بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو مہنگائی کے تناسب سے ریلیف دینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
حکومت نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کرلیا۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کرلیا جبکہ کیش ٹرانزیکشن کی حوصلہ شکنی کےلیے فنانس بل 2025میں اہم تجاویز زیر غور ہیں۔
خیال رہے کہ سرکاری ملازمین نے تنخواہوں اور الاؤنسز میں نمایاں اضافے کا مطالبہ کیا ہے، ملازمین نے کم ازکم ماہانہ اجرت یا تنخواہ 50 ہزار مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے، مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں 10 جون کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان ہے۔
ذرائع ایف بی آر کے مطابق کیش ملک میں ٹرانزیکشن کی حوصلہ شکنی کے لیے بجٹ میں پیٹرول پمپ سے نقد تیل خریدنے پر تین روپے تک اضافی وصولی کی تجویز ہے، اس سے ٹیکس چوری اور ملاوٹ پر قابو پانے میں مدد ملے گی، مینوفیکچررز اور درآمد کنندگان نقد فروخت پر اضافی2 فیصد ٹیکس وصول کرسکیں گے۔
بجٹ میں ٹیئرون ری ٹیلرزپر نقد خریداری پر بھی اضافی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، ریسٹورنٹس پر پہلے ہی ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی پر ٹیکس چھوٹ ہے، پیٹرول پمپس پر نقد کے ساتھ ڈیجیٹل پیمنٹ کے آپشنز استعمال کیے جاسکیں گے۔ کیوآر کوڈز، ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈز، موبائل ادائیگی کی خدمات فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہیں، خریدار زیادہ ٹیکس اداکرنے کے بعد نقد ادائیگی کرنے میں آزاد ہوں گے۔
ذرائع ایف بی آر کے مطابق نئے بجٹ میں ایونٹ مینجرز، جیولرز، شادی ہالز، ڈاکٹر اور وکلا کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی تجویز نہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دینے کا
پڑھیں:
375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
حکومت نے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں مبینہ 375 ٹریلین روپے (تین لاکھ 75 ہزار ارب روپے) کی بے ضابطگیوں کے انکشاف کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا اور پورے نظام کو مشکوک بنانا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاملہ محض ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’جان بوجھ کر کیا گیا اقدام‘‘ ہے جس کے پیچھے اصل نیت حکومت کو ہدف بنانا تھا۔
اگرچہ آڈیٹر جنرل آفس نے کئی ہفتوں تک رپورٹ کا دفاع کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے تسلیم کیا کہ اس میں ’‘ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ (ٹائپوز) موجود تھیں، لیکن سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی حادثاتی نہیں تھی۔
سرکاری حلقوں کا الزام ہے کہ یہ سب ایک اعلیٰ افسر کی منصوبہ بندی تھی جو ایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس نے حکومت کو اسکینڈل کا شکار کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس افسر کو اپنا موجودہ عہدہ ایک طاقتور سابق انٹیلی جنس سربراہ کی آشیرباد سے ملا تھا۔ حکومت کو جمع کرائی گئی ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق مذکورہ افسر نے سروس کے دوران سیاسی وابستگی رکھی اور مبینہ طور پر پارٹی سے جڑے افسروں کو آڈٹ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا۔
ایک موقع پر اس افسر پر الزام لگا کہ اس نے حساس آڈٹ کا دائرہ کار مقررہ مدت سے آگے بڑھا دیا تاکہ اپوزیشن رہنماؤں کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے جب کہ بیک وقت حکومت اور عسکری قیادت کے حصوں کو ہدف بنایا گیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم خیال افسران کو خاص طور پر صوبائی حکومتوں، وفاقی محکموں اور ہائی پروفائل منصوبوں کے آڈٹ پر مامور کیا گیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تقرریاں اس نیت سے کی گئیں کہ ایسی آڈٹ پیراز اور رپورٹس تیار ہوں جو حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا سکیں۔
مالی حکام نے آڈیٹر جنرل آفس کے بعض اندرونی فیصلوں پر بھی اعتراض کیا، مثلاً اپنے افسروں کے لیے خصوصی الاؤنسز کی منظوری جو فنانس ڈویژن کی ہدایات کے برعکس تھا تاہم بعد میں وزارتِ خزانہ نے یہ فیصلہ واپس لے کر اضافی رقم کی وصولی کا حکم دیا۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ انٹیلی جنس جائزوں میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس افسر نے سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے حساس آڈٹ ریکارڈ جمع کر رکھے ہیں، جن سے سیاسی لحاظ سے کسی بھی موزوں وقت پر لیک کر کے اپوزیشن بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ (ٹائپوز) عام بات ہیں، لیکن 375 ٹریلین روپے کا اسکینڈل صرف غفلت نہیں بلکہ بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش تھی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے اندر سے ایسی چالیں براہ راست استحکام اور حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔
انصار عباسی
Post Views: 8