واشنگٹن:

معروف ارب پتی صنعتکار ایلون مسک نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ ٹیکس میں کٹوتی اور حکومتی اخراجات سے متعلق بل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ایک مکروہ اور شرمناک اقدام قرار دیا ہے۔

صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ مکمل حمایت کرنے والے مسک کا کہنا ہے کہ یہ بل وفاقی خسارے میں مزید اضافہ کرے گا اور قوم کے مستقبل پر منفی اثرات ڈالے گا۔

اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک نے کہا کہ معذرت کے ساتھ، لیکن اب مزید برداشت نہیں ہو رہا۔

یہ کانگریس کا ایک بڑا، فضول اور ناقابل قبول اخراجاتی بل ہے، جو ایک مکروہ عمل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اس بل کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں، انہیں شرم آنی چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ نے غلط کیا۔

مسک کے ان بیانات نے واشنگٹن میں نئی بحث چھیڑ دی ہے، بالخصوص ان ریپبلکن اراکین کے درمیان جو بجٹ خسارے پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایلون مسک کی ٹرمپ انتظامیہ سے اچانک کنارہ کشی، ’ ڈاج ‘ کے سربراہ کا عہدہ بھی چھوڑ دیا

کئی قدامت پسند ریپبلکن سینیٹرز نے مسک کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے بل پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا ہے، جس سے اس قانون سازی کی منظوری میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ یہ بل صدر ٹرمپ کی ٹیکس کٹوتیوں کو توسیع دینے کے ساتھ ساتھ دفاعی اخراجات اور بارڈر سیکیورٹی پر مزید فنڈز فراہم کرنے کی شقیں رکھتا ہے۔

غیرجانبدار کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق یہ قانون وفاقی قرض میں 3.

8 کھرب ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہے، جو پہلے ہی 36.2 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

ایوان نمائندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز) پہلے ہی اس بل کو ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کر چکا ہے۔ اب سینیٹ میں، جہاں ریپبلکن کی اکثریت ہے،  One Big Beautiful Bill Act   کے نام سے اس قانون کی منظوری اگلے ماہ متوقع ہے، تاہم اس میں ترامیم کی بھی توقع ہے۔

سینیٹ فنانس کمیٹی کے رکن سینیٹر اسٹیو ڈینز کے مطابق، بدھ کے روز کمیٹی کے ارکان وائٹ ہاؤس میں سابق صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے تاکہ کاروباری ٹیکس چھوٹ کو مستقل کرنے پر بات چیت کی جا سکے۔ ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اس اقدام سے بل کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ بزنس ٹائیکون ایلون مسک نے گزشتہ سال امریکی صدارتی انتخابات میں کھل کر کانگریس کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی تھی اور پارٹی فنڈ میں لاکھوں ڈالر عطیہ بھی دیا تھا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایلون مسک نے

پڑھیں:

ایک ارب کے ترقیاتی پروگرام کی منظوری 400ارب کٹوتی ہوگی : آدھے سے زیادہ بجٹ قرض ادائیگی میں جائیگا ‘ 118منصوبے بے بند : ٹیکس نیٹ بڑھانے ، چوری روکنے کیلئے قومی مہم کی ضرورت : احسسن اقبال

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) اے پی سی سی نے آئندہ مالی سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کے وفاقی  ترقیاتی پروگرام کی منظوری دے دی ہے۔ 118 سے زائد غیر ضروری منصوبے بند کر دیے گئے ہیں  جبکہ 10ہزار ارب روپے کی لاگت کے منصوبوں کا  تھرو فارورڈ  کیا گیا ہے۔  پنجاب اور سندھ کا ترقیاتی پروگرام وفاق سے  بڑھ گیا۔ پیٹرولیم کے نرخ کم نہ کر کے  حاصل ہونے والے120  ارب روپے بلوچستان کی سڑکوں کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر 644ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اے پی سی سی کے اجلاس میں سندھ کے  وزراء،  کے پی کے مشیر خزانہ، بلوچستان کے وزیراعلی نے ویڈیو لنک پر جبکہ پنجاب کی نمائندگی ویڈیو لنک پر منصوبہ بندی کے اعلی افسر نے کی۔ اجلاس میں پنجاب کی طرف سے کوئی وزیر شریک نہیں ہوا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا  نصف سے زائد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جائے گا۔ 118 سے زائد غیر ضروری منصوبے  بند کیے ہیں۔ اجلاس میں چیف اکانومسٹ ڈاکٹر امتیاز نے شرکاء کو آئندہ سالانہ ترقیاتی منصوبہ، معاشی روڈ میپ اور ترجیحی اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند سالوں کے معاشی چیلنجز کے باعث قومی ترقیاتی بجٹ میں مسلسل کمی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ترقیاتی فنڈز میں وسعت وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ عوام صحت، تعلیم، پانی، بجلی اور انفراسٹرکچر میں بہتری کی توقع منتخب حکومتوں سے رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت وفاقی بجٹ کا نصف سے زائد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے اور موجودہ وسائل میں ترقیاتی بجٹ کو مینج کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، 1400 ارب تھا‘ 400 کی کمی کی تجویز ہے۔ جس میں تمام وزارتوں کے منصوبے شامل کرنا ممکن نہیں تھا۔ احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس چوری کی روک تھام اور ٹیکس نیٹ کے پھیلاؤ کے لیے قومی سطح پر مربوط مہم کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس ریونیو کی شرح کم ترین ہے۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ 118 سے زائد کم ترجیحی یا غیر فعال منصوبے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ محدود فنڈز میں صرف اہم قومی منصوبوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ پی ایس ڈی پی میں غیر ملکی فنڈنگ والے منصوبے بھی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ دیامیر بھاشا ڈیم، سکھر حیدرآباد موٹر وے، چمن روڈ، قراقرم ہائی وے (فیز ٹو) جیسے بڑے منصوبے قومی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی بروقت تکمیل پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اڑان پاکستان پروگرام کے تحت تمام صوبوں میں ورکشاپس کا انعقاد کر کے قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ وقت کے ساتھ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا، نہ کہ اسے مزید محدود کرنا۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء میں نئے منصوبے شروع کرنے کے بارے میں سوچتے تھے، آج  جاری منصوبوں کو محدود کرنے کے حوالے سے  مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ قومی ترقی میں سب کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اگر کوئی منصوبہ شامل نہ ہو سکا تو پیشگی معذرت۔ آئندہ مالی سال کا ترقیاتی بجٹ رواں سال کے مقابلہ میں کم ہے، اگر اس میں سے  پیٹرولیم کے نرخ کم نہ کر کے جو رقم حاصل کی گئی ہے اس کو منہا کیا جائے تو اصل رقم880ارب روپے بنتی ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے وفاقی وزارتوں، ڈویژنز کا ترقیاتی بجٹ 662 ارب روپے رکھنے کی تجویز شامل ہے، جس میں کابینہ ڈویژن کے ترقیاتی سکیموں کے لیے 50 ارب 34 کروڑ روپے، ایس آئی ایف سی کا ترقیاتی بجٹ 50 کروڑ 30 لاکھ روپے، سائنس و ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ4 ارب 79 کروڑ روپے جبکہ ریونیو ڈویژن کا 6 ارب 15 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے۔ وزارت آئی ٹی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 13 ارب 53 کروڑ روپے جبکہ وزارت داخلہ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 10 ارب 91 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ این ایچ اے کا ترقیاتی بجٹ 229 ارب روپے جبکہ پاور ڈویژن کا ترقیاتی بجٹ 104 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز شامل ہے۔ آئندہ مالی سال صوبوں اور خصوصی علاقہ جات کا ترقیاتی بجٹ 245 ارب 89 کروڑ روپے جبکہ صوبائی منصوبوں کے لیے93 ارب 44 کروڑ روپے کا بجٹ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے لیے 70 ارب 44 کروڑ روپے، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 82ارب روپے جبکہ ایچ ای سی کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 45 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے 140 ارب روپے، وفاقی وزارت تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے19 ارب 68 کروڑ روپے جبکہ وفاقی وزارت صحت کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 15 ارب 34 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے منصوبوں کے لیے 4 ارب 75 کروڑ روپے جبکہ ریلویز کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 24 ارب 71 کروڑ روپے سے زائد جبکہ سپارکو کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 24 ارب 15 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ وزارت دفاع کے ترقیاتی بجٹ کے لیے 11 ارب 55 کروڑ روپے سے زائد جبکہ دفاعی پیداوار کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک ارب 79 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ جی ڈی پی گروتھ 4.2 ، زرعی شعبے کی گروتھ کا ہدف 4.5 ، لائیو سٹاک 4.2 اور صنعتی شعبے کی گروتھ کا ہدف 4.3 فیصد رکھنے کی تجویز سامنے آئی۔ قومی نوعیت کے حامل اور پانی کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی، بھارت کی دھمکیوں کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کی جلد تعمیر لازم ہوگئی ہے، قراقرم ہائی وے فیز ٹو کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں گے، این 25 کراچی کوئٹہ چمن شاہراہ کی تعمیر کی جائے گی، حیدر آباد سکھر موٹروے بھی ترجیحات میں شامل ہے۔ اینوئل پلان کوارڈینیشن کمیٹی نے وفاق اور صوبوں کے  مجموعی سالانہ  ترقیاتی  پروگرامز کے لئے 4ہزار 83 ارب روپے  مختص کرنے کی سفارش کی ہے  جس کی حتمی منظوری 5جون کو این ای سی دے گی  جس کی صدارت وزیراعظم کریں گے۔ مجموعی  پروگرام میں ایک ہزار ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی پروگرام شامل ہے۔288 ارب روپے سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں کا ترقیاتی  پروگرام ہے، جبکہ 2795 ارب روپے پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے ترقیاتی پروگراموں کے لیے مختص ہوئے ہیں۔ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام میں 28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ وفاق کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 9.09 فیصد کی کمی آئی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1650 ارب روپے کا مطالبہ رکھا تھا۔ فنانس  ڈویژن نے آئندہ مالی سال کے لیے 921 ارب روپے دینے کا عندیہ دیا۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت  کے بعد  اسے ایک ہزار ارب روپے کیا گیا۔ اس ایک ہزار ارب روپے کے سالانہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں 270 ارب روپے غیر ملکی امداد کی صورت میں شامل کیے گئے ہیں۔ سالانہ وفاقی  ترقیاتی پروگرام میں جو ترجیحات مقرر کی گئی ہیں ان کے تحت ایسے منصوبوں کو پروگرام میں شامل کیا گیا ہے جو وسیع ثمرات کے حامل ہوں جن میں غیر ملکی مدد بھی حاصل ہو اور وہ تکمیل کے قریب ہوں۔ نئے طریقے پروگرام میں 1120 منصوبے شامل ہیں ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو آئندہ تین سے چار سال میں مکمل ہوں گے۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں بھاشا ڈیم، حیدر آباد سکھر موٹروے کو ترجیح دی گئی ہے اور بلوچستان کے لیے 250 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ توانائی کے شعبے کے لیے 144 ارب روپے رکھے گئے۔ سماجی سیکٹر کے لیے 150 ارب روپے رکھے گئے، تعلیم کے سیکٹر کے لیے 63 ارب روپے، صحت کے لیے 22 ارب روپے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 63 ارب روپے اور کے پی کے کے ضم شدہ اضلاع کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سائنس اور آئی ٹی سیکٹرز کے لیے 53 ارب روپے، گورننس کے لیے نو ارب روپے، زراعت اور انڈسٹریز کے لیے مجموعی طور پر 11 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مختلف سیکٹرز کے لیے 62.5 فیصد کی کٹوتی آئی ہے۔ واٹر سیکٹر کے لیے سرکاری منصوبوں کی کٹوتی 19.2  فیصد آئی ہے‘ واٹر سیکٹر کے لیے 135 ارب روپے کے بجٹ کو کم کر کے ایک سو نو ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ سماجی سیکٹر کے لیے 25 فیصد کی کٹوتی ہوئی ہے۔ اس سیکٹر کے لیے 200 ارب روپے کے بجٹ کو کم کر کے 150 ارب روپے کیا گیا ہے۔ فوڈ اور ایگری کلچر کے لیے مختص بجٹ میں 62.5 فیصد کی کمی آئی ہے، یہ اٹھ ارب روپے سے کم کر کے تین ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ خصوصی علاقوں جیسے اے جے کے اور جی بی کے لیے ترقیاتی مقاصد کے لیے رقوم میں 16 فیصد کی کمی آئی ہے۔ یہ 75 ارب سے کم کر کے 63 ارب روپے کیا گیا ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پنجاب کا ترقیاتی بجٹ جو 842 ارب روپے تھا اسے بڑھا کر 1188 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ سندھ ترقیاتی بجٹ 87 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بلوچستان نے اپنے ترقیاتی مقاصد کے لیے 280 ارب روپے رکھے ہیں۔ وفاقی ترقیاتی پروگرام اور صوبوں کے ترقیاتی منصوبے حتمی منظوری کے لیے پانچ جون کو این ای سی کی میٹنگ میں پیش کیے جائیں گے۔ این ای سی کی میٹنگ وزیراعظم کی صدارت میں ہوگی۔ اجلاس میں رواں سال کے پی ایس ڈی پی کی تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔ بتایا گیا کہ قومی اقتصادی کونسل نے رواں سال کے لئے  کل ترقیاتی بجٹ 3,792.3 ارب روپے کی منظوری دی، جس میں 1,400 ارب روپے وفاقی ، 2,095.4 ارب روپے صوبائی  اور 196.9 ارب روپے سرکاری اداروں کے لیے تھے۔ تاہم مالی دبائو کے باعث وفاقی  پروگرام  کو کم کر کے 1,100 ارب روپے تک محدود کر دیا گیا۔ 31 مئی 2025 تک 1,036 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی جا چکی تھی جبکہ 596 ارب روپے خرچ کیے جا چکے تھے۔ کل 1,071 منصوبے پی ایس ڈی پی  میں شامل تھے جن کی مجموعی لاگت 13,427 ارب روپے تھی۔ وفاقی وزیر نے شرکاء کو بتایا کہ 7 مئی 2025 کو مشرقی سرحد پر جنگ کی صورت حال پیدا ہونے کے بعد ملک کو نہ صرف سکیورٹی خدشات کا سامنا ہے بلکہ دفاعی اخراجات میں بھی اچانک اضافہ ہوا ہے، جس سے ترقیاتی بجٹ پر دباؤ بڑھا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ حکومت دفاع اور ترقی کے درمیان توازن قائم کرنے کی مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے، تاہم یقین دلایا کہ ترقیاتی سفر کو کسی صورت روکا نہیں جائے گا۔ آئیے مل کر اڑان پاکستان کو حقیقت بنائیں اور پاکستان کو پائیدار ترقی، معاشی خودداری اور قومی وقار کی جانب لے کر جائیں۔ اڑان پاکستان محض ایک منصوبہ نہیں، یہ ہماری قومی امنگوں کی روح ہے۔"

متعلقہ مضامین

  • بھارتی وفد نے اقوام متحدہ کےساتھ انگیج ہی نہیں کیا، حنا ربانی کھر کا تہلکہ خیز انکشاف
  • ایلون مسک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ اخراجات بل کو’ ’گھناﺅنی حرکت“ قراردے دیا
  • نریندر مودی جنگی مجرم ہے، نیویارک کے سوشلسٹ میئرل امیدوار کا تہلکہ خیز بیان
  • ایلون مسک کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید
  • ’نریندر مودی جنگی مجرم ہے‘، نیویارک کے سوشلسٹ میئرل امیدوار کا تہلکہ خیز بیان
  • ایلون مسک کی ٹرمپ کے ٹیکس میں کٹوتی اور اخراجات بل پر تنقید
  • ٹرمپ کا بجٹ بل ’قابلِ نفرت غلاظت‘ ہے، ایلون مسک
  • ایلون مسک کا واٹس ایپ کی ٹکر پر ایکس چیٹ متعارف کرانے کا اعلان
  • ایک ارب کے ترقیاتی پروگرام کی منظوری 400ارب کٹوتی ہوگی : آدھے سے زیادہ بجٹ قرض ادائیگی میں جائیگا ‘ 118منصوبے بے بند : ٹیکس نیٹ بڑھانے ، چوری روکنے کیلئے قومی مہم کی ضرورت : احسسن اقبال