بچوں کی نفسیات پر پرتشدد گیمزکے منفی اثرات
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
بچوں کی نفسیات ایک نازک اور پیچیدہ مرحلہ ہے جو اُن کی ذہنی، جذباتی، اور سماجی نشوونما کا احاطہ کرتا ہے۔ بچپن وہ دور ہے جب شخصیت کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں اور یہ بنیادیں اردگرد کے ماحول،گھرکے رویوں، اسکول کے تجربات اور میڈیا کے اثرات سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے اور اُس کی نفسیاتی ضروریات بھی مختلف ہو سکتی ہیں۔ کچھ بچے نرم دل اور حساس ہوتے ہیں، جب کہ کچھ زیادہ سرگرم اور تجسس پسند ہوتے ہیں۔
جدید دور میں بچوں کی نفسیات پر ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بچوں کا رجحان، روایتی کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کے بجائے اسکرینزکی جانب ہوچکا ہے۔ اسکرین پر نظر آنے والے مناظر، آوازیں اور تیز تر تبدیلیاں اُن کی توجہ اور جذبات کو متاثرکرتی ہیں، اگر یہ مواد مناسب نہ ہو تو بچے اضطراب، جارحیت یا الگ تھلگ رہنے جیسی علامات ظاہرکرنے لگتے ہیں۔ اس لیے بچوں کی نفسیات کا مطالعہ کرنا اور اس کے مطابق رہنمائی فراہم کرنا والدین، اساتذہ اور سماج کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
آج کے بچے یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور دیگر وڈیو پلیٹ فارمز پر مختلف اقسام کے وڈیوگیمز دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان میں فری فائر، پب جی،کال آف ڈیوٹی، ماین کرافٹ اور روبلوکس جیسے گیمز شامل ہیں۔ ان گیمز میں مار دھاڑ، تیز حرکات، سازشوں اور بعض اوقات خوفناک مناظر شامل ہوتے ہیں۔ بچے انھیں تفریح اور سسپنس کے امتزاج کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کی نفسیات پر مضر اثرات پڑنے لگتے ہیں۔
بچے نہ صرف گیم کھیلتے ہیں بلکہ دوسرے یوٹیوبرز یا گیمرز کے گیم پلے دیکھنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ وڈیوز اکثر تفریحی انداز میں بنائی جاتی ہیں، جن میں جوشیلے تبصرے، چیخ و پکار اور غیر ضروری مزاح ہوتا ہے۔ کچھ گیمرز ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو بچوں کے لیے نامناسب ہوتے ہیں، لیکن چونکہ یہ وڈیوز پرکشش اور رنگین انداز میں پیش کی جاتی ہیں، اس لیے بچے بار بار انھیں دیکھتے ہیں اور لاشعوری طور پر وہی رویے اپنانے لگتے ہیں۔
تشدد، خوف، مقابلہ بازی اور فتح کی خواہش بچوں میں مصنوعی ذہنی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ مار دھاڑ پر مبنی گیمز کو دیکھ کر بچوں میں جارحانہ رویہ، بے صبری اور جذباتی عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ حقیقی زندگی میں بھی ہر مسئلے کو طاقت یا چالاکی سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مسلسل اسکرین کے سامنے رہنے سے ان کی تخلیقی صلاحیت، جسمانی صحت اور نیند کے نظام پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ گیمز بعض اوقات بچوں کو خود سے الگ کر دیتے ہیں۔ وہ خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے تنہائی میں اسکرین پر مشغول رہتے ہیں۔ جذباتی بندھن کمزور ہونے لگتے ہیں اور بچے خاموش، ضدی یا بے حس بننے لگتے ہیں۔ بعض گیمز میں مسخ شدہ حقیقت دکھائی جاتی ہے، جس سے بچے دنیا کے بارے میں غلط تاثر قائم کرتے ہیں۔ یہ اثرات اگر بروقت نہ سمجھے جائیں تو بچے کی ذہنی صحت پرگہرا منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
بچے گیمز اس لیے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ اُن کے لیے دلچسپ، تیز رفتار اور پرکشش ہوتے ہیں۔ ان میں رنگ، آواز اور حرکت کی ایسی کشش ہوتی ہے جو بچے کی توجہ فوراً کھینچ لیتی ہے۔ بعض گیمز میں ایڈونچر، مشن مکمل کرنے کا چیلنج یا کامیابی کی خوشی بچوں کو جذباتی طور پر متحرک کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، جب بچے اپنے ہم عمر دوستوں کوگیمز کھیلتے یا دیکھتے ہیں، تو وہ بھی اس تجربے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ بچے اکثر حقیقت سے فرار چاہتے ہیں، خاص طور پر اگر گھرکا ماحول تناؤ کا شکار ہو یا انھیں مناسب توجہ نہ ملے۔ تب وہ گیمز کی دنیا کو اپنی پناہ گاہ سمجھنے لگتے ہیں۔ انھیں ان گیمز میں وہ توجہ،کامیابی، اور اختیار محسوس ہوتا ہے جو حقیقی زندگی میں کمیاب ہوتا ہے۔ اس جذباتی لگاؤ کو سمجھنا نہایت اہم ہے تاکہ بچوں کو گیمزکی مثبت اور منفی اثر کا شعور دیا جا سکے۔
والدین کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ڈیجیٹل استعمال پر نظر رکھیں اور اُن کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کریں، اگر بچے گیمز دیکھ رہے ہیں تو والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں، کیوں دیکھ رہے ہیں اورکتنا وقت صرف کر رہے ہیں۔ صرف تنبیہ یا پابندی لگانے کے بجائے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اُن کی دلچسپیوں کو سمجھنا اور دوستانہ انداز میں رہنمائی دینا زیادہ مؤثر طریقہ ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے متبادل سرگرمیاں مہیا کریں، جیسے کہ کتابیں، جسمانی کھیل، فنون لطیفہ یا فیملی گیمز۔ بچوں کو صرف روکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک ان کے پاس کوئی صحت مند متبادل نہ ہو۔ اس کے علاوہ، والدین کو خود بھی اسکرین کے استعمال میں اعتدال رکھنا چاہیے تاکہ بچے عملی مثال سے سیکھیں۔ بچوں کو وقت دینا، اُن کی بات سننا اور اُن کے جذبات کو تسلیم کرنا، اُن کی نفسیاتی بہتری کی طرف خوش آیند پیش رفت ہے۔
اساتذہ کو بچوں کی نفسیات کا ادراک ہونا چاہیے، خاص طور پر موجودہ ڈیجیٹل دور میں، وہ صرف تعلیم دینے تک محدود نہیں بلکہ ایک رول ماڈل بھی ہوتے ہیں، اگر بچے اسکول میں تھکے ہوئے، چڑچڑے یا غیر متوجہ نظر آئیں تو اساتذہ کو اُن کے رویے کے پیچھے چھپی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
کلاس میں ایسی سرگرمیاں شامل کی جائیں جو بچوں کو اسکرین سے ہٹ کر حقیقی دنیا سے جوڑیں، جیسے ڈرامہ، آرٹ یا گروپ ڈسکشن۔ اساتذہ، والدین کے ساتھ رابطے میں رہیں اور بچوں کے رویوں میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کریں۔ جب اسکول اورگھر ایک ساتھ کام کرتے ہیں تو بچے زیادہ محفوظ اور سمجھدار محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اساتذہ بچوں کو سکھا سکتے ہیں کہ تفریح اور تعلیم میں توازن کیسے قائم رکھا جائے۔ ان کی رہنمائی بچوں کو بہتر فیصلہ سازی اور خود اعتمادی کے راستے پرگامزن کر سکتی ہے۔
کاؤنسلنگ بچوں کی نفسیاتی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسکولوں میں ماہرکاؤنسلرزکی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اگر کوئی بچہ ذہنی دباؤ، تنہائی یا کسی اور نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے، تو بروقت اس کی مدد کی جا سکے۔ کاؤنسلنگ بچوں کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے، خود کو سمجھنے اور اپنی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔
والدین اور اساتذہ کے لیے بھی کاؤنسلنگ اہم ہے تاکہ وہ بچوں سے مؤثر طور پر بات چیت کر سکیں۔ بعض اوقات بچے اپنے مسائل خود بیان نہیں کرتے، لیکن ماہر نفسیات ان کے رویے سے اشارے حاصل کر کے اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ کاؤنسلنگ کے ذریعے نہ صرف مسائل کا علاج ممکن ہے بلکہ احتیاطی تدابیر بھی سکھائی جا سکتی ہیں۔ یہ عمل بچوں کو ایک محفوظ اور متوازن ذہنی فضا مہیا کرتا ہے۔
بچوں کی نفسیات ایک نازک اورگہرے شعورکا تقاضا کرتی ہے۔ گیمز اور ڈیجیٹل مواد کے مثبت اور منفی اثرات دونوں پہلو رکھتے ہیں، لیکن ان کا اصل اثر بچے کے ذہنی پس منظر، تربیت اور اردگرد کے ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔ صرف ٹیکنالوجی کو الزام دینا کافی نہیں، بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بچوں کی نفسیات اس کے علاوہ دیکھتے ہیں کرتے ہیں گیمز میں منفی اثر ہوتے ہیں کرتی ہے بچوں کو کے ساتھ بچوں کے رہے ہیں ہوتا ہے ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
18 سال سے کم عمر شادی کی ممانعت کا بل قانون بن گیا: صدر نے دستخط کر دیئے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) صدر مملکت آصف علی زرداری نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کردئیے۔ قانون کے مطابق نکاح خواں کوئی ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا جہاں ایک یا دونوں فریق 18 سال سے کم عمر ہوں۔ خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو 1 سال قید اور 1 لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ 18 سال سے بڑی عمر کا مرد اگر کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے 3 سال تک قید بامشقت ہوگی جبکہ والدین بچے کی کم عمری میں شادی کریں یا اسے روکنے میں ناکام رہیں تو 3 سال تک قید بامشقت اور جرمانہ ہوگا۔ قانون کے مطابق عدالت کو علم ہو کہ کم عمر بچوں کی شادی کی جارہی ہے تو وہ ایسی شادی کو روکنے کیلئے حکم جاری کرے گی۔ عدالت کو اطلاع دینے والا فریق اپنی شناخت چھپانا چاہے تو عدالت اسے تحفظ دے گی۔ واضح رہے کہ بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی جبکہ سینٹ میں شیری رحمان نے پیش کیا تھا۔