اس بیان کاپس منظرایک نہایت پیچیدہ اورکشیدہ خطے میں ہے،جہاں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں، سرحدی کشیدگی اورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کی تباہی،پاکستان کی عسکری حکمت عملی اورپاک چین تعاون کی بدولت، بھارت کی عسکری اورسیاسی حالت کوایک نئے سنگ میل پرلے گئی ہے۔
مودی کی دھمکی اسی تناظرمیں سامنے آئی ہے،جہاں ایک طرف بھارت نے سرتاج کی طرح اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش میں بری طرح منہ کی کھائی ہے اور جہاں عالمی طورپرشرمندگی کاسامناکرناپڑاہے وہاں دوسری طرف،بھارت کی داخلی اورخارجی پالیسیوں میں شدیدالجھن اورعدم استحکام کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔مودی کے اس جارحانہ بیان کاپس منظرایک ایسے خطے میں ہےجہاں کشیدگی عروج پرہے اورحالیہ دنوں میں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں اورمیزائلوں کی بازگشت سنی گئی ہے۔ بھارت کی جانب سےاس دوران عام طورپرایک خاموشی کامظاہرہ اس لئےکیاگیاکہ مودی کو پاکستان کی طرف سے ایسے جواب کاقطعی اندازہ ہی نہیں تھامگرمودی کی اس تازہ تقریرنےاس خاموشی کی نقاب کشائی کردی ہے اوربے لاگ جارحانہ بیانیہ سامنے لا دیا ہے ۔یہ تضاد،خاموشی اوردھمکی کےدرمیان،بین الاقوامی سیاست میں ایک پراناالمیہ ہے ۔ کیاخاموشی واقعی فتح کی علامت ہےیایہ شکست کاپردہ ہے؟
عالمی سیاست میں خاموشی کواکثرحکمت اور صبرکی علامت سمجھاجاتاہے،لیکن تاریخ اس بات کابھی درس دیتی ہے کہ حکمت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ بروقت ہو، مناسب ہواورمثبت نتائج دے۔اگردشمن تمہاری حدودمیں گھس آئے اورتم زبان سے بھی جواب نہ دے سکوتویہ خاموشی حکمت نہیں،بزدلی کے سواکچھ نہیں۔مودی کے بیان سے قبل،بھارت نے چینی فوج کی سرحدی پیش قدمیوں کے سامنے توہمیشہ خاموشی اختیار کی ، جوحکمتِ عملی کی بجائے خوف اور غیریقینی کی علامت تھی۔اس کے برعکس،پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیوں اورسفارتی حکمت عملیوں سے خطے میں اپنامقام مستحکم کیا جبکہ چین نے اپنے جغرافیائی دعوؤں کوعملی جامہ پہناکرخطے کی سیاست میں نئی جہتیں پیداکیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہاسکھایاہے کہ حکمت صرف تب ہوتی ہے جب وقت کی نزاکت کوسمجھ کرجواب دیاجائے،اوروہ جواب فتح کی جانب لےجائے۔ سفارتی خاموشی کواکثرطاقت کی علامت تصورکیاجاتا ہے،لیکن جب یہ خاموشی دشمن کے سامنے گھبراہٹ اور نااہلی کی شکل اختیارکرلے توپھریہ بہادری کے بجائے بزدلی کے سواکچھ نہیں۔بھارت کی جانب سے چین کی سرحدی پیش قدمیوں اورسرحدپارداخلوں پرجوردعمل نظرآیا،وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس خاموشی کےپیچھے کمزوری اورحکمت کی کمی ہےجبکہ پاکستان کے خلاف ہر وقت جارحانہ بیانات دینے والے بھارتی میڈیااورعسکری حلقے چین کے خلاف مکمل طورپرخاموش ہیں، جوان کے فکری الجھن اورحکمت کی کمی کوظاہرکرتاہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کے نہیں بلکہ بھارت کی کی علامت مودی کی کی جانب مودی کے بھی ہے ہے اور

پڑھیں:

افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف

سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا ہے کہ طورخم بارڈر غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی بیدخلی کیلئے کھولا گیا ہے۔ کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی۔ بیدخلی کا عمل جاری رہنا چاہئے تاکہ اس بہانے دوبارہ نہ ٹک سکیں۔ اس وقت ہر چیز معطل ہے۔ ویزا پراسس بھی بند ہے۔ جب تک گفت و شنید مکمل نہیں ہو جاتی یہ پراسس معطل رہے گا۔ افغان باشندوں کا معاملہ پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر آیا۔ ترکیہ اور قطر خوش اسلوبی سے ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلے تو غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ افغانستان تسلیم نہیں کرتا تھا۔ افغانستان کا مؤقف تھا کہ غیرقانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ پاکستان کا ہے۔ اب اس کی بین الاقوامی سطح پر اونرشپ سامنے آ گئی۔ سیز فائر کی خلاف ورزی ہم تو نہیں کر رہے افغانستان کر رہا ہے۔ اس ثالثی میں چاروں ملکوں کے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے گفتگو کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ساری قوم خصوصاً خیبر پی کے کے عوام میں سخت غصہ ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے خیبر پی کے صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ حل صرف واحد ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی بند ہو۔ اگر دونوں ریاستیں سویلائزڈ تعلقات بہتر رکھ سکتے تو یہ قابل ترجیح ہو گا۔ بھارت کے پراکسی وار کے ثبوت کی اگر ضرورت پڑی تو دیں گے۔ بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ مشرقی محاذ پر تو بھارت کو جوتے پڑے ہیں۔ مودی تو چپ ہی کر گیا ہے۔ اس محاذ پر پرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کی ثالثی کے مثبت نتائج آئیں گے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے ترجمان افغان طالبان کے گمراہ کن بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی پر تمام پاکستانی متفق ہیں۔ اس اتفاق رائے میں پاکستان کی قوم‘ سیاسی اور فوجی قیادت شامل ہے۔ افغان طالبان بھارتی پراکسیز کے ذریعے دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ طالبان حکومت اندرونی دھڑے بندی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ خواتین‘ بچوں اور اقلیتوں پر جبر افغان طالبان کا اصل چہرہ ہے۔ طالبان چار برس بعد بھی عالمی وعدے پورے نہ کر سکے اور بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی امن کیلئے ہے۔ پاکستان سرحد پار دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ 
پشاور (نوائے وقت رپورٹ) طورخم بارڈر سے 20 روز بعد غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کی واپسی شروع ہو گئی۔ تاہم طورخم سرحد تجارت اور پیدل آمدورفت کیلئے بدستور بند رہے گی۔ ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر بلال شاہد نے کہا ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ کو ملک میں غیر قانونی رہائش پذیر افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ سینکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے جنہیں امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انہیں افغانستان جانے کی اجازت دیدی گئی۔ دوسری طرف چمن بارڈر سے ایک روز میں 10 ہزار 700 افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھجوایا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان آئیڈل کا جج بننے پر تنقید، فواد خان نے بھی خاموشی توڑدی
  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • 7 طیارے گرانے کے دعوے پر مودی کی خاموشی، دعوے کی تصدیق کرتی ہے، کانگریس
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • افغانستان ثالثی کے بہتر نتائج کی امید، مودی جوتے کھا کر چپ: خواجہ آصف
  • افغان طالبان کے جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، دہشتگردی کیخلاف اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان دوسرے ٹی ٹوئنٹی سے قبل بین آسٹن کی یاد میں خاموشی