وزیراعظم کی ناراض بلوچوں کی واپسی کے لیے تجاویز طلب
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
بھائیوں میں ناراضی ہو تو بیٹھ کر بات ہوتی ہے،عمائدین بتائیں وہ کون سی خرابیاں ہیں جنہیں دور کیا جائے، بلوچستان کے عمائدین کی کوئی شکایات ہوں گی ہمارے سرآنکھوں پر،شہباز شریف
دہشت گرد خون کے پیاسے ہیں انہیں ان کا راستہ آپ کو ناکام بنانا ہے، ترقیاتی پروگرام میں بلوچستان کا حصہ 250 ارب ہوگا، فیلڈ مارشل سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک،گرینڈ جرگہ سے خطاب
بلوچستان کے معاملے پر کوئٹہ میں گرینڈ جرگہ میں وزیراعظم، فیلڈ مارشل سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک ہیں، وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بلوچ عمائدین کو خرابیوں کی نشاندہی کرنے اور حکومت سے مذاکرات کی دعوت دے دی۔تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں گرینڈ جرگہ کا آغاز قومی ترانے سے ہوا جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے کہا کہ قومی گرینڈ جرگے کے شرکا کا خیرمقدم کرتا ہوں، یہاں موجود تمام شرکا کا شکرگزار ہوں کہ وہ یہاں آئے، قومی جرگوں کا انعقاد جاری رہنا چاہیے تاکہ مسائل کا حل نکلے۔اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں ممنوں ہوں کہ جرگہ میں شرکت کا موقع ملا، معرکہ حق میں کامیابی پر قوم کو مبارک باد دیتا ہوں، مخالف اس کامیاب سے سہم گئے ہیں اور ہمارے دوستوں کا حوصلہ آسمان سے باتیں کررہا ہے، ہماری افواج نے ہندوستان کو ایسی شکست دی کہ وہ ساری عمر یاد رکھے گا، ہم نے 1971ء کا بدلہ لے لیا، جب ملک ایٹمی قوت بنا تو دنیا نے دیکھا کہ ہم نے چھ دھماکے کرکے دشمن کے اوسان خطا کردیے۔وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان کو اگر کوئی گلہ ہے تو بھائیوں کے ساتھ بھائی بن کر اسے طے کرنا چاہیے، دہشت گرد خون کے پیاسے ہیں انہیں پاکستان کی ترقی نہیں بھاتی ان کا راستہ آپ کو ناکام بنانا ہے، وہ کیا نقائص ہیں جنہیں آپ کے مشورے سے دور کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ سائن ہوا وہ ہرگز سائن نہ ہوتا اگر پنجاب اپنے حصے سے فنڈز نکال کر بلوچستان کی ڈیمانڈ پوری نہ کرتا، پنجاب نے اپنا حصہ ڈالا تو یہ این ایف سی منظور ہوا یہ احسان نہیں، اسی طرح پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں تو ہم نے اس رقم سے بلوچستان کی سڑکیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کو آسانی ملے اسی طرح بلوچستان کے کسانوں کو سولر سسٹم کی فراہمی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے معاملات بھی ہیں۔انہوں نے جرگے میں موجود بلوچستان کے عمائدین سے کہا کہ آپ کی کوئی شکایات ہوں گی ہمارے سرآنکھوں پر، مگر دہشت گردوں کو درندگی کے سوا کچھ نہیں آتا، جو لوگ بھٹک گئے ہیں انہیں واپس لانے کے لیے ہم سب کو بہترین کاوش کرنی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میری حکومت میں بلوچستان کے صوبے کے ساتھ ناانصافی کا کوئی تصور نہیں کرسکتا، بلوچستان کے عمائدین بیٹھیں مل کر بات کریں ہمیں بتائیں وہ کون سی خرابیاں ہیں جنہیں ہم دور کریں گے بات کرنے سے ہی کنبہ خوشحال ہوتا ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ اگلے مالی سال ایک ہزار ارب کے ترقیاتی پروگرام میں بلوچستان کا حصہ 250 ارب روپے ہوگا، یہ فنڈ شفافیت کے ساتھ خرچ کیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بلوچستان کے نے کہا کہ
پڑھیں:
وزیراعلیٰ پختونخوا کے سیاسی جماعتوں کی قیادت سے رابطے، امن جرگہ بلانے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ امن و استحکام کے قیام کے لیے ایک مشترکہ جرگہ بلایا جائے گا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے اور قائدین شریک ہوں گے۔ یہ جرگہ صوبائی اسمبلی کی اِن ہاؤس کمیٹی کے تحت منعقد کیا جائے گا تاکہ مکالمے اور اتفاقِ رائے کے ذریعے پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔
وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے اس سلسلے میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان سے ٹیلیفونک گفتگو کی، جس میں صوبے کی مجموعی امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ گفتگو کے دوران وزیرِاعلیٰ نے انہیں اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے اس پر کہا کہ وہ پارٹی مشاورت کے بعد شرکت سے متعلق حتمی فیصلہ کریں گے۔
ساتھ ہی وزیرِاعلیٰ نے دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی رابطہ کیا، جن میں مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، امیر مقام، آفتاب شیرپاؤ اور محمد علی شاہ باچا شامل ہیں۔ ان تمام رہنماؤں کے ساتھ صوبے میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی خدشات، دہشت گردی کے واقعات اور عوامی تحفظ کے لیے مشترکہ اقدامات پر گفتگو کی گئی۔
وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام امن و استحکام چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، مگر امن و امان ایسا قومی مقصد ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔