قربانی کے جانور کی قیمت اور آئی فون؛ نعمان اعجاز تنقید کی زد میں آگئے
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
قربانی کے جانوروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان پاکستان کے معروف اور سینیئر اداکار نعمان اعجاز اس سے متعلق اپنی ایک پوسٹ پر تنقید کی زد میں آگئے۔
نعمان اعجاز نے اس قبل بھی ایک پوسٹ کی تھی جس میں انھوں نے ایک مرغی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر یہ بھی منڈی میں کھڑی ہو تو بیوپاری قیمت لاکھ روپے مانگیں گے۔
جس پر سوشل میڈیا صارفین اور مداحوں نے ان کی بات کی تائید کرتے ہوئے قربانی کے جانوروں کی قیمتوں پر سوالات اُٹھائے تھے۔
تاہم اداکار نعمان اعجاز کی حال ہی میں کی گئی ایک پوسٹ پر ان کے مداح اور سوشل میڈیا صارفین نے تنقید کی ہے۔
نعمان اعجاز نے انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ سب کو آئی فون مہنگا لگتا ہے لیکن جیسے ہی قربانی کے جانور لینے جاتے ہیں تو لگتا ہے جیسے بیوپاری جائیداد کے کاغذات مانگ رہے ہوں۔ بھائی، ذرا قربانی کا جانور لینے تو جائیں۔
اس پوسٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے قربانی کے جانور کی قیمت کو آئی فون سے تشبیہ دینے پر شدید غصے کا اظہار کیا۔
ایک صارف نے لکھا کہ آئی فون خریدنے میں کسی کو مسئلہ نہیں، لیکن جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بات آتی ہے تو سب کو مہنگائی یاد آ جاتی ہے؟
**” ایک اور صارف نے لکھا کہ قربانی نہیں کر سکتے تو نہ کریں، لیکن مذاق اُڑانا درست نہیں۔
تاہم کئی صارفین نے نعمان اعجاز کی حمایت بھی کی۔ ایک نے لکھا کہ نعمان اعجاز کی بات کو غلط سمجھا جا رہا ہے۔ ان کا نقطۂ نظر مہنگائی پر توجہ دلانا ہے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ نعمان اعجاز صرف مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں نہ کہ قربانی کی اہمیت کو کم کر رہے تھے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: قربانی کے جانور نے لکھا کہ
پڑھیں:
بلوچستان میں زہریلی مچھلی کھانے سے متعدد جانور ہلاک
بلیدہ زامران، بلوچستان میں مچھلی کی آنتیں کھانے کے بعد متعدد پالتو اور آوارہ جانور ہلاک ہوگئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ضلع گوادر سے مکران بھر میں ترسیل ہونے والی مچھلیوں میں شامل مقامی طور پر کاشُک یا کےٹو مچھلیاں اموات کا سبب بنی ہیں۔ کیچ کے علاقے بلیدہ زامران سے تشویشناک اطلاعات سامنے آئی ہیں جس میں گذشتہ دنوں مچھلی کے پیٹ کو صاف کرنے کے بعد اس کی آنتیں مرغیوں اور بلیوں کو دی گئیں۔
قرب و جوار کے کچھ علاقوں میں مچھلیوں کی باقیات آوارہ کتوں کی اموات کا سبب بنیں جنہیں کھانے کے بعد وہ جانور فوری طور پر ہلاک ہوگئے۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے
ہلاکتوں کا سبب بننے والی مچھلی کے متاثر ہونے کی ممکنہ وجوہات میں سمندری آلودگی شامل ہے۔ علاقہ مکینوں نےضلعی انتظامیہ اور ماہرینِ حیاتیات سے واقعے کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ گوادر کا پانی آلودہ نہیں ہے اور اس لیے مچھلیاں زہریلی نہیں ہو سکتیں۔ یہ مچھلیاں، انسانوں یا گھریلو جانوروں کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔ دراصل بعض اوقات مچھلیاں نقصان دہ ایلگی بلوم کھانے کے بعد زہریلی ہو سکتی ہیں جسے مقامی طور پر "بید آب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تیکنیکی مشیر ڈبلیو ڈبلیو ایف (پاکستان) محمد معظم خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ساحلی پانیوں سے ایسی کوئی بید آب کی اطلاع نہیں ہے۔ ممکنہ طور پر نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے کے دوران مچھلی آلودہ ہو گئی ہو۔ مچھلی کا باسی پیٹ پالتو جانوروں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ گوادر کی سارڈائنز مچھلی کھانے سے کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے جو پاکستان سے بھی بڑی مقدار میں برآمد کی جاتی ہیں۔