روشن اور تاریک پہلو (آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
ایسے لوگ جان لیں کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ سورۃ الطلاق میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں بتایا ہے جنھوں نے اللہ کے احکام کو نہیں مانا اور اپنی من مانی کی۔
’’ اورکتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا اور انھیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، چنانچہ انھوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا اور ان کے اعمال کا آخری انجام نقصان ہی نقصان ہوا۔‘‘
اللہ تعالیٰ آیت نمبر 10(مع تفسیر) میں فرماتے ہیں ’’ اور آخرت میں ہم نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا اے عقل والو! جو ایمان لے آئے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ نے تمہارے پاس ایک سراپا نصیحت بھیجی ہے، یعنی وہ رسول جو تمہارے سامنے روشنی دینے والی اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اللہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں جنتی لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق طے کردیا ہے۔‘‘
آج ہمارا معاشرہ برائیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کچھ تو لوگوں کی اپنی جہالت ہے اور رہی سہی کسر چینلز نے پوری کر دی ہے، بہن اور سالیوں کے پاکیزہ رشتوں کے تقدس کے علاوہ ساس، سسر کا رشتہ بھی بہو کے لیے قابل احترام ہے، گویا وہ ان کی بیٹی کی ہی طرح اہمیت رکھتی ہے، اور سسر یا دیور کی بری نگاہ دین و دنیا میں تباہی کے مترادف ہے۔
کتنے ہی ڈرامے ایسے نشر ہو چکے ہیں اور مزید یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ وہ دور چل رہا ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کو یکسر بھلا دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ معصوم بچیاں اور بیٹیاں اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ ہونے والے بچے اجازت لیتے رہے ہیں، اللہ اسی طرح تمہارے سامنے آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔
بیٹے ہوں یا بیٹیاں ایک خاص فاصلہ اپنے والدین سے ضروری ہے، لیکن زمانہ شیرخواری سے بچپن یعنی دس،گیارہ سال تک وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک ساتھ بستر پر لیٹ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت بھی نہ کریں ان کی عزت و احترام ان کے ذاتی کام کرنا فرض ہے کہ اللہ اپنی اس آیت کے ذریعے احساس دلاتا ہے کہ جس طرح انھوں نے تمہیں بچپن میں پالا پوسا تھا اور ان کے سارے کام کیے تھے جب تم ایک گوشت کے لوتھڑے کی مانند تھے۔ بے شمار اولادیں ایسی بھی لائق فائق ہیں جو اپنے بیمار والدین کے لیے خدمت گار نہیں رکھتے ہیں بلکہ سارے کام انجام دے کر اپنے لیے جنت کی راہیں ہموار کر لیتے ہیں۔
ٹی وی پروگراموں کے کردار ’’عدت‘‘ پوری کرنے سے مبرا نظر آتے ہیں اور یہ ہی حال ہمارے معاشرے کا ہے شوہر کے انتقال یا طلاق کے بعد عدت کے احکام پر عمل کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا ہے، ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا ہے وہ بن سنور کر شادی بیاہ میں ایسے شرکت کرتی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے، جانوروں کے مرنے پر بھی لوگ دکھی ہو جاتے ہیں اور کئی ہفتوں غم میں گزارتے ہیں۔
چونکہ پالتو جانوروں سے محبت فطری بات ہے، اب بھلا شوہر کا کتے، بلی یا دوسرے جانور، ان سے کیا مقابلہ؟ دکھی ہونا تو دور کی بات ہے غم اور محرومی کا اظہار بھی انھیں بے مقصد نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بات تمام بیواؤں اور مطلقہ خواتین کے لیے لاگو نہیں ہوتی ہے، بے چاری بے شمار خواتین تو شوہر سے جدائی کے بعد اس کی یاد میں بسر کرتی ہیں اور دوسری شادی کرنا، یا دنیا کے رسم و رواج، شادی بیاہ اور تہواروں میں خوشی منانا اپنے لیے شجر ممنوعہ سمجھ لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس طریقے کو پسند نہیں فرمایا ہے۔ ہر کام اعتدال اور اخلاق وتہذیب کے دائرے میں ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ایسے ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں کہ الامان۔ حاضرین اور اینکر پرسن اور ناظرین سب ہی لطف اٹھاتے ہیں، گفتگو میں تہذیب نہیں، لباس مغربی طرز کا، دوپٹہ تو عرصہ دراز سے غائب ہو چکا، جو کبھی ایک شانے پر جھول رہا ہوتا تھا، اب اس کی بھی چھٹی۔ اگر کہا جائے کہ لباس سے کچھ نہیں ہوتا ہے، ہم دل سے مسلمان ہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں یہ نہیں فرماتا کہ علی الحیاوالایمان۔
یعنی ’’حیا‘‘ ایمان کا حصہ ہے اور اپنی زینت کو چھپاؤ، زمین پر اکڑ کر نہ چلو، ایسے زیور نہ پہنو، جو بجتے ہوں۔ شادیوں کے معاملے میں بھی لڑکیاں اپنی من مانی کرتی نظر آتی ہیں، اچھے اچھے رشتوں کو ٹھکرا کر والدین کو شرمندہ اور دکھ سے ہمکنار کرتی ہیں، اپنے والدین سے ہم کلام ہوتے ہوئے ذرہ برابر لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی ایسی ہی تیز ترار لڑکیاں سامنے آئی ہیں، وہ جو چاہتی ہیں کرتی ہیں وہ والدین کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں۔ آج کی اولادوں نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لیا ہے اور ان کا یہ عمل انھیں نیکی اور شرافت سے دور بہت دور لے جاتا ہے چونکہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی عذاب کا باعث ہوتی ہے۔
جب سے اسمارٹ موبائل آئے ہیں مزید تباہی کے در وا ہوئے ہیں۔ حکومت اگر اپنے ملک اور اپنی رعایا سے مخلص ہے تب وہ ان حالات پر نہ صرف یہ کہ توجہ دے بلکہ تدارک بھی کرے، ایسا کرنا اپنے ملک کو استحکام بخشنا ہے انھی نوجوانوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے خاندان کی حفاظت کرنا ہے بلکہ برائی کی جڑوں کو کاٹنا ناگزیر ہے۔ ملک ایسے ہی پھلتے پھولتے اور خوشحال نہیں ہوتے ہیں جب تک کہ حکومت اور اس کی رعایا مل جل کر کام نہ کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنے والدین اللہ تعالی کرتی ہیں ہیں اور اور ان کے لیے ہے اور
پڑھیں:
حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمان نے سود کے خاتمے کے حوالے سے کہا کہ جے یوآئی نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردارکرایا اور مزید 22 نکات پرمزید تجاویزدیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی اورآئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستورمیں شامل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے خبردارکیا کہ اگر حکومت اپنے وعدے پرعمل نہ کرتی تو عدالت جانے کے لیے تیاررہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہوجائے گی، اورآئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پرعمل درآمد لازمی ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش ہوتی تھیں لیکن اب بحث ہو گی۔ بلوچستان میں دہرے قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں۔ اور معاشرے میں قانون سازی اقدار کے مطابق ہونی چاہیے۔
پاک بھارت جنگ سے متعلق انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف 4 گھنٹے میں جیت حاصل کی۔ اور لڑائی میں بھارت کو 4 گھنٹےمیں لپیٹ دیا گیا۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا۔ لیکن کشمیر سے متعلق ہمارا ریاستی مؤقف واضح اور غیرمبہم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین روز اول سے حالت جنگ میں ہیں۔ اور کیا امریکہ کو اجازت ہے کسی متنازعہ علاقے میں سفارتخانہ کھولے۔ قبضہ کی گئی اراضی اسرائیل کی ملکیت نہیں۔
چندروس قبل چارسدہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا تھاہم نے آئین میں انسانی حقوق کا تحفظ کیا، ان شاء اللہ ہماری کوششوں سے پاکستان سے سود کا خاتمہ ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پختونخوا میں مذہب کی گہری جڑیں اکھاڑنے کے لئے این جی اوز کو استعمال کیا گیا، مدارس، علوم اور سیاست کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ موجودہ اسمبلیوں کی کوئی حیثیت نہیں، ایسی اسمبلیاں تو میں خود مٹی سے بنا سکتا ہوں، ہمارا صوبہ آگ میں جل رہا ہے، خیبرپختونخوا اور وفاق میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، حکومت نا اہل لوگوں کے پاس ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج سیاست کا مقصد کرسی اور اقتدار کا حصول ہے، مرضی کے انتخابات سے ہمیں ٹرخایا نہیں جاسکتا، ایسے الیکشن تو حسینہ واجد نے بھی کرائے تھے۔
Post Views: 5