Daily Ausaf:
2025-06-03@10:34:55 GMT

ریت پر بنی اسرائیلی فرعونیت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT

ریاست عبرت کی دہلیز پر تاریخ انسانیت کا ورق الٹیں تو ہمیں فرعونوں، نمرودوں، اور ہٹلروں کی کئی داستانیں ملتی ہیں جو طاقت کے نشے میں چور ہو کر یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ دائمی ہیں، ناقابل شکست ہیں اور زمین پران کا ہی حکم چلے گا۔ مگر وقت نے گواہی دی کہ ظلم کا کوئی نظام قائم نہیں رہتا اور ہرجابرحکمران ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ آج کا اسرائیل اسی فرعونی غرور، نمرودی تکبر اور ہٹلری ظلم کا نیا چہرہ ہے۔ جو فلسطین کی مقدس سرزمین پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑ رہا ہے کہ انسانیت بھی شرمسار ہےلیکن اب وقت قریب آچکا ہےجب یہ صہیونی ریاست اپنے ہی ظلم کے بوجھ تلے دب کر فنا کے گھاٹ اترے گی۔غزہ کی پٹی جو کسی زمانے میں زیتون کے درختوں، مسکراہٹوں اور اذانوں کی سرزمین تھی آج بارود،خون اورلاشوں سے بھرچکی ہے۔ اسرائیل نے اپنی سفاک افواج کے ذریعے یہاں زندگی کے ہر نشان کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اسکول، ہسپتال، مساجد، رہائشی عمارتیں، حتی کہ بچوں کے جھولے بھی ان کی بربریت سے محفوظ نہ رہ سکے۔ دنیا کے طاقتور ممالک کی خاموشی اور اقوامِ متحدہ کی بے بسی نے اسرائیل کو یہ پیغام دیا کہ وہ جو چاہےکرے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔مگر وہ بھول گئے کہ مظلوم کی آہ جب آسمان چیرتی ہے تو عرش ہلتا ہے۔ اسرائیل نے مسجدِ اقصی پر کنٹرول حاصل کر کے گویا دنیا بھر کے مسلمانوں کو للکارا ہے۔ یہ وہی مسجد اقصی ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیا کی امامت کی، جہاں سے معراج کا سفر شروع ہوا اور جس کی حرمت مسلمان اپنے خون سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ جب قبلہ اول کو پامال کیا گیا، جب نعلین والے سپاہی اس مقدس مقام پر گھسے، جب قرآن کی تلاوت پر گولیاں چلیں اور جب سجدہ ریز نمازیوں کو گھسیٹا گیا تو گویا اسرائیل نے اپنی قبر آپ کھودنا شروع کر دی۔اب بات فقط ظلم کی نہیں رہی اب یہ معرکہ ایمان اور کفر کا بن چکا ہے۔ اسرائیل نے جس زمین پر قبضہ جما رکھا ہے وہ زمین اللہ تعالیٰ نے انبیا کرام علیہم السلام کی میراث کے طور پر مسلمانوں کے سپرد کی تھی۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب، حضرت دائود، حضرت سلیمان اور حضرت عیسی جیسے جلیل القدر انبیا نے اللہ کا پیغام عام کیا۔ اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہےکہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس زمین کے روحانی متولی ہیں۔ یہ قبضہ صرف زمین پر نہیں بلکہ تاریخ، روحانیت اور ایمان پر ہے اور یہ قبضہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔
آج فلسطینی بچے پتھروں سے مزاحمت کرتے ہیں، نوجوان شہادت کو گلے لگاتے ہیں اور مائیں اپنے بیٹوں کے کفن سی کر رکھتی ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جو مرنا جانتی ہے مگر جھکنا نہیں۔ یہی ایمان، یہی صبر، اور یہی قربانی اسرائیل کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اسرائیل کو یہ گمان تھا کہ اس کی جدید ٹیکنالوجی، آئرن ڈوم، ڈرونز، مصنوعی ذہانت اور عالمی حمایت اسےناقابل شکست بنا دے گی۔ مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ جو ٹیکنالوجی انسانیت کے خلاف استعمال ہو، وہ جلد یا بدیر بیکار ہو جاتی ہے۔آج فلسطینی مزاحمت نے اسرائیلی ٹیکنالوجی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام ناکام ہو چکے ہیں، اس کی فوج کا مورال گر چکا ہے اور اس کی حکومت داخلی انتشار کا شکار ہے۔ یہاں سیاسی عدم استحکام، عوامی بغاوت، اور بین الاقوامی دبائو اس کے مستقبل کو تاریکی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اسرائیل کی طاقت اب ایک سراب ہےاور فلسطینیوں کا عزم ایک حقیقت۔دنیا کے کونےکونے میں مسلمانوں کے دل فلسطین کے لیےدھڑک رہے ہیں۔ ترکی، ایران، پاکستان، انڈونیشیا، ملیشیا، قطر، الجزائر، تیونس اور دیگر ممالک میں عوامی بیداری ایک نئی روح لے کر اٹھی ہے۔ سوشل میڈیا نے صہیونی بیانیے کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ نوجوان نسل اب حقیقت سے واقف ہے اور وہ اس جنگ کو صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی جنگ سمجھتی ہے۔ آج اگر ایک بچہ غزہ میں شہید ہوتا ہے تو وہ صرف فلسطین کا نقصان نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کا زخم ہوتا ہے۔
یہودی ریاست نےجس فرعونی غرور کےساتھ اپنےاردگرددیواریں کھینچ کر خود کو محفوظ سمجھا تھا وہ دیواریں اب اس کے لیے قفس بن چکی ہیں۔ دنیا بھر کے باخبر لوگ یہاں تک کہ انصاف پسند یہودی دانشور بھی اسرائیل کی نسل پرستی اور جنگی جرائم پر چیخ اٹھے ہیں۔ یہ ظلم اب چھپایا نہیں جاسکتا، یہ بربریت اب قابل جواز نہیں رہی۔ اقوام عالم کی بے حسی اب اسرائیل کے خلاف عالمی تحریک کو جنم دے چکی ہے جو رفتہ رفتہ ایک طوفان میں بدل رہی ہے۔تاریخی اعتبار سے بھی کوئی ریاست ظلم، قبضے اور نسل کشی پر قائم نہیں رہ سکی۔ روم، فارس، منگول، برطانیہ سبھی نے یہی سمجھا کہ ان کی طاقت دائمی ہے لیکن وقت نے انہیں تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ اسرائیل بھی اسی قانون قدرت کی زد میں آ چکا ہے۔ اس کا انجام قریب ہے کیونکہ وہ ظلم کی انتہا کرچکا ہے۔ اب اس کی بقا ناممکن ہے کیونکہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اس وقت کو صرف تماشائی بن کر نہ گزاریں۔ فلسطین کی حمایت محض جذباتی نعرے بازی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں عملی طور پر بھی اپنےمظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ سیاسی،سفارتی،معاشی اور معلوماتی محاذ پر اسرائیل کا بائیکاٹ کر کے، فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کر کے اور اسلامی ممالک کو متحد کر کے ہم اس معرکے کو فتح میں بدل سکتے ہیں۔
یاد رکھیں مسجد اقصی صرف فلسطین کا نہیں پوری امت مسلمہ کا مرکز ہے۔ اگر آج ہم نے خاموشی اختیارکی تو کل یہ آگ ہمارےگھروں تک پہنچ سکتی ہے۔ اسرائیل کے خلاف صرف فلسطینی نہیں لڑ رہے یہ معرکہ حق و باطل کا ہے اور اس میں ہر مسلمان کی شرکت لازمی ہے۔ جس طرح بہادر فلسطینی بہن بھائیوں، بچوں بزرگوں نے ظلم تو سہہ لیا ،اپنی جانیں رب رحمان کے حضور پیش تو کر دیں مگراپنے ایمان کا سودا نہ کیا، اپنی پاک مٹی سے ہٹنا یا بھاگنا گوارا نہ کیا اس بات کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ظلم کی یہ سیاہ رات جلد ختم ہوگی اور فلسطین کی روشن صبح ضرور طلوع ہوگی۔ اسرائیل کا زوال صرف ایک وقت کا انتظار ہے، کیونکہ “ان ربک لبالمرصاد”۔ ظالم کتنی ہی دیواریں کھڑی کرے، اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا۔ اور جب حق آتا ہے، تو باطل مٹ کر رہتا ہے ۔ یہی وعدہ ہے اور یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ انشا اللہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: صرف فلسطین اسرائیل نے اور یہ ہے اور

پڑھیں:

غزہ جنگ بندی: حماس نے امریکا کی تجویز پر اپنا جواب جمع کرا دیا

فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی جنگ بندی معاہدے پر اپنا جواب جمع کرا دیا، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کی جائے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی تجویز پر ثالثوں کو جواب دے دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں اسرائیل حماس جنگ بندی: سیکڑوں غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری

حماس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو جو جواب دیا گیا ہے، اس میں یہ مطالبہ شامل ہے کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کی جائے۔

حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کے تحت 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کریں گے، جبکہ 10 لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کی جائیں گی۔

حماس کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے میں صیہونی ریاست کی جانب سے بھی متعدد فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائےگا۔

حماس کے مطابق یہ تجویز مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا اور ہمارے عوام وخاندانوں کے لیے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مقصد رکھتی ہے، امریکی صدر کو طویل مشاورت کے بعد جواب دیا گیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے اس معاملے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکا کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کرلیا ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اسرائیل حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کررہا ہے، جبکہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم کی جانب سے اس مطالبے کو مسترد کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں غزہ: اسرائیل حماس جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع

7 اکتوبر 2023 کو حماس نے ایک آپریشن کے ذریعے قریباً 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ 258 کو یرغمال بنا لیا تھا، جس کے بعد اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی بمباری میں اب تک 54 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیل حماس جنگ بندی اسرائیلی فوج امریکا امریکی صدر جنگ بندی ڈونلڈ ٹرمپ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • غزہ: جنگ، جبر اور انصاف کی شکست
  • جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے، حماس
  • جنگ بندی کی ضمانتوں کے بغیر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرینگے، حماس کا اعلان
  • امریکی حکومت نہیں مانتی لیکن اسرائیل یقینی طور پر "جنگی جرائم" کا ارتکاب کر رہا ہے، میتھیو ملر
  • چلی کا اسرائیلی مصنوعات پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ
  • حافظ نعیم کا اسرائیلی بربریت پر مسلم حکمرانوں کی کانفرنس بلانے کا مطالبہ
  • حافظ نعیم  الرحمان نےغزہ میں اسرائیلی بربریت پر مسلم حکمرانوں کی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کر دیا 
  • بارسلونا نے اسرائیل سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے
  • غزہ جنگ بندی: حماس نے امریکا کی تجویز پر اپنا جواب جمع کرا دیا