پنجاب کابینہ نے چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کی منظوری دے دی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
پنجاب کابینہ نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی جانب سے تیار کردہ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کی منظوری دے دی ہے، جسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
اس پالیسی کی منظوری وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں دی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صوبہ پنجاب میں بچوں کے تحفظ کے لیے ایک جامع پالیسی کو باضابطہ منظوری حاصل ہوئی ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت پنجاب کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز بچوں کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی بچوں کے ساتھ زیادتی، بدسلوکی، تشدد اور استحصال کی روک تھام کے لیے ایک واضح اور مؤثر روڈ میپ فراہم کرتی ہے، جو بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
سارہ احمد کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے ایک سال قبل کیس مینجمنٹ سسٹم پر کام کا آغاز کر دیا تھا، جب کہ اس پالیسی کا ابتدائی مسودہ دو سال قبل ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے حکومت پنجاب کو ارسال کیا گیا تھا۔ پالیسی کی تیاری میں یونیسیف پاکستان نے تکنیکی معاونت فراہم کی، جس کے باعث اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق تشکیل دیا جا سکا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن پالیسی بنانے کی کوششیں کی گئیں، تاہم وہ مختلف وجوہات کی بنا پر عملی جامہ نہ پہن سکیں۔ بعض اوقات سیاسی سطح پر عدم دلچسپی، بجٹ کی کمی، یا ادارہ جاتی تعاون کے فقدان کے باعث ایسی پالیسیاں منظوری کے مراحل سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ تاہم اس بار وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں اس پالیسی کو نہ صرف ترجیح دی گئی بلکہ کابینہ کی سطح پر اسے منظور کر کے عملی شکل دی گئی۔
چائلڈ پروٹیکشن پالیسی کی منظوری کو سماجی ماہرین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
ان کے مطابق یہ پالیسی نہ صرف بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام میں مددگار ثابت ہو گی بلکہ صوبے میں بچوں کے لیے ایک محفوظ اور معاون ماحول فراہم کرنے کی بنیاد بنے گی۔
پنجاب حکومت کی جانب سے جلد اس پالیسی کے عملی نفاذ کے لیے ضلعی سطح پر اقدامات اور آگاہی مہمات شروع کیے جانے کا امکان ہے، جس سے صوبے بھر میں بچوں کے حقوق کا تحفظ مزید مؤثر ہو سکے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پالیسی کی منظوری بچوں کے حقوق کے لیے ایک اس پالیسی کے تحفظ
پڑھیں:
وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے عافیہ صدیقی کیس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ میں اس حکم کو جیوڈیشل ایکٹیوازم کے تناظر میں دیکھتا ہوں، بہرحال یہ عدالتی اختیار اور دائرہ کار کا معاملہ ، اس پر جنھیں نوٹس ہوا ہے۔
ان کے وکلا ہی مقررہ تاریخ پیشی پر کوئی بات کریں گے ، البتہ دیگر پہلو پر بات ممکن ہے ، مثلاً عافیہ صدیقی کسی پاکستانی جیل میں قید نہیں ہیں۔ وہ امریکا کی جیل میں قید ہیں۔ امریکا کی عدالت نے انھیں 86سال قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ وہاں پاکستان کا کوئی حکم نہیں چلتا۔البتہ سفارت کاری ہوسکتی ہے جو ہوتی بھی رہتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2024میں وزیر اعظم شہباز شریف نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکی صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔ لیکن شاید امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور نہ ہی عافیہ صدیقی کو رہا کیا گیا ۔ اسلا م آباد ہائی کورٹ کے بار بار پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس خط کا امریکی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد محترم جج صاحب نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے تمام غیر ملکی دوروں کی تفصیلات مانگ لیں۔ اب انھوں نے وزیر اعظم اور کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں امریکا اور پاکستان کے درمیان کیسے تعلقات ہیںیا تعلقات کیسے ہونے چاہیے، یہ طے کرنا حکومت کا آئینی مینڈیٹ ہوتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان کب امریکی صد ر کو کسی ایشو کے حوالے سے کوئی خط لکھنا چاہتے ہیں اور کب نہیں لکھنا چاہتے، یہ طے کرنا بھی حکومت کا مینڈیٹ ہوتا۔ یہ دو ممالک کے سفارتی تعلقات پر منحصر ہوتا ہے کہ کس حد تک بات کرنی یا نہیں کرنی ہے۔ کسی ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کسی دوسرے آئینی ادارے کو ہدایات دینے کا اختیار نہیں ہوتا۔ پاکستان امریکا کے تعلقات کیسے ہوںگے؟ ایک دوسرے کے قیدی کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ یہ طے کرنا حکومت پاکستان کا کام ہے۔
ہمارے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے جذبات قابل قدر ہیں۔ ہماری یہ خواہش کہ امریکی حکومت ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو رہا کر دے، قابل تحسین ہے۔ لیکن امریکا کا نظام ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان نے عدالتی حکم کو مانتے ہوئے امریکی صدر کو خط لکھ دیا۔ اب امریکی صدر نے اس کا جواب نہیں دیا۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیا وزیر اعظم پاکستان کو قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ توہین عدالت کے نوٹس وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو جاری ہو گئے ہیں۔ ان کے دوروں کی تفصیلات بھی مانگ لی گئی ہیں۔ ظاہر یہ قانونی کارروائی کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچے گی۔
عافیہ صدیقی کی طرح بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کے معاملات سفارتی سطح پر دیکھے جاتے ہیں۔ سفارت خانے ان سے جیلوں میں ملاقات بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ سلوک وہاں کی حکومتیں اپنے قوانین کے مطابق کرتی ہیں۔ان پر پاکستان کے قانون لاگو نہیں ہوتے۔
جہاں تک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے تمام قانونی اخراجات کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے بھی کئی مسائل سامنے آسکتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ حکومت پاکستان یہ اخراجات ادا کرے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے قانون میں یہ کہاں لکھا ہے؟ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود ہے؟ میں نے پہلے بھی کئی بات عرض کیا ہے کہ پاکستان کا قانون یکساں نظام انصاف کے اصول پر قائم ہے۔ امیر کو غریب پر، اہم کو غیر اہم پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ’’اہم‘‘ کے کیسز اور ’’غیر اہم‘‘ کے کیسز میں فرق نظر آتا ہے۔ اگر قانونی اخراجات ادا کرنے ہیں تو صرف ایک کے کیوں ادا کرنے ہیں، باقی تمام پاکستانیوں کے کیوں نہ ادا کیے جائیں۔
سوال یہی ہے کہ باقی پاکستانیوں کی رہائی کے لیے خط کیوں نہ لکھا جائے؟ میں کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف نہیں۔ لیکن میرا مقصد اس اصول کو سامنے رکھنا ہے کہ سب کے لیے یکساں نظام انصاف ۔ بیرون ملک جیلوں میں قید اکثر قیدیوں کے لواحقین کہتے ہیں کہ ان کے لوگ بے قصور اور بے گناہ قید ہیں۔ کیا کسی غیر ملک کا نظام انصاف کسی کے لواحقین کے کہنے پر یقین کرے گا۔ عوامی رائے پر بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ عدالت نے قانون اور ثبوت دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔
میں نظام عدل کے انتظامی اختیارات یا معاملات کی بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیو نکہ یہ میرا کام نہیں ہے۔ کوئی جج چھٹی پر تھا یا نہیں،کاز لسٹ چھٹی کی وجہ سے منسوخ ہو چکی تھی۔یا نہیں ، یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل معاملہ سسٹم کو ٹھیک رکھنے کا ہے تاکہ پاکستان کے عوام کو یکساں انصاف کے اصول پر انصاف مل سکے۔ پاکستان میں بہت عرصے سے نظام عدل پر تند و تیز باتیں ہوتی چلی آرہی ہیں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ایگزیکٹو کے معاملات میں جتنا ممکن ہوسکے، اتنا اجتناب کیا جانا چاہیے، سفارتی معاملات میں بالکل مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔