خالد خورشید کی کارکنوں کو ایم ڈبلیو ایم کی تکریم شہداء کانفرنس میں بھرپور شرکت کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
ایک پیغام میں خالد خورشید کا کہنا تھا کہ کل 1 جون 2025ء بروز اتوار کو ایم ڈبلیو ایم کا سکردو میں جلسہ ہے، پاکستان تحریک انصاف کے تمام ورکرز بلخصوص سکردو میں موجود پی ٹی آئی کارکنان بھرپور شرکت کریں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان و صوبائی صدر پی ٹی آئی خالد خورشید نے پی ٹی آئی کارکنوں کو کل ایم ڈبلیو ایم کے جلسے میں بھرپور شرکت کی ہدایت کر دی۔ ایک پیغام میں خالد خورشید کا کہنا تھا کہ کل 1 جون 2025ء بروز اتوار کو ایم ڈبلیو ایم کا سکردو میں جلسہ ہے، پاکستان تحریک انصاف کے تمام ورکرز بلخصوص سکردو میں موجود پی ٹی آئی کارکنان بھرپور شرکت کریں۔ یاد رہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام اتوار کے روز سکردو یادگار شہداء پر تکریم شہداء کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے اس سالانہ ایونٹ میں اہم مذہبی و سیاسی شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایم ڈبلیو ایم خالد خورشید بھرپور شرکت پی ٹی آئی
پڑھیں:
سرزمین شہداء، ڈیرہ اسماعیل خان، اندوہناک سانحہ کی 17ویں برسی
اسلام ٹائمز: سید توقیر زیدی کے مطابق میں نے دوستوں سے مل کر دو زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈالا۔ اس سانحہ میں میرے استاد جمیل بھی شہید ہوگئے تھے، ہمت کی کہ اُستاد محترم کی میت اٹھاوں، ایک مومن ایمبولینس کے اندر گیا اور جمیل احمد استاد کی میت کو میری طرف کیا، میں نے اُٹھانے کی کوشش کی، مگر ٹانگیں اندر سے ٹوٹ چکی تھیں، زندگی میں ایسا درد مولاء کسی شاگرد کو نہ دکھائے۔ رپورٹ: سید عدیل عباس
ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ خیبر پختونخوا کی وہ سرزمین ہے کہ جہاں شعیان حیدر کرار کا خون صرف اور صرف اس لئے بے دردی سے بہایا گیا کہ وہ نبی کریم (ص) اور ان کی پاک آل کے نام لیوا اور ان کے عاشق ہیں۔ تکفیریوں نے یہاں اہل تشیع کو کبھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا تو کبھی بم دھماکے کئے، جنازوں میں خودکش حملے کئے تو کبھی ہینڈ گرنیڈوں سے امام بارگاہوں پر حملہ آور ہوئے۔ اسی قسم کا ایک سانحہ آج سے ٹھیک 17 سال قبل 20 نومبر 2008ء کو پیش آیا، جب ڈیرہ اسماعیل خان میں تکفیری دہشت گردوں نے پہلے صدر بازار میں سید شاہد اقبال نامی شیعہ شہری کو اس وقت فائرنگ کرکے شہید کر دیا، جب وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے کے بعد گھر جا رہا تھا۔ شاہد اقبال کی شہادت کے بعد اگلے دن یعنی 21 نومبر کو اُس کی نماز جنازہ اور تدفین تھی۔ یہاں قارئین کیلئے واضح ہو کہ سرزمین ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ وہ دور تھا کہ جب کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے کسی بے گناہ شہری کا خون ناحق نہ بہایا جاتا ہو۔
سید شاہد اقبال کے جنازے سے ایک گھٹنہ قبل محلہ حیات اللہ میں تکفیری دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے امام بارگاہ بی بی مہتاب کے متولی مولانا نذیر حسین کو بے دردی سے شہید جبکہ گوہر عباس نامی شہری کو زخمی کر دیا۔ شہید کا جنازہ کوٹلی امام حسینؑ لے جایا جا رہا تھا کہ ڈائیو بس ٹرمنینل کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ شاہد حسین کا قتل اور پھر جنازے پر دھماکا عین اس وقت ہوا، جب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی ریڈ الرٹ تھی، کیونکہ اسی سال یعنی 19 اگست 2008ء کو سول ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں زیدی سادات خاندان کو ایک خودکش حملے میں بری طرح نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں 35 افراد شہید ہوئے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان شہر "مقبوضہ ڈیرہ" بن چکا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ ہر طرف پولیس، سکیورٹی فورسز، گشت، ناکہ بندیاں تھیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق شاہد اقبال کے جنازے میں بھی دہشت گردوں نے بڑے جانی نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی۔
مقامی ذرائع کے مطابق جب جنازہ کوٹلی امام حسینؑ لایا جا رہا تھا تو جنازے کے آگے پولیس اور بی ڈی اسکواڈ برائے نام چیکنگ کر رہا تھا۔ مگر ڈائیو بس ٹرمینل کے قریب پہنچ کر یہ سب کچھ کیوں رک گیا اور پولیس نفری ڈائیو بس ٹرمینل جلدی جلدی کراس کیوں کیا، یہ چند اقدامات ڈیرہ پولیس کی ریڈ الرٹ سکیورٹی پر نہ صرف سوالیہ نشان تھے بلکہ پولیس کی وردی میں چھپے ناسوروں کے دشت گردوں سے تعلقات کی نشاندہی بھی کرتے تھے۔ جب بس ٹرمینل کے قریب جنازے کے شرکاء پہنچے تو دھماکا ہوگیا، اس دھماکے میں 10 افراد شہید جبکہ 50 سے زائد زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے عینی شاہد سید توقیر زیدی کا کہنا ہے کہ عین دھماکے کے وقت میں جنازے کے پیچھے چند گز کے فاصلے پر پیدل چل رہا تھا، جیسے ہی دھماکا ہوا ہر طرف "نعرہ حیدری، لبیک یاحسینؑ" کی صدائیں فضا میں بلند ہونے لگیں۔ دھماکے کی وجہ سے ہر طرف مٹی کا غبار اور بارود کی بو تھی۔ فوراً زخمیوں اور شہداء کو اٹھایا، اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی۔
سید توقیر زیدی کے مطابق میں نے دوستوں سے مل کر دو زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈالا۔ اس سانحہ میں میرے استاد جمیل بھی شہید ہوگئے تھے، ہمت کی کہ اُستاد محترم کی میت اٹھاوں، ایک مومن ایمبولینس کے اندر گیا اور جمیل احمد استاد کی میت کو میری طرف کیا، میں نے اُٹھانے کی کوشش کی، مگر ٹانگیں اندر سے ٹوٹ چکی تھیں، زندگی میں ایسا درد مولاء کسی شاگرد کو نہ دکھائے۔ جمیل احمد میرے روحانی باپ و اُستاد ہی نہیں، ایک بہترین دوست بھی تھے۔ یزیدی نسل اور ان کی تربیت کرنے والوں نے سوچا تھا کہ مومینن کو شہید کرکے عزاداری سیدالشہداء کو روک لیں گے، مگر یہ ان کی بھول اور خام خیالی ہے کہ ذکر حسینؑ ہماری شہ رگ حیات ہے۔ میرا یزید کی نسل اور ان کی تربیت کرنے والے اور سہولیات فراہم کرنے والوں کے لئے پیغام ہے کہ تمہاری جد "72 کو تو مٹا نہ سکی، اب کروڑوں کو کیا مٹاؤ گے۔؟"