Express News:
2025-06-02@06:40:45 GMT

روشن اور تاریک پہلو (آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

ایسے لوگ جان لیں کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔ سورۃ الطلاق میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں بتایا ہے جنھوں نے اللہ کے احکام کو نہیں مانا اور اپنی من مانی کی۔

’’ اورکتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا اور انھیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی، چنانچہ انھوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھا اور ان کے اعمال کا آخری انجام نقصان ہی نقصان ہوا۔‘‘

اللہ تعالیٰ آیت نمبر 10(مع تفسیر) میں فرماتے ہیں ’’ اور آخرت میں ہم نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا اے عقل والو! جو ایمان لے آئے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ نے تمہارے پاس ایک سراپا نصیحت بھیجی ہے، یعنی وہ رسول جو تمہارے سامنے روشنی دینے والی اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں اور جو شخص اللہ پر ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے اللہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں جنتی لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق طے کردیا ہے۔‘‘

آج ہمارا معاشرہ برائیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، کچھ تو لوگوں کی اپنی جہالت ہے اور رہی سہی کسر چینلز نے پوری کر دی ہے، بہن اور سالیوں کے پاکیزہ رشتوں کے تقدس کے علاوہ ساس، سسر کا رشتہ بھی بہو کے لیے قابل احترام ہے، گویا وہ ان کی بیٹی کی ہی طرح اہمیت رکھتی ہے، اور سسر یا دیور کی بری نگاہ دین و دنیا میں تباہی کے مترادف ہے۔

کتنے ہی ڈرامے ایسے نشر ہو چکے ہیں اور مزید یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ وہ دور چل رہا ہے، جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کو یکسر بھلا دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ معصوم بچیاں اور بیٹیاں اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ ہونے والے بچے اجازت لیتے رہے ہیں، اللہ اسی طرح تمہارے سامنے آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔

بیٹے ہوں یا بیٹیاں ایک خاص فاصلہ اپنے والدین سے ضروری ہے، لیکن زمانہ شیرخواری سے بچپن یعنی دس،گیارہ سال تک وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک ساتھ بستر پر لیٹ بیٹھ سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کی خدمت بھی نہ کریں ان کی عزت و احترام ان کے ذاتی کام کرنا فرض ہے کہ اللہ اپنی اس آیت کے ذریعے احساس دلاتا ہے کہ جس طرح انھوں نے تمہیں بچپن میں پالا پوسا تھا اور ان کے سارے کام کیے تھے جب تم ایک گوشت کے لوتھڑے کی مانند تھے۔ بے شمار اولادیں ایسی بھی لائق فائق ہیں جو اپنے بیمار والدین کے لیے خدمت گار نہیں رکھتے ہیں بلکہ سارے کام انجام دے کر اپنے لیے جنت کی راہیں ہموار کر لیتے ہیں۔

ٹی وی پروگراموں کے کردار ’’عدت‘‘ پوری کرنے سے مبرا نظر آتے ہیں اور یہ ہی حال ہمارے معاشرے کا ہے شوہر کے انتقال یا طلاق کے بعد عدت کے احکام پر عمل کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا ہے، ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا ہے وہ بن سنور کر شادی بیاہ میں ایسے شرکت کرتی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے، جانوروں کے مرنے پر بھی لوگ دکھی ہو جاتے ہیں اور کئی ہفتوں غم میں گزارتے ہیں۔ 

چونکہ پالتو جانوروں سے محبت فطری بات ہے، اب بھلا شوہر کا کتے، بلی یا دوسرے جانور، ان سے کیا مقابلہ؟ دکھی ہونا تو دور کی بات ہے غم اور محرومی کا اظہار بھی انھیں بے مقصد نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بات تمام بیواؤں اور مطلقہ خواتین کے لیے لاگو نہیں ہوتی ہے، بے چاری بے شمار خواتین تو شوہر سے جدائی کے بعد اس کی یاد میں بسر کرتی ہیں اور دوسری شادی کرنا، یا دنیا کے رسم و رواج، شادی بیاہ اور تہواروں میں خوشی منانا اپنے لیے شجر ممنوعہ سمجھ لیتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس طریقے کو پسند نہیں فرمایا ہے۔ ہر کام اعتدال اور اخلاق وتہذیب کے دائرے میں ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 ایسے ایسے پروگرام دکھائے جاتے ہیں کہ الامان۔ حاضرین اور اینکر پرسن اور ناظرین سب ہی لطف اٹھاتے ہیں، گفتگو میں تہذیب نہیں، لباس مغربی طرز کا، دوپٹہ تو عرصہ دراز سے غائب ہو چکا، جو کبھی ایک شانے پر جھول رہا ہوتا تھا، اب اس کی بھی چھٹی۔ اگر کہا جائے کہ لباس سے کچھ نہیں ہوتا ہے، ہم دل سے مسلمان ہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں یہ نہیں فرماتا کہ علی الحیاوالایمان۔

یعنی ’’حیا‘‘ ایمان کا حصہ ہے اور اپنی زینت کو چھپاؤ، زمین پر اکڑ کر نہ چلو، ایسے زیور نہ پہنو، جو بجتے ہوں۔ شادیوں کے معاملے میں بھی لڑکیاں اپنی من مانی کرتی نظر آتی ہیں، اچھے اچھے رشتوں کو ٹھکرا کر والدین کو شرمندہ اور دکھ سے ہمکنار کرتی ہیں، اپنے والدین سے ہم کلام ہوتے ہوئے ذرہ برابر لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بھی ایسی ہی تیز ترار لڑکیاں سامنے آئی ہیں، وہ جو چاہتی ہیں کرتی ہیں وہ والدین کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں۔ آج کی اولادوں نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لیا ہے اور ان کا یہ عمل انھیں نیکی اور شرافت سے دور بہت دور لے جاتا ہے چونکہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی عذاب کا باعث ہوتی ہے۔

جب سے اسمارٹ موبائل آئے ہیں مزید تباہی کے در وا ہوئے ہیں۔ حکومت اگر اپنے ملک اور اپنی رعایا سے مخلص ہے تب وہ ان حالات پر نہ صرف یہ کہ توجہ دے بلکہ تدارک بھی کرے، ایسا کرنا اپنے ملک کو استحکام بخشنا ہے انھی نوجوانوں کو نہ صرف یہ کہ اپنے خاندان کی حفاظت کرنا ہے بلکہ برائی کی جڑوں کو کاٹنا ناگزیر ہے۔ ملک ایسے ہی پھلتے پھولتے اور خوشحال نہیں ہوتے ہیں جب تک کہ حکومت اور اس کی رعایا مل جل کر کام نہ کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنے والدین اللہ تعالی کرتی ہیں ہیں اور اور ان کے لیے ہے اور

پڑھیں:

انسانیت کے نام محبت الٰہی کا پیغام

ہتھیار محبت کے سوا، سب توڑ دو اور دل کے در کھول دو۔ ذرا توقف کرواور اس خاموش آوازکو سنو جو ہر طرف گونج رہی ہے۔
جنگ کے میدانوں سے، اسکرینوں کے پیچھے سے، ویران دلوں سے،اور خالی آنکھوں سے یہ وہ زمانہ ہے جہاں محبت کمزوری بن چکی ہے، الفاظ کھوکھلے اور تعلقات دکھاوے بن چکے ہیں اور انسان اپنی ہی ایجادات کا قیدی بن چکا ہے ۔
ایسے میں ایک ندا عرش سے اترتی ہے کہ آئو تلواریں رکھ دو، توپیں توڑ دو،اور صرف ایک ہتھیار باقی رکھو: محبت یہ کوئی خواب نہیں یہ سچائی کا وہ چراغ ہے جو ہر بیدار دل میں جلتا ہے،ہر زخمی روح کی آخری دعا ہے،ہر سچے انسان کی پہلی امید ہے۔ ہم محبت سے پیدا ہوئے، محبت کے لیے پیدا ہوئے ۔ میں نے تجھے اپنی محبت کے لیے پیدا کیا۔
(حدیث قدسی) حضرت آدم کی مٹی جب گوندھی گئی تو اس میں کوئی نفرت، کوئی دشمنی نہ تھی اس میں فقط اللہ کی محبت کا نور شامل تھا۔اسی لیے آدم کو روحِ الہی عطا کی گئی،اور ہم سب کو اولادِ عشق بنایا گیا ۔ نہ قوم، نہ زبان، نہ مذہب بس محبت کا ایک ہی نسب۔
ہم تاجدارِ محبت ہیں ہم وہ قوم ہیں جسے رب نےبنایا: نہ نفرت کے لیے، نہ تسلط کے لیے،بلکہ فقط محبت، امن، اور قربت کے لیے۔ تو وہ آئینہ ہے جس میں خدا اپنی محبت کو دیکھتا ہے ۔
مولانا رومی۔۔ محبت وہ الہی طاقت جس سے دشمن، دوست بن جاتے ہیں ،اندھیرے روشنی بن جاتے ہیں، دلوں کے در یکجہتی سے کھل جاتے ہیں اور انسانیت، خدا کی قربت محسوس کرتی ہے ایک نئی دنیا خواب نہیں، ضرورت ہے! جہاں بچوں کے ہاتھ میں کھلونے ہوں، ہتھیار نہیں، جہاں رنگ و نسل نہیں صرف دل کی روشنی دیکھی جائے، جہاں امام، پنڈت، اور پادری سب محبت کی بات کریں اور جہاں انسان، صرف انسان کہلائے۔ خدائے واحد و لا شری کا عکس بنے۔ جج نہیں بلکہ عبد شکور بنا رہے اور عبادت کے نغمے دل سے ادا کرتا رہے۔
زمین جنت کا آئینہ ہے یہ مقتل نہیں، نہ بازارِ خون یہ آشیانہ ہے محبت کا، اور گلزارِ الہی کا، تو پھر اے انسان اب فیصلہ تیرا ہے کہ محبت کو چننا ہے یا نفرت کو؟خالق کی رضا یا مخلوق کی غلامی؟
مملکتِ عشق ایک روحانی دعوت ہے یہ کوئی سیاسی جماعت نہیں،نہ کوئی مذہبی فرقہ بس لا الہ لااللہ ا علان زبان سے اور تصدیق دل سے جو نقطہ آغاز محبت رب العالمین ہے۔
یہ تو دلوں کا وطن ہے جہاں قانون صرف محبت ہے،کرسی فقط خلوص کی ہے اور عبادت صرف رحمت کے سجدے میں ہے ہمارا منشور’’ہر ذی روح محترم، ہر مسکراہٹ عبادت‘‘ اور ہر ایک کو معاف کردینا فتح عظیم ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے!
جہاں انسانیت متحد ہو،مخلوق محفوظ ہو، اور محبت حکمران ہو۔آئو اس نورانی انقلاب کا حصہ بنو،جو تلوار نہیں، دعا سے جیتا ہے جو فوج نہیں، فرشتوں کے قافلے لاتا ہے اور جس کا پرچم صرف ایک ہے۔ محبت ہی اصل بادشاہی ہے محبت کو زبان بنا محبت کو راستہ بنا محبت کو آئندہ نسلوں کی میراث بنایہ پیغام دل سے نکلا ہےاور دلوں تک پہنچے گا کیونکہ آخر میں صرف محبت باقی رہ جاتی ہے قرآن تصدیق سب کی تسلی کے لئےسورۃ البقرۃ (2:165)
ترجمہ:اورجو ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔تفسیریہ آیت بیان کرتی ہے کہ مومنوں کی سب سے گہری محبت اللہ سے ہوتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سب کچھ اسی کا ہے، اور وہی سب سے زیادہ رحیم و کریم ہے۔ ان کے دل میں کوئی اور محبت اللہ کی محبت پر غالب نہیں آتی۔ سورۃالمائدہ (5:54)
ترجمہ:عنقریب اللہ ایک ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے۔
تفسیر، یہ آیت ایک ایسے گروہ کی پیش گوئی ہے جو اللہ کے ساتھ محبت کے تعلق میں مضبوط ہو گا۔ اللہ ان سے راضی ہو گا، اور وہ اللہ سے سچی محبت کریں گے۔ یہ مقامِ قرب اور مقامِ محبوبیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی ایشیا میں موجود تنازعات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں، جنرل ساحرشمشادکا انتباہ
  • بلوچستان میں واقعات پر سرکار فقط مذمتی بیانات دیتی ہے، امان اللہ کنرانی
  • انسانیت کے نام محبت الٰہی کا پیغام
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج والدین کا دن منایا جا رہا ہے
  • جنوبی ایشیا میں ایسے تنازعات ہیں جو قابو سے باہر ہوسکتے ہیں، جنرل ساحر شمشاد
  • بچوں کی نفسیات پر پرتشدد گیمزکے منفی اثرات
  • حج کے سیاسی و عبادی پہلو
  • نوجوانوں کی شمولیت — ٹیکس آگہی اور ثقافت کے روشن مستقبل کی ضمانت،ایف ٹی او سیکریٹریٹ اسلام آباد میں کیمپس ایمبیسیڈرز کی پہلی تربیتی نشست
  • اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ضرورت