پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے، پروفیسر ابراہیم
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
صوبائی امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ صوبے کے عوام کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، وفاقی حکومت بھی کرپشن میں پیچھے نہیں، پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے، خیبر پختونخوا کے عوام نے تین بار ایک ہی جماعت کو حکومت سونپی لیکن انہوں نے کرپشن میں اضافے کے سوا کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ صوبے کے عوام کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، وفاقی حکومت بھی کرپشن میں پیچھے نہیں، پاکستان میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ صوبے میں کرپشن کے خلاف پیپلز پارٹی کے احتجاج پر حیرانی ہوئی۔ مائنز اینڈ منرلز بل 2017ء میں ترامیم کی بجائے نئے سرے سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کی کسی صورت حمایت نہیں کریں گے۔ صوبے کے وسائل پر صوبے کے عوام کا حق ہے۔ اسے امریکہ یا کسی اور ملک کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دارالعلوم الاسلامیہ بیرون ہوید گیٹ بنوں میں منعقدہ صوبائی ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اجلاس میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے سیکرٹری جنرل محمد ظہور خٹک، نائب امراء مولانا محمد تسلیم اقبال، عزیز اللہ خان مروت، حاجی اختر علی شاہ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل حاجی اکبر علی خان و دیگر ذمہ داران شریک تھے۔ اس موقع پر کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور جون کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ اس وقت پورا ملک بالخصوص خیبر پختونخوا جنوبی بدترین بدامنی کی لپیٹ میں ہے، ڈرون حملے، اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی ہے۔ کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں اختیارات کی کھنیچا تانی ہے اور اس وجہ سے صوبہ بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے سرحدوں کی بجائے اندرونی سیکورٹی کو سنبھال رکھا ہے جس سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ فوج کا کام اندرونی سیکورٹی نہیں، سرحدوں کا دفاع ہے۔ مغربی سرحدوں پر بھی فوج کا کوئی کام نہیں ہے، یہاں کی حفاظت قبائلی خود بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ فوج مشرقی سرحد کی حفاظت یقینی بنائے اور کشمیر کی آزادی کے لیے کوشش کرے۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کی تمام چھاؤنیاں عوام کی آمد ورفت کے لیے بند ہیں۔ بنوں میں سرکاری دفاتر چھاؤنی کے اندر ہیں جن تک جانے کے لیے عوام کو فوجی چیک پوسٹوں پر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشاور ائیر پورٹ تک جانے کے لیے جگہ جگہ فوجی چیک پوسٹوں پر عوام کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ بند کیا جائے اور چھاؤنیاں اور راستے عوام کے لیے کھولے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی تمام جماعتیں کسی نہ کسی صورت کرپشن میں ملوث ہیں۔ عوام پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ان کرپٹ حکمرانوں کی بجائے ایماندار اور دیانتدار قیادت کا انتخاب کریں۔ دیانتدار قیادت ہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا انہوں نے صوبے کے کے عوام عوام کو رکھا ہے کہا کہ نے کہا کے لیے
پڑھیں:
سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
خیبر پختونخوا میں ایوان بالا کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے، حکومت اور اپوزیشن نے انتخابی فارمولے کے مطابق 6 اور 5 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ سینیٹ کی 11نشستوں میں تحریک انصاف نے 6، جمعیت علمائے اسلام2، پیپلز پارٹی2 اور پاکستان مسلم لیگ ن 1نشست پر کامیاب ہوئی، سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے درمیان معاہدہ کامیاب رہا۔پنجاب کی ایک نشت پر مسلم لیگ ن کے حافظ عبدالکریم کامیاب ہوئے ہیں۔
ملک میں سینیٹ کے حالیہ انتخابات مکمل ہو چکے ہیں، جس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر بھی اراکین کی تقرری عمل میں آ چکی ہے۔ یوں پاکستان کی پارلیمان کے دونوں ایوان سینیٹ اور قومی اسمبلی مکمل ہو چکے ہیں۔ ایک طویل غیر یقینی اور خلاؤں سے بھرپور ڈیڑھ برس کے بعد، بالآخر دونوں ایوانوں کی تکمیل عمل میں آ چکی ہے۔
یہ مرحلہ صرف آئینی ضرورت کی تکمیل نہیں، بلکہ جمہور کی ان گہری تمناؤں کا مظہر ہے جو برسوں سے ایک مضبوط، مربوط اور مؤثر جمہوری نظام کے خواب دیکھتے آئے ہیں۔ یہ امر بظاہر جمہوریت کے تسلسل اور پارلیمانی نظام کی مضبوطی کی علامت ہے، لیکن اگر اس منظر نامے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کئی تلخ حقیقتیں اور سوالات جنم لیتی ہیں، جو جمہوریت کی روح اور عوامی نمایندگی کے اصولوں سے انحراف کا پتا دیتے ہیں۔
اس تمام عمل کو پریشان کن اس پہلو نے بنایا کہ عام انتخابات کے بعد تقریباً سال سوا سال تک عدالتی پیچیدگیوں اور قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے پارلیمان مکمل نہ ہو سکا۔ یہ صورتِ حال نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ نئے نئے سیاسی اور آئینی مناقشوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے ۔
سینیٹ انتخابات سے پہلے جس ’’طے شدہ فارمولے‘‘ کے تحت حکومت اور اپوزیشن کے مابین نشستوں کی تقیسم ہوئی، وہ بذاتِ خود اس امر کا غماز ہے کہ جب بات سیاسی مفادات کی ہو، تو بظاہر ایک دوسرے کے شدید مخالف نظر آنے والے سیاسی فریقین کس طرح خوش اسلوبی سے ایک صفحے پر آ جاتے ہیں۔ وہی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت، جو عوامی جلسوں میں ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرتی ہیں، پس پردہ مفاہمت کی میز پر باآسانی اکٹھا ہو جاتی ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف سیاسی دوعملی کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ پارٹی ورکرز اور ووٹرز کے اعتماد کو بھی مجروح کرتا ہے، جنھیں تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کے رہنما اور سیاسی جماعت اپنے بیانئے اور اصولوں پر قائم رہیں گے۔
خیبر پختونخوا میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے بعد ایوان بالا میں پیپلزپارٹی نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے، اس کے سینیٹرز کی تعداد 26ہوگئی، یوں حکمراں اتحاد سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے، ایوان بالا میں حکمراں اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد 61جب کہ اپوزیشن کے سینیٹر کی تعداد 34 ہوگئی، سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نئی ارکان کی آمد کے بعد اب حکومتی اتحاد کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔
بلاشبہ یہ اکثریت کسی بھی حکومت کے لیے قانون سازی کو مؤثر بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ عددی طاقت عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوگی یا سیاسی جوڑ توڑ اور اتحادیوں کے تقاضے پورے کرنے تک محدود رہے گی؟ ماضی کی مثالیں دیکھ کر یہ اندیشہ بجا ہے کہ اکثریت کے بل پر کی جانے والی قانون سازی عموماً عوامی مفادات سے زیادہ طاقتور طبقات کے مفادات کی ترجمان ہوتی ہے۔
حالیہ سینیٹ الیکشن کے جائزے میں یہ واضع ہے، حسب روایت دولت مند افراد کو پارٹی ٹکٹ دیے گئے اور وہ منتخب ہوکر سینٹر بن گئے ہیں ۔سیاسی جماعتوں نے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کو لفٹ نہیں کرائی ، یوں متوسط طبقے کے پڑھے لکھینوجوان سیاسی کارکن، خواتین، اقلیتوں اور محنت کش طبقے کی نمایندگی برائے نام رہی۔ سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ ترین قیادت کے اس قسم کے فیصلے اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ ہماری پارلیمان طاقتور اور دولت مند طبقات کا کلب ہے، جہاں عوامی مسائل کی گونج کم اور مفاداتی سیاست کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے۔
جمہوری نظام کی اصل روح اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب پارلیمان میں ہر طبقے کی نمایندگی ہو، جب عوام کے حقیقی مسائل پر قانون سازی ہو، اور جب حکومتی فیصلے ریاست اور عوام کے اجتماعی مفادات کی ترجمانی کریں۔ ورنہ جمہوریت صرف انتخابی عملکا نام بن جاتی ہے، جس میں عوامی شمولیت کا عنصر ختم ہو جاتا ہے۔ عوام کو صرف ووٹ دینے کی مشین سمجھا جاتا ہے، اور انتخابات کے بعد ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں، بلکہ ایک مکمل نظام حکومت ہے، ایک مسلسل عمل، جو عوام کی شمولیت، شفاف احتساب، مؤثر ادارہ جاتی کردار اور میرٹ پر مبنی نمایندگی کا تقاضا کرتا ہے۔ جب یہ اجزا موجود نہ ہوں تو پھر انتخابات نمائشی عمل بن جاتے ہیں، اور پارلیمان چند مراعات یافتہ افراد کا حلقہ بن جاتی ہے۔
اس سینیٹ الیکشن کے نتائج نے یہ بات ایک بار پھر واضح کر دی کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں اب بھی اپنے منشورو پروگرام پر عمل کرنے کے بجائے مفاداتی اتحادوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ عوامی نمایندوں کے چناؤ میں عوامی مقبولیت، خدمات یا اصولی موقف کے بجائے صرف مالی حیثیت، خاندانی پس منظر اور اندرونی تعلقات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جمہوریت کی آڑ میں ایک محدود طبقے کی بالادستی کو دوام بخشا جا تا ہے۔
عوام کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو جلسوں میں غدار، کرپٹ اور نااہل قرار دیتی ہیں، تو وہی جماعتیں پسِ پردہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر اقتدار کی تقسیم پر راضی ہو جاتی ہیں۔ عوامی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والے رہنما جب اپنی جماعتی مصلحتوں اور ذاتی مفادات کو اجتماعی عوامیمفاد پر ترجیح دیتے ہیں تو سیاسی کارکن مایوس ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما عوام کے لیے نہیں، بلکہ طبقاتی سیاست کرتے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اپنے رویوں اور پالیسی میں تبدیلی لائے ، عوام کو نمائشی نعروں کے بجائے عملی اقدامات سے مطمئن کریں، اگر جمہوریت کو واقعی مستحکم کرنا ہے تو مڈل کلاس کے سیاسی کارکنوں،پروفیشنلز،درمیانے کاروباری لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیں۔چند دولت مند اور طاقتورخاندانوں اور مفاد پرست، موقع پرست ٹولوں کے گرد گھومتی سیاست پارلیمانی جمہوری نظام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ عوام میں بڑھتی ہوئی بیزاری اور مایوسی کو غیر اہم نہ سمجھا جائے۔عدلیہ، الیکشن کمیشن، اور دیگر ریاستی اداروں پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی غیر جانبداری، شفافیت اور مؤثریت کو یقینی بنائیں۔
مبہم، یکطرفہ اور ذومعنی قانون سازی جمہوریت ہی نہیں بلکہ اداروں کے حق میں بہتر نہیں ہوتی ۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں، اصل طاقت عوام اور ووٹرز کے پاس ہوتی ہے۔ اس لیے پولنگ سے لے کر گنتی تک انتخابی قوانین واضع اور ابہام سے پاک ہونے چاہیں اور الیکشن کو انتخابی کے ساتھ انتظامی اختیارات بھی حاصل ہونے چاہیں۔ جب تک عوام اپنی سیاسی بصیرت کا استعمال نہیں کریں گے، ووٹ دینے کے بعد خاموش تماشائی بنے رہیں گے، تب تک یہ طبقاتی سیاست پر چیک رکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔ عوام کو نہ صرف ووٹ دینا ہے، بلکہ منتخب نمایندوں کا احتساب بھی کرنا ہے۔ سوال پوچھنا، کارکردگی کا جائزہ لینا اور خاموشی توڑنا ہی وہ عمل ہے جو جمہوریت کو زندہ رکھ سکتا ہے۔
ہماری تاریخ ایسے مواقع سے بھری پڑی ہے جب قوم کو درست سمت میں موڑنے کا موقع ملا، مگر ہر بار طبقاتی قوتوں نے اسے ناکام بنا دیا۔ اب ایک بار پھر ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ اگر آج بھی ہم نے سیکھنے سے گریز کیا تو آنے والی نسلیں بھی اسی دائرے میں مقید رہیں گی، جہاں جمہوریت صرف ایک لفظ ہوگا، اس کی روح اور اثر ناپید۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کا مکمل ہونا ایک موقع ہے،ایک ایسا نکتہ آغاز جہاں سے ہم قومی مفاد کو ذاتی اور جماعتی مفادات پر ترجیح دینے کا نیا باب رقم کر سکتے ہیں۔ سیاسی بالغ نظری، تحمل، مکالمے کی روایت، اور آئین کی پاسداری اب محض نعرے نہیں رہنے چاہییں، بلکہ وہ اصول بننے چاہییں جن پر ایوان کی ہر آواز اور ہر قانون کی بنیاد ہو۔
عوام نے جس اعتماد کے ساتھ اپنے نمایندے چُنے، وہ کسی معمولی توقع پر مبنی نہیں تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم، صحت، روزگار، انصاف اور معیشت جیسے بنیادی مسائل پر سنجیدگی سے قانون سازی ہو۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ احتساب کا عمل بلا تفریق ہو، اور ہر فرد، خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، قانون کے سامنے جواب دہ ہو۔جمہور کی آنکھیں اب ان منتخب نمایندوں پر مرکوز ہیں۔ عوام کی توقعات محض تقریروں، وعدوں یا بیانات تک محدود نہیں رہیں، وہ ٹھوس اقدامات، باوقار قانون سازی، شفاف طرزِ حکمرانی اور عام آدمی کی زندگی میں حقیقی بہتری کے خواہاں ہیں۔